۔،۔پاک سویڈن کے سفارتی تعلقات کے 75 سال۔ عارف محمود کسانہ ۔،۔
٭پاکستان اور سویڈن کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں۔ دوستی کے اس سفر آغاز 25 اکتوبر 1949ء سے ہوا جب سویڈن کی جانب ہیری ایریکسن نے پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اپنی سفارتی اسناد پیش کیں اور پاکستان کی جانب سے 1952ء میں میر محمد خان سویڈن کے لئے سفیر تعینات ہوئے۔ اس طرح پچھہتر سال سے سفارتی تعلقات کا دور جاری ہے اور سویڈن میں پاکستان کے موجودہ سفیر جناب بلال حئی چوبیسویں سفیر ہیں ٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/سویڈن۔پاکستان اور سویڈن کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں۔ دوستی کے اس سفر آغاز 25 اکتوبر 1949ء سے ہوا جب سویڈن کی جانب ہیری ایریکسن نے پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اپنی سفارتی اسناد پیش کیں اور پاکستان کی جانب سے 1952ء میں میر محمد خان سویڈن کے لئے سفیر تعینات ہوئے۔ اس طرح پچھہتر سال سے سفارتی تعلقات کا دور جاری ہے اور سویڈن میں پاکستان کے موجودہ سفیر جناب بلال حئی چوبیسویں سفیر ہیں۔سویڈن کی غیر جانبدارانہ حیثیت اور اقوام امتحدہ کے بنیادی رکن ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر بہت اہمیت تھی۔ اقوام متحدہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل داگ ہمیر شلد کا تعلق بھی سویڈن سے ہی تھا۔ اس دور میں مسئلہ جموں کشمیر عالمی سطح پر نمایاں تھا۔ جموں کشمیر میں جنگ بندی کے بعد ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان حد متارکہ پر جب اقوام متحدہ کی افواج تعینات کی گئیں تو سویڈش مسلح افواج اس کا مشن کا حصہ بنیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین مشن میں شامل سویڈن کی فوج کے ایک کرنل نے مسئلہ جموں کشمیر پر ایک اہم کتاب بھی لکھی ہے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل داگ ہیمرشلد نے مسئلہ جموں کشمیر حل کروانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ایک فضائی حادثہ میں ان کی ہلاکت کے بعد یہ سلسلہ اس طرح سے متحرک نہ رہ سکا۔سویڈن کے ہی ایک ثالثی فیصلہ کے نتیجہ میں پاکستان کو رن آف کچھ کا علاقہ ملا۔ رن آف کچھ میں پاکستان اور بھارت میں 1956ء اور 1965ء میں دو جنگوں کے بعد اقوام متحدہ نے ثالثی کے لئے ایک ٹریبونل قائم کیا جس کے سربراہ سویڈن کے قانون دان اور سفارت کار گنر لیکر گرین تھے۔ ٹربیونل نے 19 فروری 1968ء کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا جس کے مطابق چھڈ بٹ کنجر کوٹ اور رن کچھ کے دیگر کئی علاقے، جن کا رقبہ تقریبا ساڑھے تین سو مربع میل تھا پاکستان کو مل گئے اور بھارت کا دعویٰ مسترد کردیا۔ پاکستان اور سویڈن کے درمیان تعلقات باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتداء میں یہ تعلقات زیادہ تر تجارتی معاملات پر مرکوز تھے۔ سویڈن نے پاکستان کو مختلف شعبوں میں معاونت فراہم کی، جن میں صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور تعلیمی شعبہ شامل ہیں۔ سویڈن نے پاکستان کے تین شہروں گجرات، کراچی اور چٹاگانگ میں ٹیکنیکل اور انجینئرنگ کے انسٹیٹیوٹ قائم کئے۔ سویڈش کمپنی ٹیپرا پیک نے پاکستان میں کام شروع کیا جس کی بدولت آج بھی ملک کے طول و عرض میں لوگوں کو پیک شدہ دودھ اور مشروبات دستیاب ہیں۔ پاکستان کی سڑکوں پر سویڈن کی دی گئی والوو بسیں دوڑتی نظر آئیں۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، ہر قدرتی آفت کے موقع پر سویڈن نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی۔ جی ایس ٹی پلس کے معاملہ میں سویڈن کے تعاون سے پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں معاونت حاصل ہوئی۔ٹیکنالوجی، دفاعی، آٹوموبائل اور کمیونیکیشن کے شعبے میں سویڈش اداروں نے پاکستان کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ سویڈن کی کمپنی ایریکسن نے پاکستان کے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے رہے۔ پاکستان کے وزراء اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر پرویز مشرف نے سویڈن کے دورے کئے۔ پاکستان کے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد سویڈن کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ سویڈن کی جامعات سے بہت سے پاکستانی طلباء نے اعلی تعلیم حاصل کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سویڈن کے تیس سے زائد کاروباری اور صنعتی ادارے پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔پاکستان اور سویڈن کے درمیان سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے حوالے سے دونوں ممالک میں تقاریب کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سویڈن میں سفیر پاکستان جناب بلال حئی کی جانب سے پاکستان ہاؤس میں ایک پروقار استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں میں سویڈن کی وزارت خارجہ کے حکام، کاروباری برادری کے نمائندوں، تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ممتاز سویڈش اور پاکستانیوں نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیر پاکستان نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان تعلقات کو مضبوط بنانے میں سویڈن میں مقیم پاکستانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر سویڈن کی وزارت خارجہ میں ایشیا پیسیفک کے ڈائریکٹر جنرل نے دونوں ممالک کو مبارکباد پیش کی اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم رکھنے کی امید اور عزم کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ ان حالات میں منائی جارہی ہے کہ پاکستانیوں پر سویڈن کے سفارت خانہ کے دروازے بند ہیں۔ گزشتہ سال اپریل سے جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ اب بھی برقرار ہے اور سویڈن کے سیاحتی ویزہ کے پاکستانیوں کو تھائی لینڈ جبکہ طویل مدتی ویزہ کے لئے ایتھوپیا کا رخ کرنا پڑتا ہے جس میں وقت اور خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔ سویڈن میں مقیم پاکستانی نژاد سویڈش شہری اپنے عزیزوں کو اپنے ہاں ملاقات کے لئے نہیں بلوا سکتے۔ کاروباری طبقہ، طلبہ اور فیملی ویزہ کے لئے عدیس ابابا جانا پڑ رہا ہے۔ حیرت اس امر ہے کہ اسلام آباد میں سویڈش سفارت خانہ کھلا ہے اور تمام سرگرمیاں وہاں جاری ہیں صرف قونصلر سروس بند ہے۔ اسلام آباد میں تمام دیگر ممالک کے سفارت خانے قونصلر سروس مہیا کررہے ہیں جن میں سویڈن کے ہمسایہ ممالک ڈنمارک، فن لینڈ اور ناروے بھی شامل ہیں۔ گذشتہ سال سیکورٹی کی وجہ سے سفارت بند کیا کیا لیکن جب دوبارہ سفارت خانہ کھلا تو ویزہ سروس بحال نہ کی گئی۔ کیا سیکورٹی کا مسئلہ صرف قونصلر سروس کے عملہ کے لئے ہے؟۔ یہ کیسا 75 سالوں کے سفارتی تعلقات کا جشن ہے کہ سفارت خانہ کام کررہا ہے لیکن عوام کے لئے بند ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہکو اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنا چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار جو کہ نائب وزیر اعظم بھی ہیں، ان کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ اپنا بھر پور کردار ادا کریں اور یہ مسئلہ حل کرائیں۔ یہ پاکستان کے قومی وقار اور عزت کا بھی معاملہ ہے۔ سویڈن میں مقیم پاکستانیوں کو ہمسایہ ملک کے لوگوں سے اس بارے میں طعنے سننے پڑتے ہیں تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔کیاوزیر خارجہ اور حکومت پاکستان سویڈن میں رہنے والے پاکستانیوں کو اس طعنے سے نجات دلا سکیں گے؟