۔،۔یکم نومبر یوم آزادی صوبہ گلگت بلتستان۔میر افسر امان۔،۔
یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان نے جموں،کشمیر،گلگت بلتستان،ہنزہ اور نگر،ریاستوں کے ہندو ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوجوں سے لڑ کر آزادی حاصل کی تھی۔اصل آزادی تو 14/ اگست 1947ء ہے، جب ہندوستان دو ریاستوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا تھا۔ ہر سال یکم نومبر کو گلگت بلتستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ پرچم کشائی میں حکومتی عہدے دار بیروکریسی، فوج کے نمایندے شامل ہوتے ہیں۔2020ء میں اُس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا تھا۔1947ء میں میجر ولیم براؤن جو برٹش انتظامیہ کی طرف سے گلگت بلتستان میں اسکاؤٹ کے انچارج تھے۔ ان کی کمانڈ میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مل کر نے ڈوگرہ مہارجہ ہری سنگھ کی طرف سے گلگت میں تعینات گلگت کے گورنر بریگیڈئیر گھندارا سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔راجہ شاہ رئیس کو گلگت کی نئی آزاد ریاست کا صدر بنا دیا گیا۔کیپٹن مرزا حسن خان کو آرمی کا انچارج بنا دیا گیا۔گلگت کے عوام نے آزدی کے پندرہ دن بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دے دی۔ پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کے حکمرانوں نے بھی بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ساتھ معاہدہ کر کے پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔دوگرہ راجہ ہری سنکھ کے وقت جموں کشمیر ریاست، کشمیر،جموں، لداغ، گلگت،بلستان، ہنزہ، نگر پر مشتمل تھی۔ تقسیم کے فارمولے کے تحت جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ پاکستان میں اور جن صوبوں میں ہندوؤں کی اکثریت وہ بھارت میں شامل ہو گئے۔ ریاستوں کو بھی اسی فارمولے کے تحت پاکستان اور ہندوستان میں شامل ہونا تھا۔بھارت نے چانکیہ سازش کرتے ہوئے، کشمیر جس کی آبادی اکثریت مسلماں پر مشتمل تھی نے پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ جیسا گلگت، بلتستان، ہنزہ اور نگر شامل ہوئیں تھیں۔ مگر بھارت نے 27/اکتوبر 1947 کو کشمیر کی دالخلافہ سری نگر میں ہوائی جہازوں سے فوجیں اُتار کر فوجی قوت سے قبضہ کر لیا۔ پونچھ کے سابق فوجیوں نے اس پربھارت کی فوجوں سے لڑائی شروع کی۔ پاکستان کی فوج اور پاکستان کے پٹھان قبائل نے میدان میں اُترے اور موجودہ تیس سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا علاقہ کو آزدد جموں و کشمیر ہے کو بھارت سے آزاد کرا لیا۔ پاکستان سری نگر کے قریب پہنچ گیا تھا۔ پورا کشمیر فتح ہونے والا تھا۔ بھارت کا مکار وزیر اعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ میں دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ جنگ بندی کے بعد امن قائم ہونے پر کشمیریوں کو حق دیا جائے گا۔ اس کے لیے کشمیر میں رائی شماری کرائی جائے گی۔ کشمیر کے لوگ جو بھی رائے دیں گے اس کا ا حترام کیا جائے گا۔ مگر بھارت کے حکمران اپنے وعدے سے مکر گئے۔مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات کروا کر کہنے لگے کشمیر نے بھارت کے ساتھ رہنے کی رائے دے دی ہے۔ اس سفید جھوٹ کو وہ بار بار دھراتے رہتے ہیں۔ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک شروع کی جو اب تک جاری ہے۔انگریزوں نے ہندوستان مسلمان مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے چھینا تھا۔ اس لیے شروع سے ہی حکمرانوں سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ ہندوؤں کو آگے آگے رکھتے۔ اس پالیسی سے جاتے جاتے تقسیم میں بے انصافی کرتے ہوئے کشمیر میں داخل ہونے کا واحد راستہ گرداس پور بھارت کو دے دیا۔ اس سے درہ دانیال جوپاکستان کے حصہ تھا سازش کرتے ہوئے بھارت کو دے دیا۔ تاکہ وہ کشمیر پر آسانی سے قابض ہو سکے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ اس خطے کے سارے دریا کشمیر سے پاکستان کی سمت بہتے تھے۔ کسی طرح بھی پاکستان کو پانی دینے والی مکمل کشمیر دینا نہیں چاہتے تھے۔اس لیے پاکستان کے خلاف بھارت کو کھڑا کر کے گئے۔ کشمیرپر بھارت پاکستان کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ایسا ہے مسلمانوں کے خلاف فلسطین میں کیا گیا۔فلسطین یہودیوں کو دے کر تنازہ چھوڑ گئے۔ یہودی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔یہ عیسائیوں کی مسلمانوں سے صدیوں سے دشمنی کی وجہ ہے۔ مسلمانوں نے ان کی”روما“ سلطنت کو شکست دی تھی۔گلگت بلتستان کے عوام ذہیں تھے۔ آزادی کے پندرا ہی دن بعد پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی سازشیں کرنا شروع کیں۔ وہاں بھی اپنے دہشتگردوں سے کاروائیاں کرائیں۔جب چین نے گلگت کے راستے سے گوادر تک رسائی کے لیے سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا یا تو بھارت نے اسے سبوثاز کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے لیے اپنے بجٹ میں فنڈ مختص کیے۔ کہا کہ یہ خطہ متنازہ ہے۔ اس لیے جہاں کسی دوسری قوت کو دخل دینے کا حق نہیں۔ چانکیہ سیاست اور سفید جھوٹ بولنے والا بھارت اس خطے کے ایک حصے کشمیر جو اقوام متحدہ میں بین الاقوامی طور پر منظور شدہ تنازہ ہے۔ جس کے لیے خود بھات اقوام متحدہ گیا تھا۔ دعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود اداریت کے تحت رائے شماری کا حق دے گا کہ آزاد رائے سے بھارت یا کشمیر میں شامل ہو جائیں۔ اپنے اس وعدے سے بھارت مکر گیا۔ کہتا ہے کہ کشمیر کے عوام نے ا لیکشن میں بھارت کے ساتھ رہنے کی رائے دے دی ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کو متنازہ علاقہ کہتا ہے۔ اس خطے میں دہشت گردی اور مداخلت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دہشت گرد ہٹلر صفت وزیر اعظم بھارت مودی، بھارت کے یوم آزدی پر تقریر کرتے ہوئے گلگت بلتستان کانا م لے کر کہتا ہے کہ وہاں کی عوام کی طرف سے اُسے سے مدد کے لیے اُسے فون کالیں آرہی ہیں۔یہ سب کچھ کیوں ہے۔ یہ ہماری بے ضمیر حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم ؒکے دو قومی نظریہ کو نقصان پہنچا کر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بھارت کی ایماپر اسے سیکولر ملک بنانے پر عمل درا کرتے ہیں۔پاکستان جسے بانی پاکستان نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس پربھارت پر دباؤ ڈالنے کے بھارت سے تجارت کو اوّلیت دیتے ہیں۔بھارت شملہ معاہدے کے باوجود جب کشمیر میں سیاہ چن پر قبضہ کرتا ہے تو اسے پر خاموش رہتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایات دے کہ وہ پاکستان کو اس کی اصل منزل پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الااللہ“ پر ڈالیں۔ ایک اسلامی پاکستان ہی بھارت سے ہمیں کشمیر دلاسکتا ہے۔ برا بری کی بنیاد پر اچھے پڑوسی بننے کی رائیں کھل سکتی ہیں۔تجارت ہو سکتی ہے۔ دوستی ہو سکتی ہے۔ خطہ پر امن رہ کر ترقی کی منازلیں طے کر سکتا ہے۔ہم پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے عوام کو یکم نومبر کو یوم آزادی منانے پر مبارک باد دیتے ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست جو ایک ایٹمی اور میزائل قوت ہے کی دن دگنی رات چگنی ترقی اور حفاظت کی دعا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سیاستدانوں سے ماضی میں کئی گئیں غلطیوں کی تلافی کی بھی درخواست کرتے ہیں۔اللہ کرے وہ اسلام کے سپاہی بن کر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کر دیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو عوام ان کے گیت گائیں گے۔ ان کے حق میں دعائیں کرے گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔