0

۔،۔ اجالوں کا سفر ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ اجالوں کا سفر ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

۵ نومبر(۴۲۰۲) کا دن صرف امریکی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں بھی اپنی اعلی جمہوری اقدار کی وجہ سے ایک یاد گار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ایک ایسا دن جب جمہوریت فتح سے ہمکنار ہو ئی اور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی رائے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈولنڈ ٹرمپ ایک متلون مزاج انسان ہیں اور اپنی گفتگو میں احتیاط کا مظاہرہ کم ہی کرتے ہیں لیکن حالیہ واقعات نے انھیں ایک ایسے قائد کی صورت میں پیش کیا ہے جو امن و سلامتی اور رواداری کا داعی ہے۔اسرائیل نے حالیہ دنوں میں مسلمانوں اور عربوں کا جس بے رحمی سے قتلِ عام کیا ہے اس نے مسلمانوں کو امریکی صدر جو بائیڈن،نایب صدر کملا ہیرس اور اسرائیلی وزیر ِاعظم نیتن یاہو سے بہت متنفرکر دیا ہے۔مسلمان اپنے معصوم بچوں،عورتوں،بیماروں اور بوڑھوں کے قتل کی ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ ساتھ جو بائیڈ ن انتظامیہ کے کندھوں پر بھی رکھتے ہیں کیونکہ نیتن یاہو انہی کی ہلا شیری اور پشت پناہی سے قصاب بنا ہوا ہے۔ نائب صدر کملا ہیرس ہو ں یا امریکی صدر جو بائیڈن ہوں مسلمانوں کے دل ان کی بے حسی پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ امریکی حکومت کی پشت پناہی اور سر پرستی سے نیتن یاہو نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ ڈھائے ہیں تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ایرانی صدر اور فلسطینی قیادت کا کھلے عام قتل انتہائی غیرمعمو لی واقعات ہیں جس نے عالمِ اسلام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔کون ہے جو اپنے نو نہالوں اور بیٹیوں کی موت کو برداشت کر سکتا ہے؟ اسرائیل کی اصل قوت امریکہ ہے لہذا مسلمانوں کے اندر امریکی حکمرانوں سے نفرت ایک فطری ردِ عمل ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ کی تاریخی جیت ا سرا ئیلی بربریت کے شکار مسلمانوں کے ووٹوں سے ممکن ہو سکی ہے جس کا اقرار خود ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے۔مسلم ووٹ ڈولند ٹرمپ کے حصہ میں محض اس وجہ سے آیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو امن کی نوید سنائی تھی،روادری کی امید دلائی تھی اور جو با ئیڈن انتظامیہ کے ظلم و ستم سے نجات کا پیغام دیا تھا۔،۔ امریکی الیکشن میں ویسے تو ریڈ اور بلیو ریاستوں کا ایک تصور ہے۔ریڈ ریاستیں ریپبلکن پارٹی کا ساتھ دیتی ہیں جبکہ بلیو ریاستیں ڈیموکریٹ پارٹی کی حمائت کی چادر اوڑھے ہو تی ہیں۔ لیکن حقیقی جیت ان یاستوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے جھنیں سوِنگ ریاستوں کا نام دیا جا تا ہے۔ حتمی فتح کا بگل انہی ریاستوں کی حمائیت میں مضمر ہو تا ہے۔جو کوئی ان ریاستوں کو مٹھی میں لے لیتا ہے فتح سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ نے اس دفعہ ان ریاستوں پر اپنی خصوصی توجہ مرکوز کی اور انھیں مستقبل کے حسین خواب دکھائے۔امن کی نوید اور اسرائیلی مظالم سے نجات کا نعرہ اس کی مہم کا سب سے پر اثر نعرہ تھا۔عوام نے اس نعرہ کو پذیرائی بخشی اور امن کیلئے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔کملا ہیرس اسرا ئیلی مظالم کا معقول دفاع کرنے میں ناکام رہیں لہذا ان کی جیت کے امکانات معد وم ہوتے چلے گے۔آخری ایام میں ان کی مہم میں پہلے والا جوش و خر وش اور ولولہ بھی ماند پڑ چکا تھا لہذا ڈولنڈ ٹرمپ دن بدن مضبوط ہوتے چلے گے۔سوِنگ ریاستوں نے جس طرح کھل کر ڈولنڈ ٹرمپ پر ووٹوں کی بارش کی ہے وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پچھلے انتخابات کا ریکارڈ دیکھیں تو ریپبلکن کو ایسی شاندار فتح کبھی نصیب نہیں ہوئی۔بنیادی طور پر سوِ نگ ریاستیں ڈیمو کریٹ کو ہی سپورٹ کرتی تھیں لیکن اس دفعہ عربوں اور پاکستانیوں کے جذبوں نے رنگ دکھایا اور ڈیمو کریٹ کو شکست سے ہمکنار ہو نا پڑا۔عرب امن کی خاطر مستقبل کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اسرائیلی بر بریت سے نجات کے متمنی ہیں جبکہ پاکستانیوں کو یقین دلا گیا تھا کہ پاکستان سے آمرانہ طرزِحکومت کا خاتمہ ہو گا اور عمران خان کی رہائی کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ایک طرف اسرائیل کی نفرت تھی جبکہ دوسری طرف عمران خان کی محبت تھی جس نے دولنڈ ٹرمپ کو فتح کی مسند سے ہمکنار کیا۔ جو بائیڈن اور کملا ہیرس کی مضبوط حکومت کے سائے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر کھڑی تھی وہ اگرچاہتی تونتائج کچھ بھی ہو سکی تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔کسی نے کوئی مداخلت نہیں کی ایک صاف، شفاف اور غیر جانبدار عمل نے جمہوریت کی روح کو تازگی عطا کر دی۔عوامی طاقت کا ایسا شاندار مظاہرہ ہوا جس میں جو بائیڈن،کملا ہیرس اور اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت عوامی طاقت کے سامنے خش و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ جمہور یت جیت گئی اور ہارنے والے بس دیکھتے رہ گئے کہ ووٹ کی طاقت کا اصلی رنگ ایسا ہی ہوتا ہے۔(بڑے ہی تیر تفنگ چلے تھے دل پر گہرے وار ہوئے تھے۔۔کیسے سونے والے لوگ نیند سے خود بیدار ہوئے تھے)۔۔ (نکل پڑے تھے راہِ وفا پر لہو میں بھیگے پرچم لے کر۔۔ا ن کے نعروں کی ضربوں سے درو دیوار ہلے ہوئے تھے)۔،۔امریکی انتخابات میں لا پتہ افراد کا معاملہ نہیں ہوا،کسی کا اغوا نہیں ہوا،کسی کا انتخابی نشان نہیں چھنا،کسی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہیں ہوئے، کسی کو نا اہل نہیں کیا گیا، کسی کو بزورِ قوت جماعت بدلنے پر مجبور نہیں کیا گیا،ضمیر کی آوازیں سنائی نہیں دیں اور کہیں پر بھی ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کسی کی بیوی اور بچوں کو یر غمال نہیں بنایا گیا۔جس جماعت کو ووٹ کاسٹ کیا گیاوہ ا سی جماعت کا مقدر بنا۔فارم ۷۴ کا المیہ پاکستان جیسے ملک میں ہی رونما ہو سکتا ہے۔جہاں پر ہارنے والے پارلیمان کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمان کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو گی کہ جھنیں عوام نے مسترد کر دیا ہے وہی عوامی نمائندگی کے دعویدار بن کر پارلیمان کو رسوا کر رہے ہیں۔لوگ محوِ حیرت ہیں کہ ایک غیر مسلم ریاست آئین و قانون اور عدل و انصاف کا علم تھامے دنیا کو اپنی اعلی روایات سے اپنا گرویدہ بنائے ہو ئے ہیں جبکہ مسلمان اپنے ایمان کا سودا کرنے، ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے اور نا انصافی کا بیڑہ اٹھانے میں مگن ہیں۔ امریکی ریاستی پالیسی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے ہاں ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔عوام الناس کی رائے اور اس کا احترام ہی امریکہ کی ترقی،اتحاد اور مضبوطی کا ضامن ہے۔سیاست ہار جیت کا نام ہے۔کوئی مخصوص جماعت سدا اقتدار میں رہ نہیں سکتی لہذا اس کیلئے ضروری ہو تا ہے کہ ایسے قواین وضع کئے جائیں جس سے آزادانہ رائے کا اظہار ممکن ہو سکے۔دنیا کا طاقتو رترین انسان ایک نحیف و کمزور،مفلس،بے بس اور مفلوک الحال انسان کی پرچی سے ہار جائے تو میں تو اسے موجودہ دنیا کا معجزہ ہی کہوں گا۔ چودھری،لارڈ، ملک، جاگیردار، سردار،وڈیرہ اور سر مایہ دار اقتدار کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اسی لئے ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔کوئی ان کا بازو مروڑ نہیں سکتا کیونکہ بازو مروڑنے والے خود ان کی سر پرستی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔جبر وکراہ اور ظلم و ستم کی اندھیر ی رات میں ووٹ ایک شمع کی مانند ہوتا ہے لیکن اس شمع کو بھی حریت پسندوں کے ہاتھوں سے چھین کر انھیں منجمند اندھیروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔بقولِ غالبؔ۔(ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے۔۔ اک شمع ہے دلیلِ سحر سوخا موش ہے)۔امیدِ واثق ہے کہ ڈولنڈ ٹرمپ اس کرہِ ارض پر جہاں ابھی تک ریاستی جبر اور نا انصافی کا دور دورہ ہے اس کا خاتمہ کر نے اور جمہوری قدروں کی ترویج کیلئے اپنی ساری توانائیا ں بروئے کار لائیں گے۔(آؤ جمہور کی طاقت کا جگ میں سب کو رنگ دکھائیں۔۔پیارو محبت والا گیت مل کر آج سارے گائیں)۔۔(ایسی بستی کریں آبادجس پر ہو انصاف کا پہرہ۔۔تمیزِ بندہ و آقا کو اس دھرتی سے سدا مٹائیں)۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں