۔،۔روحانی ہاتھ۔ حصہ دوئم۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
شہروں کی چکا چوند روشنیوں سے میلوں جنگلوں دور جنگل میں باباجی دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف تھے جو دنیا کے ہنگاموں سے دور قرب الٰہی کے جلوؤں میں مستغرق تھے جس طرح گلاب کے پودے کی جڑوں سے لپٹی مٹی سے بھی گلاب کی خوشبو آنا شروع ہو جاتی ہے اُسی طرح حق تعالیٰ کے جلوؤں میں غرق بابا جی کے وجود سے بھی الٰہی رنگ کی خوشبو آہستہ آہستہ جنگل سے پھیلتی ہوئی انسانی آبادیوں میں آنا شروع ہو گئی تھی ذات باری تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ جب بھی کوئی سالک خدا کی تلاش میں شہروں سے دور جنگلوں پہاڑوں میں پناہ لیتا ہے پھر تزکیہ نفس کی بھٹی سے کندن ہو کر پیکر نور میں ڈھلتا ہے تو ایسی تکمیل پانے کے بعد اللہ تعالی اُس کو لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے اُس کے وجود سے نان سٹاپ کرامات کا ظہور اِس لیے کرتا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ یہ میرا محبوب بندہ ہے یہ الہی رنگ میں رنگا جا چکا ہے اب یہ عام سے خاص ہو چکا ہے لہذا اب اِس کے وجود سے شفا اور نور کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں اب اپنے خالی دامن بھر لواپنی بے نور اندھی روحوں کے زنگ کو صحبت میں بیٹھ کر صاف کر لو اپنی خالی جھولیاں بھر لو باطن کے اندھیرے دور کر لو آؤ یہ میرا پسندیدہ بندہ ہے اپنی خالی جھولیاں بھر لو اپنی دعاؤں کو قبولیت کے پر لگا لو جو بارگاہ ِ الہی میں قبولیت کے درجے پر پہنچ سکیں میں بھی روحانی تلاش اور دنیا میں داخل ہو نے کے بعد در در بھٹک کر ایسے ہی ٹرانسفارمر کی تلاش میں تھا جو روحانی کرنٹ سے بھرا ہو تاکہ میں اپنی بے جان روح اور بیٹری کو چارج کر سکوں سالک مشاہدے کے بعد زیادہ محنت کر تا ہے پھر وہ تزکیہ نفس کے کڑے مراحل زیادہ مستقل مزاجی سے حل کرتا ہے جس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے اِسی طرح نور سے نور کا سفر جاری رہتا ہے باباجی کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ساری زندگی شہروں دیہات سے دور جنگلوں باغوں میں گزاری سادی زندگی سادے کپڑے سادی غذا پر زندگی گزاری زیادہ تر پھلوں کو پسند کرتے یا پھر جو کی روٹی اور خو داگائی ہوئی سبزیاں ابال کر استعمال کر تے جسم دنیاوی غذاؤں سے پاک تھا اِس لیے صحت مند زندگی کے ساتھ سوسال کے قریب ہو کر بھی چاک و چوبند اور تندرست تھے باباجی دریائے راوی کے کنارے پر چند کلومیٹر اندر ایک باغ میں مقیم تھے باغ کا مالک جسمانی بیماری سے باباجی سے صحت مند ہو ا تو اُس نے التجا کی کہ اُس کی زمینوں اور باغات کو اپنا ہی سمجھیں لہذا باباجی اب زمیندار کے باغ میں جلوہ گر تھے زمینداروں کے ملازموں کے ساتھ خاندان کے طور پر رہتے تھے کوئی ملازم درخت سے گرا تو اُس کو چوٹیں آئیں اُس نے باباجی سے کہا اُس کو دم کر دیں ان دنوں باباجی بھی ملازموں میں شامل تھے اُس ملازم کو دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا یہ بات مالک تک پہنچی تو وہ بھی دم کروانے آگیا اُس کو بھی جب پرانی بیماری سے شفا ملی تو عقیدت مند ہو گیا با باکہ کو درخواست کی اب آپ میرے ملازم نہیں بلکہ اب میں آپ کا ملازم ہوں آپ اب مالک بن کر باغ میں رہیں میرے لائق جو حکم ہو وہ مجھے کہہ دیا کریں اِس طرح بابا جی اب باغ میں رہنا شروع ہو گئے تھے کیونکہ قدرت نے باباجی کو ظاہر کر ا دیا تھا باباجی کی خوشبو شہروں تک پھیل گئی تھی میں بھی تلاش حق کے صحرا میں ٹھوکریں کھا تا پھر رہا تھا جب مجھے پتہ چلا کہ جنگل میں چشم معرفت پھوٹ پڑا ہے تو ایک دوست کے ہمراہ جنگل کی طرف رواں دواں تھا دریائے راوی کے ریت کے ٹیلوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم زرخیز علاقے میں داخل ہو گیا تقریباچار کلومیٹر پید ل چلنے کے بعد ہم اُس باغ میں داخل ہوئے جہاں پر ایک کامل درویش اپنی خوشبو بانٹ رہا تھا باباجی کا نام نور احمد تھا لیکن نور بابا نور کے نام سے پکارتے تھے میرے انگ انگ اشتیاق اور خوشی سے پھڑک رہا تھا میری کیفیت کا اندازہ وہی طالب لگا سکتے ہیں جو تلاشِ حق کے ریگستان میں ننگے پاؤں ننگے سر تلاش میں پھرتے ہوں اور انہیں اچانک پتہ چلے کہ قریب ہی ٹھنڈے پانی کا چشمہ ہے جا کر اپنی پیاس بجھا لیں میں جیسے ہی باغ میں داخل ہوا تو مالک کے ذوق کی داد دی اُس نے تقریبا ہر قسم کے پھلوں کے درخت لگائے ہوئے تھے اکتوبر کا مہنیہ تھا سردی کی آمد آمد تھی باغ میں مالٹے مسمی کینو فروٹر کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے صحت مند پھلوں کے وزن سے شاخیں جھکی ہوئی تھیں صحت مند پھل دیکھ کر طبیعت خوش ہو رہی تھی باغ میں ملازم مختلف کاموں میں مشغول تھے وہ ہماری باباجی کے ڈیرے کی طرف راہنمائی کر رہے تھے ہم کچے راستے اور پکڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے باباجی کے ڈیرے پر پہنچ گئے وہاں پھر پندرہ سے بیس لوگ پہلے سے موجود تھے پرالی کا موسم تھا زمین پر پرالی بجھا کر دری کا کام لیا گیا تھا باباجی بھی زمین پر قدرے اونچی جگہ بیٹھے تھے ہم بھی جا کر پرالی (دھان کی شاخیں) کے فرش پر بیٹھ گئے باباجی کے سفید لٹھے کے لباس میں سر کے بال بلکل سفید داڑھی مونچھیں بھی سفید رنگ جبکہ باباجی کے بھنویں بھی سفید حتیٰ کہ باباجی کے بازوؤں کے بال بھی سفید ہو چکے تھے لیکن باباجی کے چہرے پر روحانی اور زندگی کی لالی موجود تھی باباجی کے پاس زیادہ تر لوگ کمرے کے مہروں کے درد کے لیے آئے ہوئے تھے یا پھر ناف کے مریض باباجی مریض کو لٹاتے پھر اُس کی کمر پر پھرتے ساتھ ہی دم بھی کرتے حیران کن طور پر معذور نما مریض اٹھ کر بیٹھ جاتا یا چلنا شروع کر دیتا میری پسندیدہ جگہ تھی میں باغ باغ ہو رہا تھا ہم نئے لوگ آئے تھے لہذا ہمارے سامنے دیسی گھی کی دال اور تندوری روٹیاں لا کر رکھ دی گئیں گرما گرم کرسپی روٹیاں دیسی گی کی دال ہم نے مزے سے لنگر کھانا شروع کر دیا ملاقات کا وقت آیا تو باباجی نے میرے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو بولے یہ پڑھتے ہو تو میں نے درودشریف اور یاحیی یاقیوم اور تعداد بھی بتائی تو بہت خوش ہوئے باقی وظائف کے بارے میں پوچھا پھر سن کر بولے ابھی تمہارے دل کا برتن صاف ہو رہا ہے جب صاف ہو جائے گا تو رب کا نور بھی آجائے گا پاک جگہ پر ہی رب کا نور آتا ہے اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کر لو پھر باباجی بولے تمہارے جسم میں کہاں درد ہے تو میں بولا بابا جی دل رب کی اداسی سے غمزدہ رہتا ہے اِس کا غم دور کر دیں تو باباجی نے اپنا ہاتھ میرے سر پر پھر دل پر پھیرا پھر بولے پتر میں بھی تیری طرح مرشد کے پاس گیا تواُس نے حکم دیا جسم کو گناہوں سے پاک کر لو پھر جب رب کا نور آئے گا تو تم وظیفوں سے آزاد ہو جاؤ گے پھر تمہارا ہاتھ جہاں بھی پڑے گا رب تعالیٰ شفا ڈال دے گا جاؤ من کے برتن کو صاف کرو تمہارا سارا وجود لوگوں کے لیے شفا بن جائے گا میں نے باباجی کا ہا تھ اپنے سر پر رکھا دعا لی اور واپس مری چلا گیا اور من کو صاف کرنے کے مشن میں مصروف ہو گیا۔
0