۔،۔ ترکی میں بھیانک اسکینڈل،ڈاکٹروں اور طبی عملہ نے تقریباََ (بارہ) شیر خوار بچوں کی جان لے لی۔نذر حسین۔،۔
٭بارہ بچوں کی موت کا باعث بننے والی مبینہ فراڈ اسکیم کے مرکز میں موجود ترک ڈاکٹر نے ہفتہ کو استنبول کی ایک عدالت کو بتایا کہ وہ ایک (قابل اعتماد) معالج ہے٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/ترکی/استنبول۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی میں کئی دنوں سے اس بھیانک جرم کی تفصیلات گردش مں ی ہیں جس نے ملک میں صحت کے شعبے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس مجرمانہ کاروائی کے نتیجہ میں اسپتالوں میں کم از کم (بارہ) نو مولود بچے ندگی کی بازی ہا ر چکے ہیں جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق کئی دیگر بچے مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔ عدلیہ نے طبی سیکٹرز میں (سینتالیس) افراد پر مقدمہ چلایا ہیجن میں ڈاکٹر فرات ساری بھی موجود ہیں، جن پر نوزائیدہ بچوں کو نجب اسپتالوں کے نوزائیدہ یونٹس میں منتقل کرنے کا الزام ہے، جہاں پر رپورٹ کے مطابق انہیں مبینہ طور پر طویل اور بعض غیر ضروری علاج کے لئے رکھا گیا تھا تا کہ سماجی تحفظ کی ادائیگی حاصل کی جا سکے۔ ڈاکٹر فران ساری نے ترکی کی ایمرجنسی میڈیکل فون لائن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مریضوں کو میرے پاس ریفر کیا گیا کیونکہ لوگوں کو مجھ پر اعتماد تھا، ہم نے (112) سے کسی کو رشوت دے کر مریضوں کو قبول نہیں کیا۔ ڈاکٹر فرات ساری جسے فراڈ اسکیم کا سرغنہ کہا جاتا ہے، استنبول کے کئی نجی اسپتالوں کے نوزائیدہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ چلاتی تھی۔اسے ایک ایسے کیس میں (583 سال) تک قید کی سزا کا سامنا ہے،جہاں چاکٹروں، نرسوں، اسپتال کے منیجرز اور دیگر صحت کے عملے پر نومولود بچوں کی خیریت سے پہلے مالی فائدہ اٹھانے کا الزام ہے۔ گذشہ ماہ سامنے والے اس کیس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے ہاضح رہے اس واقع کے بعد حکام نے اسپتالوں کے لائسنس منسوخ کر دیئے ہیں (19 اسپتالوں میں سے 10 کو بند کر دیا گیا ہے) جو اس اسکینڈل میں ملوث تھے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق (تین سو پچاس) سے زائد خاندانوں نیپراسیکیوٹرز یا دیگر ریاستی اداروں کو درخواست دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی موت کی تحقیقات کرائیں، ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی حالت کو سنگین ظاہر کرنے کے لئے غلط رپورٹوں کا بھی سہارا لیا گیا تھا تا کہ ریاست اور اہل خانہ سے مزید رقم وصول کی جا سکے۔ واضح رہے پرائیویٹ اسپتالوں کو بند کرنے اور بچوں کے قاتلوں کو جوابدہ ٹھرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتاج کا سلسلہ جاری ہے۔