-,-سفر نور قسط ششم-اے آراشرف -,-
یہ قلعہ پہاڑی پر واقع تھااور تمام مدینہ منورہ اور اطراف کے یہودی مع اپنی دولت و ثروت وحرفت و تجارت یہاں جمع ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ اچھا حاصا شہر بن گیا اس میں کئی مضبوط و مستحکم قلعے تھے اور یہودی قبائل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے بلکہ جنگ احزاب بھی ان یہودیوں کی ہی سازشوں کے نتیجے میں ہوئی تھی اور اُس جنگ کی ناکامی نے ان لوگوں کے دلوں میں اسلام دشمنی کی آگ کو مزید بھڑکا دیا تھاکیونکہ اُس لڑائی میں بنی قریظہ کے یہودیوں نے حضورﷺ سے بدعہدی کی تھی اور باہمی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ ابوسفیان کیساتھ مل گئے تھے اس بدعہدی کی سزا دینے کے لئے مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا تھاچونکہ یہودیوں کا آنحضرتﷺ کیساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا اور وہ ہمہ وقت اسلام اور حضورپاکﷺکے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے اور اسلام کے سخت ترین دشمن تھے پھر یہودیوں کا حسد اُسوقت شدت اختیار کر گیا جب اُنہوں نے دیکھا کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ جوق در جوق اسلام قبول کررہے ہیں اور اُنکے دلوں میں حسد کیساتھ ساتھ خوف بھی پیدا ہو گیا تھااور وہ اسلام کے خلاف سازشوں کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کی مخالفت پر بھی اکساتے تھے بلکہ توریت میں رسول اکرمﷺ کے بارے میں جوبیان ہے اسکی تحریف کرتے اور اُسے بدل دیتے اورسچ و جھوٹ کوملا دیتے جسکی تصدیق قرآن پاک کی آیات سے بھی ہوتی ہے اور قرآن پاک میں یہودیوں کی اس حسد اور ظالمانہ روش پر لعنت کی گئی ہے مگر اس کے باوجود حضورﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اُنکی سازشوں پر درگذر فرماتے اور ان پر مہربانی فرماتے اور انکی رسومات کا احترام کرتے لیکن اس سب کرنے کے باوجودانکی سازشوں میں اضافہ ہی ہوتا گیااور اُنہوں نے رسولﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایاایسی سازشوں کا سراغ ملنے کے بعد مسلمانوں کا خاموش رہنا مناسب نہ تھالہذا نبی پاکﷺ نے جنگ کی تیاری کا حکم صادر فرمایااور اسلامی فوج خیبر کی جانب روانہ ہو گئی اور یہودیوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لے لی مسلمانوں نے چھوٹے چھوٹے قلعے تو یکے بعدفتح کر لئے لیکن قلعہ قموص کی مہم مسلمانوں سے سر نہ ہوسکی ۹۳ روز کی مسلسل ناکامی کے بعد رسولﷺ نے اعلان فرمایا۔۔کہ کل میں علم ایسے شخص کو دؤں گا جو خدا اور رسول کودوست رکھتا ہے اور خدا رسول اُسے دوست رکھتے ہیں وہ بہت جری اور دلیرہے میدان سے بھاگنے والا نہیں خدا اُسکے ہاتھ پر فتح دے گا۔۔حضرت علیؑ اُن دنوں عارضہ چشم میں مبتلا تھے اور آشوب چشم اسقدر تھا کہ اُن سے دو قدم بھی چلنا دشوار تھااس لئے آپؑ مدینہ ہی میں رہ گئے تھے اور خیبر میں حضورﷺ کے ہمراہ نہ تھے اس علیؑ کی غیر موجودگی میں ہر کوئی امید کر رہا تھا کہ شاید کل علم ہمیں ہی مل جائے لیکن جب آنحضرتﷺ نے علیؑ کو طلب کیااور آواز بردوش ہواعلیؑ تک پہنچی تو آپؑ ناقہ پر سوار ہوئے اور فوراََ حضورﷺ کی خدمت حاضر ہو گئے اس کی تفصیل۔ابن ہشام کی سیرت النبی۔میں موجود ہے حضورﷺ نے علیؑ کو اپنے قریب بلایا اور اپنا لعاب دہن علیؑ کی آنکھوں پر لگایاتو آپؑ فوراََ صحت یاب ہو گئے پھر علیؑ اسلحہ جنگ سے آراستہ ہوئے اور حضورپاکﷺ نے اُنہیں علم عطا فرمایااذن جہاد پاتے ہی مولائے کائنات علیؑ جنگ خیبر کیلئے روانہ ہو گئے جونہی علیؑ قلعہ خیبر پہنچے تو ایک یہودی نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں آپؑ نے فرمایا میرا نام علیؑ ابن ابی طالب ہے یہ سُنکر یہودی اپنے آپ سے کہنے لگاکہ بس اب تم مغلوب ہوئے اس قلعے کا سردار مرحب تھا جسکی بہادری اورطاقت کا بہت چرچا تھاوہ مسلح ہوکر مغرورانہ انداز سے رجز پڑھتا ہوا نکلاکہ اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں زرہ بکتر والا تجربہ کار پہلوان مرحب ہوں اُسکے جواب میں علیؑ نے فرمایاکہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے میں جنگل کے اُس شیر کی مانند ہوں جسے دیکھ کر لوگون کو خوف آتا ہے میں بہت رعب و دبدبہ والا ہوں اس کے بعد دونوں میں ضربوں کا تبادلہ ہو مرحب نے اپنے آپ کویوں محفوظ کر رکھا تھاکے سر پرفولادی خود،دو پگڑیاں اور اُنکے اوپرچکی جیسا ایک پتھربھی رکھا تھا جسکے درمیان ایک سوراخ تھا جس میں سے خودکی سیخ گزرتی تھی اور اُسکو قوی یقین تھاکہ کوئی تلواراُسے چیر نہیں سکتی لیکن اس موقع پر حیدر کرار نے اپنی ذوالفقار کا ایسا وار کیاجو اُسکے سرسپر اور مغزکو کاٹتی ہوئی زمین تک چلی گئی اور یہودیوں کا نامی گرامی پہلوان جسکی دہشت پورے عرب میں پھیلی تھی واصل جہنم ہوااور یہودی بھاگ کر قلعے میں گُھس گئے حضرت علیؑ نے قلعہ قموص فتح کر لیاابورافع حضورﷺ کے غلام کابیان ہے کہ علیؑ نے قلعہ کے قریب پہنچ کر درخیبرکو اکھیڑکر اپنے ہاتھوں میں لیااور لڑتے رہے پھرقلعے کے گرد کھدی خندق پر رکھ دیایوں خیبر جو یہودیوں کا اہم ترین مرکز تھاوہ مسلمانوں کے قبضہ آگیا اور اسلام کو جو یہودیوں سے خطرہ لاحق تھا ہمیشہ کیلئے دور ہوگیا۔اس سے پہلے کہ میں مزید تحریر کرؤں میں چاہوں گا کیااعلان نبوت سے خطہ عرب کے حالات کے بارے میں قارئین کومعلومات فراہم کرؤں۔بعثت سے پہلے۔جیسا کے سب کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعدصدیاں گذر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابھی تک نبوت کا اہم منصب کسی کو نہ سونپا تھا اور لوگ اُن دنوں عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار اور بیشتر لوگ خدائے واحد کی ذات ہی کے منکر تھے وہ ایک تاریک اور بھیانک دور تھااور بت پرستی کی وبا زوروں پر تھی بالخصوس حجازاورمکہ کی عوام بُت پرستی کی جانب زیادہ مائل تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انسانوں میں انسانیت کی روح کا فقیدان تھااور وحشت وبربریت کا راج تھا قتل اور خونریزی اُنکے نزدیک معمولی بات تھی بلکہ لوگوں میں گناہ کا احساس ختم ہو چکا تھا اور ہدائیت کا چراغ بالکل گل ہو چکا تھابلکہ یوں کہیں جزیرۃالعرب بدبختی کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھالڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھابلکہ دختر کی پیدائش کو بدبختی تصور کیا جاتا تھامزیدبراں شراب نوشی،بدکاری،سود خوری،چوری اور دوسری برائیاں عروج پر تھیں ایسے پرآشوب دور میں جبکہ اقوام عالم فتنہ و فساد سے جہنم بن چکا تھاتو مالک دوجہاں نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور اسلام کے عالی مقام رہبرخاتم انبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معبوث فرمایاتقریباََپندرہ سال کی ایثاربھری گھریلو زندگی گزارنے کے بعدرب العالمین نے آپﷺ پر نئی ذمہ داری کا بوجھ آپﷺ پر ڈال دیااور لوگوں کو پیغام الہی اوردعوت علم و فضل دینے کا حکم دے دیاغارِحرا کی منزل ذکروفکرتمام ہوئی اور رسالت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا وقت آگیاحضرت موسیٰ بن عمران اور حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ تو اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کیلئے معبوث کیئے گئے تھے مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الاانبیاء کا دین فقط ایک نسل ورنگ کیلئے نہیں بلکہ رب دو جہاں نے اُنہیں تمام بنی نوع انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کیلئے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی رہنمائی کیلئے معبوث فرمایا تھامگر اس نورانی چراغ سے روشنی حاصل کرنے کے بجائے مکہ مکرمہ کے بُت پرستوں نے اس علم اور دین سے استفادہ حاصل کی بجائے پرچم مخالفت بلند کر دیا اور خدا کے اس نور کو گل کرنے کی سازشیں کرنا شروع کر دیں اور حضورﷺ کی دعوت اسلام کا تمسخراُڑانے لگے تو آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے عزیز وقرابتداروں یعنی خاندان کے چالیس افراد کو کھانے پر مدعوکیاجب وہ سیر ہو کر کھانے کے بعد فارغ ہوئے تو حضورﷺ نے اپنا پیغام سُنانے کا ارادہ کیا تو۔ابولہب۔نے قوم کو بھڑکایا اور کہا کہ یہ جادوگر ہیں اور لوگوں نے فرار کرنا شروع کیا تو آپﷺنے مجبوراََدوسرے روز پھر دعوت کا اہتمام کیا اور اپنا پیغام توحید الہی اپنی رسالت اور جو خیر ودنیاوآخرت پر مشتمل تھا سُنایااس کے بعد آپﷺ نے نصرت کا مطالبہ کیا اور خلافت کا وعدہ کیامگر اس موقع پرسوائے علیؑ کے کسی نے بھی حضورﷺ سے نصرت کا وعدہ نہ کیاکیونکہ علیؑ کی رگوں میں ابوطالبؑ کا خون گردش کر رہا تھاجو پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ کس کی مجال ہے کہ میری موجودگی میں میرے بھتیجے کی جانب کوئی میلی نظر سے دیکھنے کی جرات کرے جب بغیر کسی خوف کے حضرت علیؑ نے پیغام رسالت پر تنہا آپﷺ کی نصرت کا وعدہ کیا تورسول اکرمﷺ نے اُنہیں اپنا وصی و خلافت کا اعلان فرما دیااس کے ساتھ ہی ابو طالبؑ نے بھی اپنی محکومیت اور مرسل اعظمﷺ کی سیادت کا اعلان کردیاتاکہ اسلام روز اول ہی سے مکمل شکل میں سامنے آجائے اس اعلان کا رد عمل یہ ہواکہ چاروں جانب سے مخالفت اوررسول اکرم ﷺ کو اذیت پہنچانے کا سلسلہ شروع ہو گیاایک طرف آنحضرتﷺتبلیغ توحیدفرما رہے تھے جبکہ دوسری جانب کفارنئے نئے اسلام قبول کرنے والوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا رہے تھے بلکہ جناب یاسرؓ کے والدین کو انتہائی بے دردی سے شہید کردیا گیاجب حالات انتہائی صورت اختیار کر گئے تو رسول خداﷺ نے مکہ معظمہ سے ہجرت کا حکم صادر فرمایااور حضرت علیؑ کے بھائی جناب جعفرطیارؓ کی سر براہی میں ایک وفد حبشہ روانہ کردیا جو بظاہر مسلمانوں کی جانوں کے تحفظ کی تدبیر تھی لیکن اصل میں اسلام کی اشاعت کا ایک انداز تھااور اسی کیلئے ہی حضرت ابوطالبؑ کے فرزندکا انتحاب کیا گیا تھاجہنوں نے نجاشی کے دربار میں پہنچ کر ایسا خطبہ پڑھااور سورہ مریمؑ کی آیات کی اس شان سے تلاوت کی کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور حبشہ کے بادشاہ نے مکہ کے مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کے واپسی کے مطالبہ کو رد کرتے ہوئے اُنکے وفد کو انتہائی ذلت کے ساتھ دربار سے باہر نکال دیاجس کے نتیجے میں اسلام ملک حبشہ تک بھی پہنچ گیااور مسلمانوں کو ہجرت کا پہلا ثمرہ حاصل ہو گیا۔ہجرت۔شعب ابی طالب کی پُرآشوب زندگی کا بھی خاتمہ ہو گیااور کفارنے اپنے معاہدہ کو توڑحضورپاکﷺ کو قدرے مہلت دی اور آپﷺنے اپنی تبلیغ رسالت کے کام کو بھی تیزتر کردیالیکن حضورﷺ اور اسلام کے دونوں محسن اور محافظ ایک ساتھ دنیا سے کوچ کرگئے ایک جانب شجاعت جوانمردی کا پیکر جناب ابو طالبؑ دنیا سے رخصت ہوگئے اورآپﷺ کی رفیقہ حیات،ایثار کی مجاہدہ بھی آپﷺ کو داغ مفارقت دے گئی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی تنہائی اور پریشانی کو دیکھ کرآپﷺ کو ہجرت کرنے کا حکم دے دیاجبکہ مسلمانوں کی کثیر تعدادپہلے ہی ہجرت کرچکی تھی اب آپﷺ بھی تیار ہو گئے اور بستر پر حضرت علیؑ کوسُلا کر اور امانتوں کی واپسی کی ہدایت فرماکرروانہ ہو گئے اُدھر کفار نے رسول اکرمﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے محاصرہ کر رکھا تھااور حضرت علیؑ کفار کے نرغے میں بستر نبوی پر بلا خوف سو رہے تھے صبح ہوئی تو کفار کو بستر نبیﷺ پر علیؑ کو دیکھکر سخت مایوسی ہوئی اور کفار کے انتقام کے سب ارادے خاک میں مل گئے اس موقع پر جبکہ علیؑ کفار کے نرغہ میں تھے اُنکیؑ والدہ جناب فاطمہ بنت اسد اور جناب فاطمہ بنت محمدؑکے صبر و استقلال کی تعریف و توصیف بیان کرنا ناممکن ہے کہ ایسے سنگین حالات میں گھر میں رہ کرصبر و سکون کا زبردست مظاہرہ کیا جبکہ ایسے موقع بڑے بہادررونے لگتے ہیں۔جاری