۔،۔افریقی معاشروں میں بیوی کی وراثت ایک پانی روایت بنی ہوئی ہے۔ نذر حسین۔،۔
٭افریقی معاشروں میں جہاں اقتدار اور رسم و رواج خاندانی اور قبائلی مفادات کو ترجیع دیتے ہیں،نوجوانوں کو قربانی دینے پر مجبور کرتے ہیں اور مرنے والے کے بچوں اور دولت کو خاندان میں رکھنے کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں، بیوی کی وراثت کا عمل اب بھی لچکدار ہے جو دیہی برادریوں میں تیزی سے اپنے آپ پر زور دے رہا ہے جو اپنی روایات کو اعلی احترام کے ساتھ رکھتے ہیں ٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/افریقہ/سینیگال۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افریقی معاشروں میں جہاں اقتدار اور رسم و رواج خاندانی اور قبائلی مفادات کو ترجیع دیتے ہیں،نوجوانوں کو قربانی دینے پر مجبور کرتے ہیں اور مرنے والے کے بچوں اور دولت کو خاندان میں رکھنے کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں، بیوی کی وراثت کا عمل اب بھی لچکدار ہے جو دیہی برادریوں میں تیزی سے اپنے آپ پر زور دے رہا ہے جو اپنی روایات کو اعلی احترام کے ساتھ رکھتے ہیں،اس رواج میں مرد سے، خواہ وہ جوان ہو یا پہلے سے شادی شدہ، اپنے خاندان میں مرنے والے کی وراثت کو محفوظ رکھنے کے لئے۔ خواہ وہ زمین، اولاد، دولت حتی کے پبیلے میں سماجی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے متوفی رشتہ دار کی بیوہ کو قبول کرے۔ قبیلہ ایک آدمی، اکثر مرنے والے کا بڑا بھائی یا کزن، اس رسم کا احترام کرتا ہے جبکہ اسے پورا کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، اس کے خاندانی حلقہ میں اس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی پر خاندان کے عمومی مفاد کو رجیح دیتا ہے، جبکہ اکثر یہ رواج نوجوانوں کی خوشیوں اور ان کی زندگیوں کے انتخاب کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص بیوہ سے شادی نہ کر کے اپنے رشتہ دار کے میراث کو مسترد کرتا ہے، تو وہ بہت مثبت مواقع سے محروم رہتا ہے جو اس کے قبیلہ کے اندر اس کی سماجی حیثیت کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ اس نے خاندان کی خواہشان اور اچھی طرح سے قائم قبائلی رسم و رواج کو رد کر دیتا ہے۔ اسی سلسلہ میں سینیگال کے محقق (ما ما ڈو) بہت سی برادریوں میں بیوی کی وراثت کو ایک ایسغ عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جو خاندان اور قبیلہ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ افریقی روایت میں یہ (بڑا بھائی) ہے جسے اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کا کردار سونپا جاتا ہے۔