0

۔،۔ہائے زندگی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔ہائے زندگی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں جیسے ہی بڑے ہال نما کمرے میں داخل ہوا تو لگا کمرے میں نہیں شہر کے مہنگے ترین ہسپتال کے وارڈ میں آگیا ہوں کمرے میں مختلف مشینوں نرسوں ڈاکٹروں کے ساتھ مصروف عمل تھیں مختلف ماہر ترین لوگ انتہائی مہارت چابکدستی سے مشینوں بٹنوں نلکیوں ہاتھ میں دستانے پہنے ہاتھوں میں مختلف دوائیاں انجیکشن پکڑے اپنی اپنی باری کے منتظر تھے کمرے میں مختلف ادویات کی ناگوار سی بو بھی پھیلی ہوئی تھی ملک کے انتہائی قابل لوگ مریض کو بچانے کی سر توڑ کو شش کر رہے تھے لیکن دنیا جہاں کی مہنگی دوائیاں ڈاکٹروں اور جدید ترین مشینوں کے ہو تے ہوئے بھی مریض کی صحت میں چیونٹی برا بر بھی فرق یا افاقہ نہیں ہو رہا تھا کیونکہ بوڑھا مریض اپنے وقت کا امیرترین شخص تھا اربوں کھربوں کا مالک اِس لیے دنیا جہاں سے مہنگی دوائیاں مشینیں اور ڈاکٹر اِس ھال نما کمرے میں جمع کر لیے تھے دولت کو پانی کی طرح بہا یا جا رہا تھا نوٹ کی اِس برسات کی وجہ سے میڈیکل کی ہر سہولت اِس کمرے میں اکٹھی کر لی گئی تھی کہ کسی نہ کسی طرح بوڑھے مریض کے بے حس بے جاں جسم میں حرکت اور صحت مند انگڑائی لا ئی جا سکے لیکن یہ ساری کو شش جب ناکام ہو ئیں تو کسی نے مشورہ دیا مریض پر آسیبی اثرات ہیں جن کی وجہ سے مریض کو سوئی برابر بھی افاقہ نہیں ہو رہا لواحقین کو ساری زندگی سے عادت تھی کہ جس چیز کی ضرورت پڑی پیسے کی بارش کر کے اُس کو خرید لیا جائے اِس لیے موت جو ہر لمحہ مریض کو اپنی گرفت میں لے رہی تھی اُس کے بڑھنے قدموں کو روکنے کے لیے کمرے کو ہی جدید ہسپتال بنا دیا گیا قابل ڈاکٹروں اور مشینوں کو بھی کمرے میں فٹ کر دیا گیا تھا موت کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی ہر ممکن کو شش کی گئی تھی جس مشین ڈاکٹر کا پتہ چلتا کہ وہ موت کی چال کو روک سکتا ہے تو پیسے کے زور پر اُس کو اِس کمرے میں حاضر کر دیا گیا جب جدید مشینیں ڈاکٹر اپنی کو شش میں کامیاب نہ ہوئے تو باقی ذرائع جو صحت کے حصول میں معاون ہو سکتے ہیں اِن کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اِس سلسلے میں روحانی بابوں عاملوں کا سروے کیا گیا اِس سلسلے میں مریض کی بیٹی جو ایک سال سے میرے پاس ازدواجی اور بچوں کے مسائل کے لیے آرہی تھی اُس نے میرا ذکر کیا اور آکر مجھے کہا کہ میرے والد صاحب زندگی موت کی کشمکش میں جھول رہے ہیں خدا کے لیے آپ میرے ساتھ چلیں تو میں نے کہا باجی آپ کے پاس تو سار ے ہسپتال ڈاکٹر اور دوائیاں موجود ہیں آپ اُن کو استعمال کریں تو بولیں ہم ساری کوششیں کر چکے ہیں لہذا آپ مُجھ بہن بیٹی سمجھ کر میرے ساتھ چلیں میں نے بہت مان سے کہا ہے کہ آپ کو لے کر آؤں گی میرا بھائی تو ہے نہیں ورنہ وہ بھاگ دوڑ کر تا اِس لیے آپ میرے ساتھ چلیں تو میں یہ کہہ کر یہاں آگیا کہ زندگی موت تو اِس کائنات میں ایک خشک پتہ بھی خدا کی مرضی کے بنا نہیں گرتا آپ اورمیں دونوں دعا کرتے ہیں شاید اُس بے نیاز مالک کو رحم آجائے اور وہ چند سانسیں بخش دے لہذا مریض کی بیٹی کے ساتھ میں اِس ہسپتال نما کمرے میں آگیا جب ڈاکٹروں کو پتہ چلا کہ میں کوئی روحانی بابا ہوں تو انہوں نے تنقیدی نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن میں اللہ کا نام لے کر مریض کے پاس گیا تو دیکھا اپنے وقت جوانی کا خوبصورت شخص بے جان لاش کی طرح بے حس و حرکت پڑا تھا منہ کھلا تھا اور سانسیں چل رہی تھیں لیکن اُسے مریض ہم سب سے لا تعلق زندہ لاش کی طرح پڑا ہوا تھا اُس کا بے جان جسم رنگ بتا رہا تھا کہ موت مرض الموت کی شکل میں اُس کا پنی گرفت میں لے چکی تھی مریض کا کھانا پینا بند تھا صرف انجیکشن اور ڈرپوں سے خوراک اور دوائیاں اُس کی رگوں میں اتاری جارہی تھیں کیونکہ میں نے ہومیو پیتھی بھی جوانی میں کی ہوئی تھی اِس لیے میری دل چسپی آج بھی حکمت ہربل اور ہومیو پیتھی آج بھی ہے اور حکمت یونانی اور ہومیو پیتھی ادویات میرے معمولات میں شامل ہیں مریض کی حالت میں دیکھ چکا تھا اُس کے مطابق ایک ہو میو پیتھی لکھ کر دی جو تھوڑی دیر میں آگئی تو میں نے اللہ کا نام بسمہ اللہ شریف اور یاحیی یا قیوم پڑھ کر چند قطرے مریض کے کھلے منہ میں ٹپکا دئیے دس منٹ بعد اِس عمل کو پھر دہراگیا اللہ تعالی کو رحم آیا اور حیران کن طور پر آدھے گھنٹے کے بعد بے جان جسم میں حرکت ہوئی مریض نے آنکھیں کھولیں تو کمرے پر سوگواریت اور موت کی چادر جو تنی ہوئی تھی وہ اُتر سی گئی ڈاکٹروں کی ہدایت پر مریض کے منہ سے سبزی کا سوپ چند چمچے ڈالاگیا سبزی کے سوپ کے علاوہ مریض کے حلق سے کوئی بھی میٹھی یا مصالحے والی چیز یا شوربہ اتارا جاتا اُس سے پیٹ اپھارے کا شکار ہو جاتا اور وہ چند معدے میں جا کر تیزاب بن جاتی جو مریض کے لیے وبال جان بن جاتی بے چینی بے قراری شروع ہو جاتی لہذا مریض پچھلے کئی مہینو ں سے سبزیوں کے سادے سوپ پر یا پھر دوائیں پر سانسیں لے رہا تھا مریض کے لواحقین خوشی کے نعرے مار رہے تھے کہ مریض کے حلق سے سبزی سوپ کے چند قطرے اتر گئے ہیں میں حیرت سے پتلہ خاکی کھرب پتی کو دیکھ رہا تھا کہ اپنے وقت کا سب سے امیر کھرب پتی آدمی جو دنیا جہاں کی لذتوں کو اپنے دستر خوان پر سجاتا ہو گا دنیا جہاں کے کُک اِس کا کھانا بناتے ہوں گے شراب کباب شباب ہر چیز سے لطف کھاتا ہو گا دولت کے زور پر دنیا جہاں کے پکوان اِس کے دستر خوان پر سجتے ہونگے رگوں میں تازہ اچھلتا خون اِس کو شباب سے رنگ رلیوں پر مجبور کرتا ہو گا جوانی دولت طاقت بااثر حلقوں میں رسائی اِس نے شاندار زندگی گزاری جس چیز پر ہاتھ رکھا وہ اِس کی ہو گئی جس شہر میں چاہا پر تعیش بنگلہ عورتیں آسائشیں اکٹھی کر لی ہو نگیں لیکن جب رگوں میں دوڑتا خون ٹھنڈا پڑتا ہے جسم لذتوں سے محروم ہو تا ہے تو بڑھاپا امر بیل کی طرح خون نچوڑ کر بڑھاپے کی وادی میں داخل کر دیتا ہے تو ہوش آتی ہے عام انسان جوانی طاقت دولت اقتدار میں یہ سوچتا ہے کہ یہ سب کچھ میرے پاس ہمیشہ رہے گا لیکن جب وقت کی دھول دیمک بن کر جوانی حسن چھین لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے جب دولت بے کار ہو جاتی ہے اُس دولت کے بل بوتے پر نہ صحت نہ ذائقہ نا جوانی واپس لا سکتے جب جسم بیماریوں اور بڑھاپے کی قیام گاہ بنتا ہے تو سارے ذائقے لذتیں ختم ہو جاتی ہیں پھر موت ہوتی ہے جو چپکے چپکے آکر دبوچ لیتی ہے اور دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ طاقت ور پہلوان منوں مٹی کے نیچے جا کر کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے ہائے زندگی تیرے کیسے کیسے رنگ ہیں کاش انسان جوانی میں جان لے کہ میں نے بھی مٹی کے نیچے جانا ہے میں نے بھی مرنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں