۔،۔طرزحکومت۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں جاننے والے کی بیٹی کی شادی پر مدعو تھالڑکی والے اور لڑکے والے دونوں پر خدا مہربان تھا خوب خوب دولت تھے اِس لیے میں نے شروع میں تو معذرت کی لیکن جب لڑکی کے باپ نے کہا سر بیٹیاں تو سانجھی ہو تی ہیں آپ نے بیٹی کو دعا دینے ضرور آنا ہے لہذا میں شہر کے خوبصورت وسیع و عریض فارم ہاؤس میں آیا ہوا تھا جہاں پر برقی قمقموں نے رنگ و نور کا سیلاب لہرایا ہوا تھا بارات آچکی تھی مجھے جس منبر پر بٹھایا گیا اُس پر سیاسی وزیر صاحب بھی جلو ہ گر تھے مجھے بٹھایا تو ان کے ساتھ گیا لیکن میں موقع ملتے ہیں چند کرسیوں سے آگے جا کر بیٹھ گیا خوشا مدیوں مداریوں کا بھی سیلاب آیا ہوا تھا جو وزیر صاحب کا طواف پروانوں کی طرح کر رہے تھے وزیر صاحب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جو اقتدارکے غبارے کے پھٹنے سے بے خبر تھے کہ کب اقتدار کی ہوا خارج ہو جائے یہ بھول جاتے ہیں کہ اقتدار سے زیادہ نا پائیدار تعریف سے زیادہ کثیف اور حکومت سے زیادہ بے قعت شاید ہی کوئی چیز ہو اقتدار ہو تو عاشقوں کا ہجوم پروانوں کی طرح طواف کر تا ہے اور اگر اقتدار ہاتھ سے نکل جائے تو رونے والا ایک بھی نہیں ملتا اِس کی زندہ مثال ابھی یہ کل کی بات ہے جب عمران خان کی جھوٹی ہڈیاں چوسنے والے مراثی آج ان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں کل تک ان کی ایک نظر کے پیاسے آج ان پر تیر برساتے نظر آرہے ہیں کل جو دن رات زمان پارک بنی گالا کا طواف کرتے نہیں تھکتے تھے ایک لمحہ بھی عمران خان کی جدائی سہنے کو تیار نہیں تھے آج عمران خان کو ڈراؤ نا خواب سمجھ کربھول بیٹھے ہیں عمران خان کی راہوں میں آنکھیں بچھانے والے اب خان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں خان کا طواف کرنے والے گالیاں بک رہے ہیں صدقے واری جانے والے اظہار بیزاری کر رہے ہیں قربان ہونے والے ہذیان لکھ رہے ہیں انعام پانے والے الزام دے رہے ہیں جو دن رات سلامیاں پیش کر تے تھے اب خان میں خامیاں نکال رہے ہیں پاؤں کے تلوے چاٹنے والے پاؤں کا کانٹا بن رہے ہیں شاید کوچہ اقتدار میں ایسے ہی حق نمک ادا ہو تا ہے اتنی دیر میں تو طوطے آنکھیں نہیں بدلتے جتنی دیر میں یہ لوٹے بد ل گئے صرف چند سال پہلے کے سیاسی منظر کو اگر آپ ملاحظہ کریں تو یہی ہیر پھیر نواز شریف کے ساتھ ہو رہا تھا جو مراثی مداری درباری دن رات لطیفے سناتے تھے وقت بدلنے پر دبک کر بیٹھ گئے دوسروں کی مدح صرائی میں جُت گئے یہ سارے سیاستدان خوب جانتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہو تا بندہ جب کوچہ اقتدار چھوڑتا ہے تو سب درباری میلوں دور بھاگ جاتے ہیں اور یہ اقتدار کبھی کسی کا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوا یہ جس کو بھی نصیب ہوا تھوڑے عرصے کے لیے ہی ہوا درباریوں کی قصیدہ گری کہ وقت اہل اقتدار کو مولا علی ؑ کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ جب دنیا کسی پر مہربان ہو تی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی دے دیتی ہے اور جب بگڑتی ہے تو انسان سے اپنی خوبیاں بھی چھین لیتی ہے اقتدار کے کوچے پر براجمان ہونے والے کاش تاریخ کے آئینے میں اِن سے پہلے آنے والے حکمرانوں کا انجام دیکھ لیں کہ تاریخ نے کس طرح ان کو کوڑے دان میں پھینک کر کبھی ان کا نام بھولے سے بھی نہیں لیا لیکن جنہوں نے نیک کام انسانی فلاح کے کام کئے ان کے نام تاریخ کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکتے ہیں ہمارے حکمرانوں کو کسی یورپی امریکی حکمران کو مشعل راہ نہیں بلکہ مراد رسول ﷺ حضرت عمر ؓ کو اپنا رول ماڈل بنا لینا چاہیے۔ پھر دیکھیں تاریخ کس طرح روشن حروف میں نام لکھتی ہے وہ عمر فاروق ؓ جن کے کارناموں کی شہ سرخیاں تاریخ کی جبیں پر کس طرح روشن ہو تی ہیں آج کے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ آج جس مملکت کے فرمانروا ہیں حضرت عمرؓ پاکستان سے سات گنا بڑی ریاست کے امیر تھے آج کے حکمران خود کو عقل کل اور بہت طاقت خیال کرتے ہیں جبکہ حضرت عمر ؓ کے جلال کے سامنے قیصر ایران کسری مصر کے مقوقیس اور غسان کے جبلہ بن ابہم تھر تھر کانپتے تھے آج کے حکمران اسلام آباد کے اقتدار کے کوٹھے پر قابض جبکہ حضرت عمر ؓ مدینہ منورہ کے خادم تھے آپ تین لاکھ مربع میل پر حکمران ہیں جبکہ حضرت عمر بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ریاست کے سربراہ تھے آج کے حکمرانوں کی باتیں صرف میڈیا عوام سنتے ہیں جبکہ حضرت عمر ؓ کی بات تو دریائے نیل بھی مانتا تھاے حضرت عمر فاروقؓ نے کس طرح کس دانش مندی سے حکومت کی اُس پر ذرا دھیان دیں آپ ؓ کی حکومت میں بھی برکت آجائے گی آج کے وزیر کی کرپشن کے قصے گلی گلی میں پھیلے ہوتے ہیں یہ آج کے حکمرانوں کے وزیر ہیں جبکہ حضرت عمر ؓ کے وزیروں کا کردار اور سیرت آپ کے اِس بیان سے ملاحظہ فرمائیے آپ ؓ فرمایا کرتے تھے جب کوئی شخص کسی منصب فائزنہ ہو تو وہ قوم کا سردار نظر آئے اور جب اُس کو قوم کا سردار بنا دیا جائے تو وہ سردار عام انسان کی طرح نظر آئے یہ حضرت عمر ؓ کی افسری اور وی آئی پی کلچر پر خنجر زن تھی خود آپ ؓ کا کردار اور شخصیت سب کے لیے مثال تھی موٹا جوتا پہننا اوربیت المال کے اونٹوں کو چرانا گمشدہ اونٹ کو خود تلاش کر نا رات کو گلیوں میں پہرہ دینا یتیموں ناداروں میں خود راشن تقسیم کر نا اونچی مسند پر نہ بیٹھنا محاسبے کی لیے عدالت میں خود پیش ہونا خود کو صرف عدالت میں نہیں عام آدمی کے سامنے بھی پیش کر دینا آپ کی حکمرانی میں جب عراق فتح ہوا کمانڈر سعد بن ابی وقاصؓ نے بہت سارا مال غنیمت مدینہ منورہ میں بھیجا قیمتی ہیرے جواہرات سونے چاندی کے چمکیلے زیورات دیکھ کر اہل مدینہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں حضرت سعد ؓ نے ساتھ میں ایک خط بھی لکھا تھا کہ اِس قدر قیمتی نادر نایاب مال غنیمت ملنے کی جو خوشی ہے وہ تو ہے لیکن اصل مقام خوشی یہ ہے کہ کسی مجاہد کے ہاتھ ہیرا لگا ہے تو وہ بھی اُس نے مال غنیمت میں جمع کروایا اور اگر کسی کو ایک سوئی ملی تو وہ بھی میرے پاس لا یا آپ کو اے امیر معلم مجاہدوں کی فرض شناسی اور ایمانداری مبار ک ہو یہ خط پڑھ کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے حضرت علی ؓ بھی پاس بیٹھے تھے آپ ؓ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ ؓ نے فرمایا یہ خوشی کے آنسو ہیں اور ساتھ ہی سعد بن ابی وقاص ؓ کا خط حضرت علی ؓ کی طرف بڑھا دیا حضر ت علی ؓ نے پڑھ کر فرمایا تحسین و تبرکات دراصل آپ مستحق ہیں آپ امین نہ ہوتے تو اہل کار کبھی امانت دار نہ بنتے اصل مسئلہ حکومت سازی نہیں بلکہ سیر ت سازی ہے یہی حضرت عمر فاروق ؓ تھے عراق سے کوئی آپ ؓ سے ملنے آیا تو آپ ؓ بیت المال کے اونٹ کی مالش کر رہے تھے آنے والے نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کام کسی غلام سے کروائیں تو آپ ؓ نے فرمایا یہ اونٹ یتیموں مسکینوں کا ہے عمر ؓ سے زیادہ یتیموں مسکینوں کا غلام کون ہو سکتا ہے کاش آج کے حکمران حضرت عمر ؓ کو بطور ماڈل کچھ کر سکیں۔
0