۔،۔ حرفِ انکار ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔
دنیا کی ہر ریاست آئین وقانون کی پیروی سے ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور جو قوم آئین و قانون سے رو گردانی کرتی ہے قصہِ پارینہ بن جاتی ہے۔کتنا عجیب ہے کہ وہ ریاست جو ووٹ کی قوت سے تخلیق پذیر ہوئی تھی ووٹ کے نام سے خوفزدہ رہتی ہے۔ اس کے مقدر کا فیصلہ عوامی رائے سے نہیں بلکہ ایک انسان کے چشمِ آبرو سے طے پاتا ہے۔قا ئدِ اعظم،قائدِ ملت،ذولفقار ر علی بھٹو،مادرِ ملت،حسین شہید سہروردی،محترمہ بے نظیر بھٹو اور بے شمار قائدین ریاسی جبر کے ہاتھوں موت کی وادی میں پہنچا دئے گے لیکن ذاتی انا،شخصی اقتدار اورریاستی جبر کا غصہ پھر بھی فرو نہ ہو ا۔ان کی پیاسی نگاہیں اب کسی نئے شکار کی تلاش میں ہیں لیکن ان کے ارادوں کی تکمیل میں عالمی دباؤ اور آزاد میڈیا کا پریشر ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ اپنے نئے شکار کو راہ سے ہٹانے کی انھیں بڑی جلدی ہے لیکن سیاسی حالات ان کی گرفت میں نہیں ہیں اورپھر عوام کی وابستگی ان کے ارادوں میں حائل ہے۔کسی لیڈر کی مقبولیت کو اسلحہ کے زورپر تا دیر غلام نہیں بنایا جا سکتا۔طاقت یہی سمجھتی ہے کہ وہ قوت اور اسلحہ سے سب کو جھکا لے گی لیکن کچھ لوگ جھکنے والے نہیں ہوتے۔ وہ صاف انکار کر دیتے ہیں اور یہی سے زندانوں اور سلاسل کی کہانی نئے موڑ میں داخل ہو جاتی ہے۔اس وقت آئین و قانون کی جنگ اور جبر کی جنگ کا ٹکراؤ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔جو ڈٹ جاتا ہے وہ کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔،۔ بقولِ شاعر۔،۔(زعمِ طاقت کا پرکالہ بیج ظلم کے بوتا ہے۔،۔گردشِ دوراں کی گردش میں منزل اپنی کھوتا ہے)۔،۔(اہلِ زر اس دھرتی کے مکر میں بازی جیت گے۔،۔ ان کی باتوں کی سیمابی کھلا ہوا اک دھوکہ ہے)۔،۔میرے بہت سے دوست اور بہی خواہ میرے تجزیہ سے کھلا انکار کرتے ہیں۔وہ ماضی کی طرح حالات کا تجزیہ کرتے ہیں حالانکہ وطنِ عزیز کی دو عظیم ہستیوں کی لاشیں ان کی نگاہوں کوحقائقِ ادراک سے روشناس کروانے کیلئے کافی ہیں لیکن ان کا یقین نئی شخصیت کے بارے میں اب بھی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ انھیں شائد حرفِ انکار کی وسعت کا اندازہ نہیں ہے۔وہ اسے معمول کی کاروائی سمجھتے ہیں۔خدا نے اپنا جو شاہکار تخلیق کیا ہے وہ کبھی کبھی ساری توقعات کو حوالہِ آب کر دیتا ہے۔دنیا سوچتی رہ جاتی ہے لیکن وہ کوہِ گراں بن کر سب کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیتا ہے۔ماضی کی بے شمار شخصیات جھنوں نے موت کو گلے لگایا آج ہماری ہیرو ہیں لیکن ان کے ہم عصروں نے انھیں سمجھنے میں غلطی کی اور ان کی اتنی شدید مخالفت کی کہ ان کے پاس موت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا لیکن انھوں نے موت کو جس جرات اور جوانمردی سے گلے لگایا وہ انسانیت کے ماتھے کا دلکش جھومر ہے جس پر پوری انسانیت ان کی عظیم قربانی پر نازاں ہے۔انھیں بھی ڈرایا گیا، ڈھمکایا گیا،خوفزدہ کیا گیا،زندانوں میں اذیتوں سے گزارا گیااور موت سے مٹ جانے کے خوف سے ہراساں کیا گیالیکن کیا وہ انھیں جھکانے میں کامیاب ہو سکے؟بالکل نہیں۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں انھیں اسمبلی توڑنے کا پیغام دیا گیا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر اپنی جان دے دے گی لیکن اسمبلی کو نہیں توڑے گی۔اس نے اپنے الفاظ کی لاج رکھی لیکن طاقت والوں نے اس کی بات کو ہوا میں اڑٖا دیا اور حرفِ انکار پر اس کے بھائی(میر مر تضے بھٹو) کی لاش تحفے میں پیش کی گئی اور سردار فاروق لغاری نے نومبر ۶۹۹۱ میں اسمبلی برخاست کر کے بی بی شہید کی زندگی پر موت کی مہر ثبت کر دی۔ اذیتیں جلا وطنی اور مصائب نے بی بی شہید کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا لیکن وہ ایک جمہوری آئینی اور قانونی جنگ سے دست بردار نہ ہوئی۔اسے ۸۱ اکتوبر کو پہلی وارننگ دی گئی لیکن اس نے اسے در خوراعتنا سمجھنے سے انکار کر دیا۔اس سازش کا آخری راؤنڈ ۷۲ دسمبر ۷۰۰۲کو کھیلا گیاجس میں شہادت بی بی شہید کامقدر بنی۔اب وہ پوری دنیا میں مزاحمت کا استعارہ ہے۔استعارہ جان دے کر ہی بنا جا تا ہے۔وہ زندگی جس نے ایک دن مٹ جانا ہے اس کو اصولوں سے بالا تر نہیں رکھا جا سکتا۔وہ لوگ جو جبر کراہ کی فضا میں حریت و جانبازی اور آزاد سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ لا زوال ہو جاتے ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے لیکن ہم پھر بھی حقائق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں شکو ک و شبہات کی عادت ہے۔اصل میں بے شمار بہروپئے چہروں کے درمیان اصلی چہرے کو پہچاننے میں دشواری ہونا فطری عمل ہے۔ (موت کو دیکھا تھا پھر بھی میں مسکائی تھی۔،۔امید کی کتنی روشن کرنیں ساتھ میں اپنے لائی تھی)۔،۔(اہل جہاں ہیں وجد میں اب تک میری ادائے ناز پر۔،۔ محبوبِ خلا ئق بنی تھی اس دن موت سے جب ٹکرائی تھی) ۔،۔علامہ اقبال جاوید نامہ میں اپنے وقت کی عظیم انقلابی شخصیت قر ۃ العین کا تعارف کرواتے ہیں۔وہ اپنے اصول کی خاطر جس طرح موت کو گلے لگاتی ہے اس پر رشک آتا ہے۔ملک میں انقلابی فضا پیدا کرنے پر بادشاہ ناصر الدین اسے اپنے اصولوں سے رو گردانی کیلئے زندانوں میں قید کر لیتا ہے۔اسے اذیتوں سے گزارتا ہے لیکن وہ جھکنے سے انکار کر دیتی ہے۔ایک دن اسے دربار میں بلوا کر ایک دفعہ پھر اپنے نظریات کو خیر آباد کہنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن قرۃ العین صاف انکار کر دیتی ہے۔بادشاہ اس سے کہتا ہے کہ میں تمھیں ضائع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ تم جیسی بہادر، جری،دانش مند اور ذہین عورت کی ریاست کو ضرورت ہے لہذا میں تمھیں ملکہ کا مقام دینے کی پیش کش کرتا ہوں۔قرۃ العین نے بادشاہ کو جو جواب دیا اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔اس کا کہنا تھا کہ ملکہ کے عہدہ کا ذکر کیا کرنا لیکن اگر تم اس تخت سے اتر کر خود مجھے اس تخت شاہی کی بھی پیش کش کرتے تو میں پھر بھی اپنے نظریات سے کنارہ کش ہونے سے انکار کر دیتی کیونکہ نظریا ت میری زندگی ہیں اور یہ مجھے اپنی جان سے زیادہ پیارے ہیں۔ میں جان تو دے سکتی ہوں لیکن نظریات سے علیحدہ نہیں ہو سکتی۔اس کے بعد وہی ہونا تھا جو اکثر ہوا کرتا ہے۔بے پناہ طاقت کا مظاہرہ۔ بادشاہ کے حکم پر قرۃ العین کے بالوں کو رسیوں سے جکڑ کر گھوڑے کے سموں کے ساتھ باندھ دیا گیا،اسے سرِ عام گھسیٹا گیا اور پھر اس کے بعد اسے ایک اندھے کنویں میں الٹا لٹکا دیا گیا۔وہ کتنی تڑپی ہو گی،وہ کس طرح چیخی اور چلائی ہو گی اس کی چیخیں تاریخ کے اوراق میں اب بھی زندہ ہیں اور ہمارے ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔وہ تڑپ تڑپ کر مر گئی لیکن اپنے عزمِ ِ مصمم سے تاریخ کا فخر بن گئی۔انسان میں اس طرح کی لاہوتی قوت کہاں سے آ جاتی ہے۔انسان موت کو دیکھتا ہے لیکن پھر بھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔یہ کیا کم ہے کہ علامہ اقبال جیسا عظیم فلاسفر اسے جنت کی روحوں میں اعلی ترین مقام پر متمکن کرتا ہے۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم نے چند موقع پرست انسانوں کی پیروی کرنی ہے یا ان ستاروں کی روشنی سے اپنی حیاتی کو روشن کرنا ہے جو ہمیشہ کے لئے انسانیت کا فخرو ناز ہیں۔ بقولِ فیض احمد فیض۔ (جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گے۔،۔ رہِ یار ہم نے قدم قدم تمھیں یاد گار بنا دیا)(کرو کج جبیں پر سرِ کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو۔،۔ کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا)۔،۔