۔،۔حوا کی بیٹی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
برفیلی ٹھنڈی سیاہ رات میرے گھر کے دروازے پر دو عورتیں سیاہ برقعوں میں ملبوس میرے انتظار میں کھڑی تھیں میں گلی میں تھوڑی واک کے بعد ٹھنڈ سے بھاگ کر نرم گداز گرم بستر میں جا کر نرم گداز رضائی کی آغوش میں سردی کا علاج کرنا چاہ رہا تھا لیکن میرے اور گرم رضائی کے درمیان دوعورتیں رات کے وقت جب ہر کوئی اپنے گھروں میں گرما گرم بستروں میں استراحت فرمارہے تھے پر دونوں پتہ نہیں کس مصیبت کی ماری میرے دروازے پر کھڑی تھیں میں قریب ہوا تو دھند آلود روشنی میں دونوں کو دیکھا ایک بوڑھی اور ایک جوان لڑکی سراپا انتظار تھیں چند لمحوں میں دونوں کو پہچان گیایہ دونوں ماں بیٹی پچھلے کئی دنوں سے میرے پاس آستانے پر آرہی تھیں آج پتہ نہیں کونسی ایمرجنسی آگئی کہ دودنوں کا انتظار بھی نہیں کیا اور پتہ نہیں کہاں سے میرے گھر کا ایڈریس لے کر میرے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں ان کے اِس طرح میرے گھر پر آنے پر مجھے اچھا نہیں لگااصل میں میں رضائی کی طرف بڑھ رہا تھا باہر گلی میں منجمد کر نے والی سردی تھی میں اِس وقت کسی سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھا میرے لہجے اور چہرے پر ناگواریت سی آگئی تھی میں بولا باجی آپ میرے پاس آتی تو میں آج ایسی کونسی مصیبت یا ایمرجنسی آگئی کہ آپ میرے آرام کے وقت میرے گھر آگئی ہیں آپ انتظار کر لیتیں اور وہاں آجاتیں وہاں پر میں نے ہر بار آپ کی بات بھی سنی ہے اور اُس کا حل بھی بتانے کی کوشش کی ہے پھر بھی آپ یہاں آگئی ہیں میرے تلخ لہجے پر بیٹی بولی انکل آپ سے شرمندہ اور معافی مانگتی ہوں امی تو یہاں نہیں آنا چاہتی تھیں لیکن میں ہی امی کو مجبور کر کے زبردستی یہاں لائی ہوں اِس میں سارا قصور تو میرا ہے آپ مجھے بیٹی کہتے ہیں اِس لیے بیٹی سمجھ کر مجھے اور امی کو معاف کر دیں آئندہ ہم آپ کو یہاں تکلیف نہیں دیں گی لیکن دعا کریں کہ مشکل مصیبت میں ہم گرفتار ہیں اللہ تعالی ایسی مشکل زندگی دشمنی کو بھی نہ دے وہ اپنی صفائی میں بات کو طول دینا چاہ رہی تھیں جبکہ میں بات کو جلدی ختم کر نا چاہ رہا تھا میں بولا مجھے آپ کا کیس یاد ہے کہ ملک صاحب جو آپ کی مدد کر تے ہیں وہ اب آپ سے ناراض ہیں اور آپ کے گھر نہیں آنے وہ جلدی آجائیں تو آپ پریشان نہ ہوں وظیفہ جاری رکھیں میں کیا دعا کروں اور وہ بہت جلد آپ کی طرف آجائیں گے آپ اب جائیں اللہ کے فضل سے جلدی آپ لوگوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا مجھے دونوں ماں بیٹی کا مسئلہ یاد آگیا تھا یہ چار پانچ دفعہ میرے پاس آئیں تھیں ہر بار بڑے عجیب پراسرار سے لہجے میں کہتیں باباجی دعاکریں ہمارے حالات ٹھیک ہو جائیں مہنگائی بہت ہے اب گزارے نہیں ہیں ماں بولی میری صرف پانچ بیٹیاں ہیں خاوند فوت ہو چکا ہے بیٹا ہے نہیں ایک بیٹی کسی پار لر میں کام کرتی ہے وہی واحد سہارا ہے اُس کے علاوہ کوئی کمانے والا نہیں ہے لیکن جو بیٹی پارلر پر کام کرتی ہے اُس کو تنخواہ اتنی تھوڑی ہے کہ بڑی مشکل سے گھر کا کرایہ ادا ہو تا ہے کرائے کے بعد بجلی گیس پانی بل اور پیٹ کا دوزخ پھرنے کے لیے اناج روٹی بھی تو چاہیے اوپر سے مہنگائی نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دئیے ہیں اِس شدید مہنگائی کی وجہ سے ہم لوگ اب ایک وقت کھانا چاہتے ہیں وہ بھی چٹنی شوربے سے دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ایسے حالات میں ملک صاحب ہی ہمارا سہارا تھے جو گھر کا راشن لا دیتے اِس طرح ہم زندگی کے کچے دھاگے کو چلا رہے ہیں اب جب سے ملک نے ہاتھ کھینچ لیا راشن دینا بند کر دیا تو ایک وقت کا کھانا بھی مشکل ہو گیا امی دو گھروں میں صفائی کرتی ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی مشکل سے مشکل ہو تی جارہی ہے غربت مٹانے کے لیے دو چار بابوں کے پاس گئے تو انہوں نے نذرانے کے پیسے مانگے جب پیسے نہ دئیے تو ہوس بھری نظروں سے دیکھا کسی نے آپ کے بارے میں بتایا تا آپ کے پاس غربت مٹانے آگئے لیکن جہاں آپ لوگوں سے ملتے ہیں وہاں پر بہت رش ہوتا ہے بندہ کھل کے بات نہیں کرسکتا اور نہ ہی ملک صاحب کا کیس آپ سے کہا جاسکتا ہے سر اِس لیے میں نے سارا مسئلہ اِس خط میں لکھ دیا ہے تاکہ آپ کیس کو سمجھ سکیں پھر فیصلہ کریں کہ ملک صاحب کا مسئلہ کس طرح حل ہو نا چاہیے کہہ کیا ہوا کاغذ مجھے دے کر دونوں ماں بیٹی معذرت کر کے چلی گئیں تو میں اندر آکر بڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا میں بستر اور آرام دہ رضائی میں جانے سے پہلے خط پڑھنا چاہتا تھا کہ ایسی کونسی بات اور راز ہے جو دونوں عورتیں لوگوں کے سامنے نہیں کر سکیں اور رات کے اندھیرے میں میرے گھر خط دینے آئی ہیں میں نے کاغذ کو کھولا اُس پر لکھا تھا محترم باباجی اسلام و علیکم تکلیف درد کرب کے پل صراط سے گزر کر آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں امید ہے آپ مجھے معاف کریں گے اور اللہ سے دعا بھی کریں گے کہ وہ ہماری زندگی آسان بنا دے سر ہم صرف پانچ بہنیں ہیں والد صاحب چند سال پہلے وفات پا گئے اب ہم بہنیں ماں کے ساتھ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتی ہیں باپ کے مرنے کے بعد مجھ سے چھوٹی بہن جس نے بیوٹی پالر کاکام سیکھا ہوا ہے وہ کماتی ہے ماں دو گھروں میں صفائی کا کام کر تی ہے گھر کا کرایہ اور بل دینے کے بعد کھانے کو پیسے نہیں ہوتے محلے دار یتیم سمجھ کر تھوڑی بہت مدد کردیتے ہیں اسی دوران کسی نے بتایا محلے میں ہی ملک صاحب غریبوں کی مدد کرتے ہیں راشن دیتے ہیں تو میں اور والدہ صاحب ملک صاحب کے ڈیرے پر راشن لینے گیئں تو ملک صاحب نے ہمیں بھی راشن دے دیا چھ ماہ گزر گئے ہم ہر مہینے جا کر راشن لے آتے چھ ماہ بعد ایک دن ملک صاحب ہمارے گھر آگئے اور ماں سے کہا میں آپ کی اور مدد کرنا چاہتا ہوں اب آپ گھر آکر راشن اور پیسے دیا کروں گا لہذا اب ملک صاحب ہمارے گھر آنا جانا شروع ہو گئے مجھے موبائل لے کر دیا کہ آپ مجھ سے بات کر لیا کرو ہم ملک صاحب کو مسیحا سمجھ کر عزت کرتے تھے اِسی دوران ملک صاحب نے باتوں باتوں میں میرے قریب آنے کی کوشش کی پہلے تو میں بہت پریشان ہوئی لیکن پھر ملک صاحب کی ناراضگی کہ وہ راشن اور مدد بند کر دیں میں نے ملک صاحب سے دوستی کر لی ملک صاحب نے مُجھ سے شادی کا وعدہ کیا اور بغیر شادی کے ہی میرے ساتھ ملنے لگے میں ملک صاحب کی شادی کے وعدے پر ان کی بات مانتی گئی ایک سال بعد ملک صاحب کا دل مجھ سے بھر گیا تو میری چھوٹی بہن پر نظر رکھ لی میں نے غصہ کیا چھوٹی بہن نے بھی انکار کیا تو ملک صاحب کے راشن اور مدد بند کر دی میں نے ملک صاحب کو منانے کی بہت کو شش کی لیکن وہ ضد پر قائم کر چھوٹی بہن سے دوستی کراؤ چھوٹی بہن کسی کو پسند کرتی اُس نے انکار کر دیا اب ملک صاحب نہ مانے تو میں نے جسم فروشی شروع کر دی رات کو برقعہ پہن کر سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہوں کوئی خریدار لے جاتا ہے اِس طرح زندگی چل رہی ہے دعا کریں اللہ ہمارے لیے نیک وسیلہ بنا دے بیٹی کا خط پڑھ کر میرے ٹھنڈے جسم میں چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھی کہ اِس ٹھنڈی رات میں بنت حوا کی کتنی بیٹیاں خود کو رات کے اندھیرے میں اپنے خاندان کو بچانے کے لیے بیچنے کے لیے کھڑی ہیں کہ مجھے خرید لو پیسے دے دو اللہ کب نیک حکمران دے گا۔
0