۔،۔وظیفہ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
شہر کے مہنگے ترین علاقے میں چار کنال کے بنگلے کے مین گیٹ پر گھر کی ارب پتی مالکن نوٹوں کے ڈھیر لگائے ساتھ گرم کپڑوں کا انبار لگائے آنے جانے والوں میں سخاوت کرتی جا رہی تھی جو بھی آتا اُس کو گرم سوٹ اور پیسے دئیے جا تے ساتھ کہا جاتا میرے اکلوتے بیٹے کے لیے دعا کریں مالکن کا اکلوتا بیٹا کئی مہینوں سے کسی پراسرار بیماری کا شکار تھا شدید ڈپریشن کا شکار ہو کر زندگی کے رنگوں سے کٹ کر رہ گیا تھا دنیا کے ہنگاموں سے دور صرف اپنے کمرے کا ہو کر رہ گیا تھا کوئی پراسرار بیماری تھی جو ہر گزرے دن کے ساتھ اُس کو کمزور سے کمزور کرتی جا رہی تھی ارب پتی وارث ہونے کی وجہ سے دولت کا سہارا لے کر دنیا جہاں کے ڈاکٹر اکٹھے کر لیے گئے پہلے تو پاکستانی ڈاکٹروں پر بھروسہ کیا گیا جب یہاں پر شفا نہ ملی تو یورپ امریکہ کے ہسپتالوں ڈاکٹروں کا رخ کیا گیا اِسی بھاگ دوڑ میں ایک سال کا عرصہ گزر گیا بیٹا سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا سارے ٹیسٹ لیبارٹریاں ہار گئے بیماری کی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کو نسی بیماری وائرس ہے جو دیمک کی طرح بیٹے کو کھائی جارہا ہے جب بیماری بہت بے لگام ہو گئی تو صدقہ خیرات اور روحانی علاج کا کہا گیا اب صبح شام کا لے بکروں کا صدقہ شروع ہو گیا مزیدار کھا نوں کی دیگیں بانٹنا شروع ہو گئیں رنگ برنگے بابوں کی آمد شروع ہو گئی حرمل لوبان کی دھونیاں شروع عرق گلاب کے چھڑکاؤ شروع ہو گئے لیکن یہ ساری کوشش بیکار ہو تی جا رہی تھیں بیٹے کی بھوک پیاس ختم ہو چکی تھی ڈاکٹر پریشان تھے کہ اِسی طرح کھانا پینا بند رہا تو ایک دن بیماری بیٹے کو کھا جائے گی بیٹے کی زندگی اور صحت کے لیے بند تجوریوں کے منہ کھول دئیے گئے دن رات کچا پکا راشن گرم کپڑے اور روپے لوگوں میں بانٹے جا رہے تھے ارب پتی مالکن عاجزی کا پیکر تھی آنے والوں سے دعاؤں کی درخواست کرتی جارہی تھی میں اِس عورت کو جوانی سے جانتا ہوں جب آج سے پچیس سال پہلے یہ اپنے جوان بیٹے کے ساتھ مجھ سے ملنے مری آئی تھی میرے ڈرائینگ روم میں میرے سامنے بیٹھی خاوند بھی ساتھ تھا خاوند کی پہلے بھی بیوی تھی لیکن اُس سے اولاد نہیں تھی لہذا امیر خاوند نے اِس سے دوسری شادی کر لی جب یہ حاملہ ہوئی تو غرور تکبر کے آسمان پر اڑنے لگی کہ میں تم کو اولاد دینے جارہی ہوں لہذا اب تم پہلی بیوی کو طلاق دو خاوند نے دبے لفظوں میں انکار کیا کہ اُس کو بھی چلنے دو لیکن یہ بضد تھی کہ کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے ایک ہی بیوی ہونی چاہیے میرے سامنے بیٹھ کر بھی اِس عورت نے مختلف دلیلیں دیں کہ میں اِس کے خاوند کو سمجھاؤں کہ وہ پہلی بیوی کو طلاق دے دے میں نے بھی کہا کہ یہ تم ظلم کر رہی ہو تو اِس نے الگ لے جا کر مجھے بہت سارے پیسوں کی آفر کی کہ آپ طلاق میں میری مدد کریں میں آپ کو منہ مانگی دولت دوں گی جب میں نے انکار کیا کہ اِس ظلم میں آپ کا مددگار نہیں ہو سکتا تو یہ میرے خلاف ہو گئی اِس کا خاوند اور سسرال والے میری بہت عزت کرتے تھے اُنہوں نے ہی دونوں کو میرے پاس مری بھیجا تھا کہ مجھے کہا بھی کہ اِس کو روکیں پہلی بیگم کو طلاق نہ دلائے لیکن اِس عورت نے الٹا آکر مجھے آفریں کر نا شروع کر دیں جب میں نے کہا میں اِس ظلم میں تمہار ا مدد گار نہیں ہو سکتا تو ناراض ہو کر چلی گئی ساتھ ہی خاوند کو یہ بھی کہا پروفیسر صاحب کو کچھ نہیں پتہ میں آپ کو اپنے بزرگ سے ملاؤں گی پھر اِس کے خاوند کا کبھی کبھی فون آجاتا وہ جانتا تھا اُس کی بیگم مجھے پسند نہیں کرتی لیکن وہ بیچارہ میر ا عقیدت مند اور بہت عزت کرتا تھا لیکن بیگم کے خوف سے مجھ سے دور بھی ہو گیا اور خاوند کی بہن سے مجھے پتہ چلا جو میرے رابطے میں تھی کہ اِس عورت نے پہلی بیوی کو طلاق دلا کر جان چھوڑی خاوندنے مجبور ہو کر ناچاہتے ہوئے پہلی بیگم کو طلاق دے دی یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی بعد میں جب اِس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میاں بھی راضی ہو گیا اور یہ کامیابی کے ساتویں آسمان پر اڑنے لگے اب اِس کے پاس اولاد نرینہ دولت اور تابعدار خاوند تھا بے پناہ دولت کے بل بوتے پر یہ راج کرنے لگے کبھی کبھی مجھے اِس کے بارے میں پتہ چلتا رہتا کہ یہ تکبر غرور کی دیوی بن چکی ہے اپنے پالتو بابے ملنگ پیر رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعے یہ عملیات وغیرہ کراتی ہے اپنی حکمرانی کو اور سے اور مضبوط کر تی جارہی تھی یہ ایک ظالم متکبر عورت کا روپ دھار چکی تھی قافلہ شب و روز کا سلسلہ چلتا رہا بیٹا جوان ہو گیا تو چند سال پہلے میاں وفات پاگیا میاں کے چلے جانے کے بعد ساری جائدار کا مالک اِس کا بیٹا اور یہ عورت تھی اب یہ بیٹے کے بل بوتے پر اور بھی راج کر رہی تھی اِس کے ظلموں کا سلسلہ جاری و ساری تھا آخر کا ر رب کی لاٹھی حرکت میں آئی اور اِس کا اکلوتا بیٹا بیمار ہو گیا اِس کی بیماری سے پہلے اِس نے سینکڑوں لڑکیوں کو ٹھکرایا تھا بہو کے لیے رشتہ دیکھنے جاتی لیکن مسترد کر کے آجاتی بد دعاؤں کا سلسلہ اِس کا تعاقب کر رہا تھا جس بیٹے کے زعم غرور میں یہ مغرور مالکن بنی تھی وہی بیمار ہوا اور پھر جب بیماری بڑھتی چلی گئی اِس نے دولت کے زور پر بیماری کو روکنے کی پوری کو شش کی لیکن بد دعا جب کام کرتی ہے تو پھر اِس کے سامنے ہر چیز فیل ہو جاتی ہے یہ ڈاکٹروں ہسپتالوں کے چکروں میں پڑھ گئی پاکستان پھر باہر کے ملکوں میں لیکن بیماری زور پکڑتی گئی جوں جوں دعا کی آخر کار روحانی علاج کہ کسی نے جادو کر دیا ہے نظر بد لگ گئی ہے اب بابوں ملنگوں کی چاندی ہو گئی بابوں کی بھاگ دوڑ میں بہت سارے لوگوں نے میرا ذکر کیا تو یہ جانتی تھی کہ میرے اِس کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں تو اپنی نند کے ذریعے مجھے فون کرایا کہ آکر میرے بیٹے کو دیکھیں میں اِس کے خاوند کو پسند کرتا تھا فوری مان گیا دوسرا میرے دل میں کسی کے لیے نفرت کینہ دشمنی بھی نہیں ہوتی لہذا آج میں اِس ارب پتی بی بی کے گھر تھا سخاوت کرنے کے بعد شرمندہ شرمندہ سی میرے پاس آئی میں بیٹے سے ملا دعا کی وظیفہ بتایا اور پھر جب میں واپس جانے لگا تو مالکن درخواست گزار لہجے میں بولی مجھے کوئی وظیفہ بتائیں کہ یہ ٹھیک ہو جائے تو میں نے غور سے اِس کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا تم نے اپنی سوتن کو جو طلاق دلائی تھی اُس سے معافی مانگ لو تو بولی وہ تو مر گئی ہے تو میں نے کہا اُس کی قبر پر جا کر معافی مانگوں شاید خدا تعالی کو تم پر رحم آجائے اور بیٹا صحت مند ہو جائے۔
