۔،۔مقدمہ بنائے لاالہ۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔ 0

۔،۔مقدمہ بنائے لاالہ۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔

0Shares

۔،۔مقدمہ بنائے لاالہ۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔

عالمی عدالت انصاف (انٹرنیشنل) ایک ایسی پاک و پاکیزہ طاہر ومطاہرشخصیت حضرت امام حسینؑ اور اُنکے ساتھیوں پر ہونے والے ظُلم و ستم اور درندگی کے مقدمے کی سماعت کرنے کرنے جارہی ہے جونواسہ رسول مقبول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم،جگر گوشہِ بتول عُظمہؑ، حضرت علیؑ کے نورالعین اور حضرت امام حسنؑ کے بھائی ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے ہادی و رہبر تھے بلکہ پوری انسانیت کے علمدار تھے ایسا کیوں نہ ہوتے کیونکہ اُنؑ کے ناناﷺکو پوری کائنات کیلئے رحمت العالمین بنا کر اللہ تعالیٰ نے اپنا رسولﷺ معبوث کیا تھا امام حسینؑ کا قصور بس اتنا تھا کے وہ حق و باطل کی لڑائی میں یزید لعین کی بیعت سے انکاری تھے جو نہ صرف شریعت محمدیﷺکامنکر تھا بلکہ انسانیت کے رشتوں کا تقدس بھی دیدہ دلیری سے پامال کررہا تھا اس نے ماں،بیٹی اور پھوپھی سے نکاح کو جائز قرار دے دیا تھا وہ جابر و ظالم بادشاہ تھا جس کے خلاف کسی کو بھی آواز اُٹھانے کی ہمت و طاقت نہ تھی ان حالات میں نواسہ رسولﷺ اُسے من مانی کی کیسے اجازت دے سکتے تھے۔عالمی عدالت انصاف کی اس سلسلے میں اس جدید دنیا میں ساکھ اور شہرت بہت اچھی تصور کی جاتی ہے۔اس سے قبل یونان کے عوام نے اپنے محسن سقراط کے قتل کا مقدمہ اُس وقت کے بادشاہ جو سقراط کے قتل کا مجرم تھا کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہوئی تھی اوریونان کی عدالت نے اُس بادشاہ کو پھانسی کی علامتی سزا دی گئی تھی جبکہ یہ سانحہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے بھی چار سو برس قبل کا ہے اور آجکل پاکستان میں عدالت عُظمہ بھی ایک ایسے مقدمہ کا فیصلے کرنے جا رہی جس میں جناب ذوالفقارعلی بھٹو شہید کا عدالتی قتل ہوا تھا۔اُمید واثق ہے عالمی عدالت انصاف بھی ایسے مجرم کو علامتی سزا دیکر جدید دنیا کو بتائے گی کہ اگر شکاگو کے شہدوں کو حراج تحسین پیش کرنے کے لئے دنیا بھر میں اختجاج کیا جاتا ہے پھر یوم حسینؑ کا غم منانے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہیے اُس روز بھی دنیا بھر میں عام تعطیل ہونی چاہیے کیونکہ امام حسینؑ نے بھی حق کی آواز بلند کر کے اپنے ساتھ ساتھ اپنے تمام عزیز و اقارب کی قربانی دی تھی اُن پر جو ظُلم و جفا روا رکھا گیا اُسکی مثال انسانی تاریخ کہیں نظر نہیں آتی۔اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ کا دور چھوڑ کر بعد میں آنے والے حکمرانوں اور نام نہاد اشراف نے بھی ظُلم و بربریت سے اتنا خون ناحق بہایا ہے کے جس کا شمار کرنا بھی شاید اس جدید دورمیں بھی ممکن نہ ہوپھرعدل و انصاف کی جس طرح دھجیاں اُڑائی گئیں اُس کی مثالیں نہیں ملتیں۔ بس کردار بدلتے رہتے ہیں۔جب نمرود نے خدائی کا دعویٰ کرکے خلق خدا کوظلم و بربریت سے مجبور کرکے اپنے آپ کو خدا منوانا چاہا توحضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے مشن میں رکاوٹ بن گئے پھر فرعون نے بھی نمرود کی طرح خدائی کا دعویٰ کرکے بنی اسرائیل پر ظلم و بربریت کے پہاڑ گرا دیے روتوموسیٰ علیہ السلام اس کے اس اقدام میں دیوار بن گئے اسی طرح یزید ملعون نے جب قانون قدرت کی دھجیاں اُڑانا شروع کیں اور امام حسینؑ سے طاقت کے زور پر بعیت کا مطالبہ کیا توامام نےؑ فاسق و فاجر کی بعیت سے انکار کر دیا۔ ہمارے دیرینہ دوست سید اقبال حیدرنے خطیب ملت جناب اطہرمرزا مرحوم کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے عالمی عدالت اانصاف میں ایک ایسی پاک وپاکیزہ اور طاہرومطاہرہستی حضرت امام حسینؑ جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی اور اُنکے بارے میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے کہ۔حسینؑ مجھ سے ہے او اور میں حسینؑ سے ہوں۔پھرآپ ﷺ نے فرمایا میرے یہ دونوں بیٹے حسن ؑ اور حسین ؑ جنت کے سردار ہیں جو انسانیت کے حقیقی علمبردارتھے کامقدمہ یزیدملعون کے خلاف عالمی عدالت انصاف ڈین باگ ہالینڈمیں دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یقینا نیک کاموں میں اللہ مددگار ہوتا ہے حضرت معین الدین چشتی ؓ کے انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں وہ فرماتے ہیں۔۔شاہ است حسین۔ؑ۔بادشاہ است حسینؑ۔۔سرداد کہ نہ داد دست حسینؑ۔۔حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؑ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں