۔،۔دو وزیر اعظم، مشترکہ نظریات مگر کردار مختلف۔ عارف محمود کسانہ، سویڈن۔،۔ 0

۔،۔دو وزیر اعظم، مشترکہ نظریات مگر کردار مختلف۔ عارف محمود کسانہ، سویڈن۔،۔

0Shares

۔،۔دو وزیر اعظم، مشترکہ نظریات مگر کردار مختلف۔ عارف محمود کسانہ، سویڈن۔،۔
ڈاکٹر افضل مرحوم سویڈن میں پاکستان کے سابق سفیر تھے۔ وہ ا علیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور تھے جنہوں نے کئی ایک کتابیں لکھیں۔ ان کی پیدائش 1919ء میں ہوئی اور 1938ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے اور مجلہ راوی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ اد دور میں انہیں برصغیر کی کئی نامور شخصیات جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، جواہر لال نہرو، ڈاکٹر ذاکر حسین اور دیگر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر افضل اقبال دسمبر 1973ء سے جنوری 1977ء تک سویڈن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ انہوں نے کئی ایک کتابیں لکھیں جن میں ایک Diary of a Diplomat ہے جس میں انہوں نے اپنے دور سفارت کی یادیں تحریر کی ہیں۔ انہیں یاداشتوں میں وہ اپنے سویڈن کے دور سفارت کاذکر کرتے ہوئے اس دور کے سویڈش وزیر اعظم اولف پالمے کا بہت دلچسپ انداز میں ذکر کرتے ہیں اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے دورہ سویڈن کا تذکرہ بہت اہم ہے۔ ان کی تحریر سے دونوں راہنماؤں کی سوچ، طرز عمل اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر افضل کے بقول سویڈن کے د وزیراعظم اولوف پالمے پنے ترقی پسند نظریات کے لیے مشہور تھے بلکہ ان کی سادگی اور عوامی اندازِ حکمرانی بھی ایک مثال تھی۔ یورپ کے ایک امیر ترین ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک عام سا دفتر، نہ کوئی پروٹوکول اور نہ ہی بڑی بڑی گاڑیاں لیکن اپنے انوکھے انداز اور عظیم سیاسی بصیرت کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے۔وزیراعظم اپنی گاڑی خود چلاتے تھے۔ ان کے دفتر میں نہ چائے پیش کی جاتی تھی اور نہ کافی۔ پالمے کی سادگی صرف ان کے دفتر تک محدود نہیں تھی۔ وہ اپنی بیوی اور تین بیٹوں کے ساتھ ایک عام ٹیرس ہاؤس میں رہتے تھے۔ ان کی بیوی ایک بچوں کی ماہر نفسیات تھیں، اور دونوں اپنے گھر کے کام خود کرتے تھے۔ کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اور گھاس کاٹنا ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا۔اولوف پالمے سویڈن کے ایک ایسے رہنما تھے جو سرمایہ داری کے بے رحم استحصال کے مخالف تھے، لیکن کمیونزم کی سخت گیر پالیسیوں کو بھی مسترد کرتے تھے۔ وہ سوشلسٹ نظریے کے حامی تھے، لیکن ان کا ماننا تھا کہ سوشل ڈیموکریسی ہی اصل راستہ ہے، جہاں معاشی ترقی اور سماجی برابری کا توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ان کی قیادت میں سویڈن نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی اہم شعبوں میں نمایاں ترقی کی اور سویڈن نے دنیا کی بہترین فلاحی مملکت کے طور پر شہرت حاصل کی۔ اولف پالمے 1969ء سے 1976ء اور پھر 1982ء سے 1988ء اپنے قتل ہونے تک سویڈن کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے پہلے دور میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ ان میں میں دوستانہ تعلقات کا آغاز اس وقت سے ہوا جب دونوں برکلے امریکہ میں ہم مکتب تھے۔ دونوں میں بہت نظریاتی ہم آہنگی تھی اور وہ سوشل ڈیموکریسی کے علمبردار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں سویڈن کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے دورے سے قبل ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔سویڈن میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر افضل اقبال کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان سے انہیں فون کرکے کہا کہ وہ اپنا سویڈن کا دورہ منسوخ کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے دورے کی تفصیلات کے مطابق سویڈش وزیر اعظم اولف پالمے ہوائی اڈہ پر ان کا استقبال نہیں کریں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے اپنی اور اہل پاکستان کی بے عزتی خیال کیا۔ ڈاکٹر افضل اقبال نے بھٹو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ سویڈن میں ایسا نہیں ہوتا کہ وزیر اعظم ائیر پورٹ پر استقبال کرے لیکن بھٹو بضد تھے۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر اٖفضل اقبال نے اولف پالمے سے ملاقات کی اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ الوف پالمے نے پہلے تو ا نکار کیا لیکن بعد میں سفارتی تعلقات کے احترام میں ہوائی اڈے پر آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک نادر موقع تھا جب انہوں نے اپنی پالیسی کے خلاف جا کر کسی کا استقبال کیا۔ذوالفقار علی بھٹو ستر افراد پر مشتمل ایک بھاری بھروفد ے ساتھ سویڈن آئے جس پر سویڈش پریس نے بہت تنقید کی۔ ایک غریب ملک کا وزیر اعظم اتنے بڑے وفد کے ساتھ دورے پر کیوں آیا؟اسی دورے کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے اولف پالمے کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی، تو وہاں ایک اور حیرت انگیز لمحہ آیا۔اولوف پالمے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے تقریب میں پہنچے، بارش کا کوٹ کندھے پر ڈالے ہوئے، اوربغیرکسی پروٹوکول کے۔ تقریب کے بعد، جب وہ جانے لگے تو اچانک رک گئے۔وہ اپنا بارش کا کوٹ بھول گئے تھے! چونکہ کوئی اور اس کوٹ کو پہچان نہیں سکتا تھا، اس لیے انہوں نے خود جا کر اسے اٹھایا اور چل دیئے۔جب بھٹو سویڈن کے بادشاہ سے ملنے گئے تو وہاں انہیں صرف ایک مشروب پیش کیا گیاکیونکہ تیسری منزل پر باورچی خانہ ہی نہیں تھا، چائے یا کافی کا انتظام ممکن نہ تھا۔یہ منظرپاکستان میں میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے بالکل برعکس تھا، جہاں چمک دار وردیوں میں ملبوس خدام کی ایک قطار نارویجن وزیر خارجہ کو چائے پیش کر رہی ہوتی، جبکہ نارو ے میں، اسی وزیر خارجہ نے خود چائے کی ٹرے اٹھا کرپاکستانی سفیر ڈاکٹر افضل اقبال کے سامنے رکھی تھی۔ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان نمایاں فرق ہے۔برکلے اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، بھٹو اپنی فطرت میں جاگیردار ہی رہے۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی تھی جبکہ سویڈش وزیر اعظم سادہ طبیعت کے حامل تھی۔ایک جیسے سیاسی نظریات کے باوجود دونوں کا کردار بہت مختلف تھا اور اس کا فرق دونوں کے مرنے کے بعد بھی صاف ظاہر ہے۔ اولف پالمے کی سٹاک ہوم میں ایک عام سی قبر ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا لاڑکانہ میں عالی شان مقبرہ اس فرق کو ہمیشہ نمایاں کیے رکھے گا۔ ایک جیسے سیاسی نظریات رکھنے والے راہنماؤں کی عملی زندگی اور کردار میں نمایاں فرق تھا۔ حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوامی انداز اپنائے،، سادگی اختیار کرے، اور طاقت کو صرف اقتدار کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ ایسے ہی راہنما ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور دنیا بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔یہ سلسلہ بھٹوتک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں