۔،۔تضادستان۔اے آراشرف۔،۔ 0

۔،۔تضادستان۔اے آراشرف۔،۔

0Shares

۔،۔تضادستان۔اے آراشرف۔،۔
پہلے کیا کوئی مسائل کم تھے کہ پنجاب حکومت نے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کااعلان کرکے پنجاب اور سندھ کو آمنے سامنے کر دیا ہے جسے کسی صورت ملک و قوم کیلئے بہتر علامت قرار نہیں دیا جا سکتا جب کسی گھر میں دو بھائیوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو اُنسے مذاکرات کرکے کوئی بہتر حل تلاش کیا جا تاہے جس سے گھرمیں ہونے والے فسادکا خطرہ نہ بڑھے بلکہ جو بھی فیصلہ ہوانصاف و عدل سے ہو پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت ہے اگر کوئی ایسا منصوبہ زیر غور تھا تو حکومت کو بھی پہلے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیکر ایسا منصوبہ بنانا چاہیے تھاکیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اُنہیں بھی سندھ کی عوام کو جواب دینا ہوتا ہے اختجاج اور دھرنوں سے وطن عزیز کی اکانومی پر بُرا اثر پڑتا ہے اور ابھی تازہ ہی ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکلا ہے اب وہ ایسے دھرنوں اور اختجاجوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ دہشتگردی کی وبا نے ملک و قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔کچے کے علاقہ پر حکومت کی گرفت اسقدر کمزور نظر آتی ہے کہ ڈاکو دیدہ دلیری سے اسلحے کے زور پرڈاکے ڈالتے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی واراداتیں کررہے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اُٹھانی چاہیے تاکہ کسی کو بھی اُس کے حق سے دستبردار ہونے کی نوبت نہ آئے ویسے تضادستان کے اس ملک میں حکومت اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے ورکروں کو اپنے دعوؤں اور وعدؤں کاسبزباغ دیکھادیکھا کر اُنہیں زمین سے عرش پرتو پہنچا دیتے ہیں مگر جب ان بیچاروں کی اُمیدیں اور خواب چکنا چور ہوتے ہیں تواُنہیں پھر عرش سے زمین پر آنے کی تکلیف کا احساس بھی ہوتا ہے اور بعض تو خوابوں کی تعبیر نہ ملنے کے غم میں راہی اجل ہو جاتے ہیں جیسے ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد۔اورسیزپاکستانیوں۔کولولی پاپ کی دوا پلا کراُنہیں مدہوش کر دیتی ہے اور وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید حکومت اُنکے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اس حکومت سے پیشتر بانی تحریک انصاف جناب عمران کی حکومت نے بھی اورسیز پاکستانیوں کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کرنے کے دعوئے کیئے تھے مگرعمل کرنے سے قاصر رہے۔اب موجودہ حکومت کا۔اورسیز پاکستانیوں۔کی کانفرنس بلا نابظاہر ایک اچھااقدام ہے مگراب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح صرف دعوئے ہی کرئے گی یا پھر اورسیزکے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمل بھی کرئے گی یا پھریہ وہی لولی پوپ ہے جو ہر حکومت اورسیزپاکستانیوں کودیتی رہی ہے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اورسیز پاکستانی تیس ارب ڈالڑ سے زائدرقم ہرسال پاکستان ارسال کرتے ہیں جو پاکستانی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حثیت رکھتی ہے مگر اسکے بدلے میں اُنہیں کیا ملتا ہے کہ۔ اورسیز پاکستانیوں۔ پر ایسا ظُلم ڈھایا جاتا ہے جسکی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اُنکی جائدادوں اورپلاٹوں پر ناجائز قبضہ جما لیا جاتا ہے اور وہ پھر بیوروکریسی اور عدالتی شکنجے میں ایسے اُلجھا دیے جاتے ہیں کہ جان چھڑانا مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ پاکستان کا عدالتی نظام ایسا پیچیدہ اورتھکانے والا ہے کہ اکثر انصاف و عدل کی اُمید میں جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ اورپھرپنے عزیزوطن کے ایرپورٹوں پر انسے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور وطن عزیز میں داخل ہوتے ہی انکے موبائل فون پر اضافی ٹیکس لگا دیا جاتا ہے اور وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ کشور خدا داد وطن عزیزپاکستان جسے ہمارے آبا واجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں اور اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی بھینٹ چڑھا کر بابائے قوم حضرت محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں حاصل کیا تھا کس کی نظر لگی کے وہ اب تضادستان کی آماجگاہ بن چکا ہے حکمراں ہوں یا حزب اختلاف،سیاستدان ہوں یا مذہبی زُعما،امیر ہوں یا غریب ہر ایک اپنی ہی ذات میں گُم اپنے آپ کو نمایاں اورہردلعزیز ثابت کرنے کی دھن میں مگن نظر آتا ہے مگر جسکی بدولت ہم سب کی عزت واخترام ہے وہ ہمارا پیارا وطن۔پاکستان ہے جس کے وجود وبقا سے ہی ہم سب کی بقا ہے ایک طرف ہماری قوم کے بیٹے ہماری فوجی نوجوان اور سیکورٹی کے دوسرے اداروں کے اہلکار دہشت گردی کامقابلہ کرتے ہوئے مادروطن کی بقا اور سلامتی کیلئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر رہے ہیں اور دوسری جانب دشمنان پاکستان اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اندرون ملک مذہبی،لسانی اور مسلکی مسائل کی آڑ میں فرقہ وارنہ فسادات کرانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں جسکی ایک مثال۔خیبر پختون خوا۔صوبے کے زیر اثر کرم ایجنسی ہے جہاں اپنی طاقت کے نشے میں دھت ایک گروہ نے مسلکی عقائد کو ہوا دیکر کئی ماہ سے سڑک بلاک کردیتا ہے تاکہ۔ پارہ چنارکی شیعہ مسلک کے لوگوں زندگی کجہنم بن جائے مگرمقتدرہ ادارے اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں اصولی طور پر تو یہ صوبہ۔خیبر پختون خوا۔کے دائرہ اختیارمیں ہے یوں تو یہاں کے وزیراعلیٰ علی آمین گنڈا پوربہت بڑھ چڑھ کر دعوئے کرتے رہتے ہیں مگر کرم ایجنسی کے مسائل کا معاملہ آتا ہے تووفاق پر تنقید کے تیر برسا کراپنی اپنی ذمہ داریوں کو نظرانداز کر جاتے ہیں اگروہاں آمن کی بحالی کیلئے اُنہیں وفاق کی مدد کی ضرورت ہے تو اسکی درخواست کرنے سے کس نے روکا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک تینوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی اِنا کوچھوڑ کر ملک و قوم کے مفادات کی خاطرایک میز بیٹھ کر مذاکرات کرکیاپنے پیارے ملک کی ترقی اور پاکستانی قوم کی خوشحالی کی راہیں تلاش کریں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کے صدقے ہمارے زعما کو ایسے فیصلے کرنے کی توفیق دے جو ملک وقوم کیلئے بہتر ثابت ہوں آمین ثم آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں