۔
۔،۔ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ٹیکسی ڈرائیورز نے اُوبر لیموزین سروس کے خلاف کلو میٹرز لمبی ریلی کا اہتمام کیا۔ نذر حسین۔،۔
٭ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں، جب یہ گھٹیا پن پر بنا ڈھیر جس کو (اوبر) کہتے ہیں شعلوں کی لپیٹ میں جل کر راکھ ہو جائے گا٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/امریکا۔ واضح رہے ( ٹراوس کلانک اور گارٹ کمپس ) نے 2009 کو (اُوبر ) کے نام سے لیموزین سروس کے طور پر قائم کی گئی تھی جبکہ2010 میں سان فرانسسکو میں پہلی بار مسافروں کو اُٹھانا شروع کیا تھا، اُوبر کی رپورٹ کے مطابق 2013 تک اُوبر کی آمدن 213 ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے ہر بڑے شہر میں ٹیکسیوں کا کام بہت گر چکا ہے کیونکہ اُوبر کی گاڑی ایک ڈرائیو (چھ) یورو لے کر کرتی ہے ٹیکسی میں وہی ڈرائیو (گیارا سے بارہ) یورو کی بنتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور مسافر کے لئے دروازہ بھی کھولتا ہے اس کا سامان بھی اُٹھا کر ٹرنک میں رکھتا ہے جبکہ اُبر کا ڈرائیور گاڑی سے نیچے تک نہیں اُترتا، مسافر خود ٹرنک کھولتا ہے سامان رکھتا ہے ٹرنک بند کرتا ہے اور خود دروازہ کھول کر بیٹھتا ہے، اسے راستہ کا بھی علم ہوتا ہے کیونکہ اس نے اسکول سے ٹیکسی کا ڈرائیونگ لائسنس کیا ہوتا ہے، اس کے باوجود آجکل اُبر کی گاڑیاں جنگلی ہوا کی طرح گلی کوچوں میں اُڑتی نظر آتی ہیں جس میں سے نہ جانے کتنی غیر قانونی ہیں جن پر کوئی گورنمنٹ کی طرف سے ایشو کیا گیا نمبر تک نہیں ہوتا۔ دیکھا جائے تو جرمنی کے کئی شہروں میں اُوبر ممنوع ہے، فرینکفرٹ کے ایئرپورٹ پر (چھ لاکھ یورو کی رقم دے کر اُوبر کی گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ کرائے پر لی گئی ہے) ٹیکسی یونین متواتر عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے، پرانا ٹیکسی ماڈل اوبر کے مقابلے میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ٹیکسی کے کرائے بہت سے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں جبکہ عمر رسیدہ افراد اب بھی ٹیکسی سے ہی سفر کرناپسند کرتے ہیں۔ واضح رہے امریکا جیسے ملک میں اب بھی ٹیکسی کا نمبر لینے کے لئے آپ کو (چھ لاکھ ڈالر) تک دینے پڑتے ہیں۔ ٹیکسی یونین اور کمپنیاں اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ ابوبر کو جرمنی اور خصوصی طور پر فرینکفرٹ میں بین کر دیا جائے جو ناممکن نظر آتا ہے
–