۔،۔ سچا قلمکار ایٹمی اسلحہ کا متبادل ہے۔ فوزیہ مغل۔،۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی دکھ سرحدوں سے آزاد ہوتا ہے۔ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پھر نہ مذہب دیکھا جاتا ہے نہ رنگ و نسل تب بے اختیار آنکھیں نم ہوتیں ہیں، دل درد سے بھر جاتا ہے، احمد آباد طیارے کے حادثے نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔12 جون 2025 کی شام، جب سورج احمد آباد کے آسمان پر غروب ہو رہا تھا، زمین پر ایک ایسا اندھیرا چھا گیا جو برسوں تک دلوں کو غمگین و اداس رکھے گا۔ ایئر انڈیا کی پرواز جو لندن کے لیے روانہ ہوئی تھی، پرواز کے کچھ لمحوں بعد ایک رہائشی علاقے پر جا گری۔ 242 میں سے 241 مسافر جاں بحق ہو گئے۔ یہ بھارت کی فضائی تاریخ کا سب سے ہولناک سانحہ تھا مگر یہ محض ایک پرواز نہیں تھی یہ خوابوں، قربانیوں محبتوں اور جدوجہد کا کارواں تھا جو لمحوں میں بکھر گیا۔ان میں وہ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی زندگی سالہا سال جدوجہد، قربانیوں اور خوابوں میں صرف کر دی تھی۔ایک ایسا ہی نام ڈاکٹر مہیش کمار کا بھی تھا جو گزشتہ چھ برسوں سے برطانیہ میں ملازمت کر رہے تھے وطن، خاندان اور بچوں سے دور رہ کر وہ برطانیہ میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش میں مصروف تھے بالآخر جب وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کو ساتھ لے جانے کے لیے بھارت آئے، تو خوشی کا یہ سفر آخری ثابت ہوا ان کے خوابوں کا سامان، بچوں کی مسکراہٹیں، اور بیوی کی قربانیاں سب ایک لمحے میں خاک ہو گئی۔یہ صرف ڈاکٹر مہیش کمار کی داستان نہیں۔ اس طیارے میں درجنوں ایسے مسافر موجود تھے جو برطانیہ، یورپ میں محنت و مشقت سے اپنے خاندان کی زندگی بہتر بنانے کے خواب لے کر جا رہے تھے۔ کچھ نوجوان پہلی بار بیرونِ ملک پڑھنے جا رہے تھے، کچھ اپنے بیمار رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سفر کر رہے تھے، اور کچھ والدین اپنے بچوں کے لیے تحفے لے کر روانہ ہوئے تھے لیکن وہ سب لوٹ کر کبھی نہ آئیں گے۔ہم پاکستانی، دل کی گہرائیوں سے بھارت کے ان خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اس حادثے میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔ دفترِ خارجہ، سیاسی قائدین، اور عوام نے مشترکہ طور پر بھارت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔وزیر اعظم پاکستان نے اپنے پیغام میں متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ,ہم اس دکھ کی گھڑی میں بھارتی عوام کے ساتھ ہیں۔یہ لمحہ ایک گہری یاد دہانی ہے کہ انسانی جان کی قدر، اس کے خوابوں کی وقعت، اور اس کی جدوجہد کا جو احترام ہے وہ سرحدوں یا مذاہب کا محتاج نہیں کیونکے انسانی دکھ، مذہب، قوم، یا جغرافیے کا پابند نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مہیش کمار کی فیملی کے لیے آنسو اگر بھارت میں رواں ہو رہے ہیں، تو اُن انسووں کا درد لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی محسوس ہو رہا ہےہم وہ لوگ ہیں جو سرحدوں پر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، لیکن جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، تو ہم سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں.یہ حادثہ صرف ایک فلائٹ کا نہیں، بلکہ درجنوں کہانیوں، خوابوں کا تکلیف دہ اختتام ہے ایسے سانحے ہمیں ایک لمحے کو روک کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم انسانی زندگی کو واقعی محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟کیا فضائی تحفظ، جہازوں کی نگرانی، عملے کی تربیت، اور ایمرجنسی پروٹوکول پر صرف رپورٹیں بنائی جا رہی ہیں، یا عملی اقدامات ہو رہے ہیں؟آج نم آنکھوں کے ساتھ یہ کالم لکھتے ہوئے، میرے دل میں برسوں کی یادیں، ملاقاتیں، اور وہ خلوص تڑپ رہا ہے جو مجھے بھارت سے ملا۔ میں کئی بار بھارت گئی ہوں۔مجھے وہاں کے ادبی حلقوں نے بیپناہ عزت، محبت، اور اپنائیت سے نوازاہے۔ بنارس کے ادبی فورم نے مجھے شری راجیو گاندھی ایوارڈ دیا۔پونے کے ممتاز ادیب اسلم چشتی نے میرے فن اور شخصیت پر ایک کتاب مرتب کی۔دہلی یونیورسٹی کے اسکالرز نے محترم خواجہ محمد اکرام کے زیر سایا میرے افسانوں اور شاعری کو اپنی تھیسس کا حصہ بنایا۔آج جب اس ملک پر ایک قیامت ٹوٹی ہے، تو یہ دکھ میرے لیے ایک رسمی تعزیت نہیں ہے۔ بلکہ ذاتی صدمہ ہے، جو میں آنسوؤں کے ساتھ کالم کی سطور میں سمیٹ رہی ہوں۔یہ کالم اختتام نہیں، ایک آغاز ہونا چاہئے ایک ایسے احساس کا جو ہمیں پھر سے ایک دوسرے کے دکھ کو دل سے محسوس کرنے کی ترغیب دے۔ہم مختلف مذاہب اور نظریات سے تعلق ضرور رکھتے ہیں،مگر ہماری ثقافت، تہذیب، درد، آنکھ کے آنسو، اور دل کی دھڑکن سب ایک جیسی ہیں۔ کیونکے دکھ اور قلمکار ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔جس طرح دکھ کسی سرحد، کسی قوم، کسی مذہب کا پابند نہیں ہوتا، ایسے ہی قلمکار بھی کسی جغرافیے کا اسیر نہیں ہوسکتا۔دکھ، انسانیت کی زبان میں روتا ہے تو قلمکار، اُسی دکھ کو لفظوں میں ڈھالتا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے قلمکار اپنے اپنے پیار بھرے قلم کو بندوقوں اور اسلحے کے جواب میں استعمال کریں,لفظوں سے زخموں پر مرہم رکھیں،افسانوں سے فاصلے کم کریں،اور شاعری سے دلوں کو جوڑیں۔یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے کہ ہم حرف کو ہتھیار سے زیادہ طاقتور بنائیں۔