-,-کربلا کا سبق -سید علی جیلانی-,- 0

-,-کربلا کا سبق -سید علی جیلانی-,-

0Shares

-,-کربلا کا سبق -سید علی جیلانی-,-

خالق کائنات نے معاشرے اور مختلف قوموں کی ضرورت اور توازن کے لیے غیر معمولی انسان پیدا کئے اِن عظیم ترین شخصیتوں میں بعض تو مسند علم کی وارث ٹھہریں کچھ طبعیات اور سائنس کی امام بنیں، معاشروں کی اصلاح کے لیے کچھ دنیا کی مرشد قرار پائیں کسی نے آرٹ میں کسی نے فلسفے میں کسی نے شاعری اور ادب میں اپنا نام بنایا، لیکن گردش لیل و نہار اور تاریخ کے دھارے میں بہت ساری یہ عظیم شخصیتیں بہہ گئیں کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گئیں کئی عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہو گئیں کچھ تو کتابوں اور تاریخ میں زندہ رہیں، جبکہ اکثر یاد ماضی کا حوالہ یا قصہ بن گئیں اِن میں سے اکثریت صدیوں کے غبار میں دھندلا گئیں اربوں انسانوں کے ہجوم میں ایک بڑی تعداد ایسی شخصیات کی بھی ہے کہ گردش لیل و نہار اور زمانے کی کروٹیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں یہ دنیا میں پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اِس ابدی شہرت اور شان سے دنیا سے رخصت ہوئیں کہ قیامت تک امر ہو گئیں صدیوں کے غبار میں دھندلا ہو نے کی بجائے اِن کا نام اور کام اور نکھرتاجارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی شان و شوکت اور روشنی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے انہی میں ایک نام جناب حضرت امام حسین کا ہے، آپ کا نام تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر آب و تاب سے چمک رہا ہےحضرت امام حسین کو سرتاج الابنیا سرورِ کائنات ﷺ کا نواسہ ہو نے کا لازوال شرف عظیم حاصل ہے، حسین کے نانا ﷺ جو وجہ تخلیق کائنات، جن کی نسبت معراج انسانیت ہے، جن کا وجود برہان الہی ہے، جن کی بشریت آبروئے آدمیت ہے، جن کے نور سے شبستان عالم چمک اور جن کے رنگ و بو سے چمنستان دہر مہک رہا ہے، جن کا خیال الہام اور جن کا نطق وحی ہے وہی حسین کے عظیم نانا ۖ جن کے قدموں کی آہٹ سن کر کوئی خضر بنا اور جن کے در کی بھیک پا کر کوئی سکندر کہلایا۔ حضرت امام حسین کا عظیم والد حضرت علی جن کی پیشانی کبھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکی، جن کو باب العلم کا لازوال خطاب حاصل ہے، جو ہر جنگ میں حیدرِ کرار کہلائے، جن کی روحانیت ہر سلسلہ تصوف کی منزل ٹھری، جن کو کعبے میں ولادت اور مسجد میں شہادت ملی، پھر حسین کو خاتون جنت کی آغوش نصیب ہوئی جس کے گھر کا طواف جبرائیل امین نے بار بار کیا، جس کو محبوب خدا نبیوں کے سردار ﷺ نے بار بار لخت جگر اور گوشہ دل کہا اور جن کے نام لینے کے لیے زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے وضو کرنا پڑتا ہے ابوسعید خُدری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن عشاء کی نماز کے بعد حضور ﷺ کے دروازہ پر حاضر ہُوا۔ دستک دی۔ آپۖ باہر آئے۔ چادر میں آپۖ لپیٹے ہوئے تھے اور چھاتی سے کوئی چیز ملائی ہوئی تھی تو میں نے عرض کی کہ حضورۖ یہ کیا ہے۔ آپۖ نے چادر اٹھائی میں نے دیکھا کہ حسین ہے۔ فرمایا اس کو پہچانا میں نے عرض کی کہ ہاں یہ حضرت فاطمہ کا بیٹا حسین ہے۔ جب میں نے کلمات کہے تو آپۖ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور فرمایا کہ تجھے معلوم ہے میرے ربّ نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ تو اس بچے سے پیارکرتا ہے اس پر تیری امت کی طرف سے زبردست ظلم ہوگا۔ پھرحضورﷺ نے یہ الفاظ فرمائے اللھم انی احبہ فاحب من یحیہ۔(احسن القصص ج٤ص٢٢٤’ص٢٢٥) یعنی اے اللہ میں اس بچے سے محبت کرتا ہوں تو پھر تُوہر اس شخص سے محبت کر جو اس سے پیار کرے نبیوں کے سردار ﷺ کا نواسا ہونا، ولیوں کے سردار کا بیٹا ہونا، عظیم ماں کا فرزند ہونا سعادت اور اعزاز تو ہے ہی مگر یہ آزمائش بھی کم نہیں عظیم نانا اور باپ کی عظمت کی لاج رکھنا، عظیم مقدس ماں کی آغوش کا حق ادا کرنا اور اِس کے ساتھ ہی اپنی الگ منفرد شناخت بنانا بھی اور پھر جب اسلام پر مشکل وقت آیا تو امام حسین نے ملوکیت یزید کے مقابلے میں جرات اور استقامت دکھا کر میدان کربلا میں باطل کے سامنے کھڑا ہو کر نہ صرف اپنے عہد میں باطل کی قوتوں کو پاش پاش کیا بلکہ قیامت تک انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا اور مشعل راہ بنے سانحہ کربلا کے بعد سے آج تک کسی دور میں بھی ملوکیت کے خلاف آواز بلند ہوئی، تحریک چلی، انسانی حقوق کے لیے لہر اٹھی، معاشی انصاف اور حق خودارادیت کی آواز ٹھی، ظلم و جبر کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھا تو یہ شہادت حسین کا ثمرہ ہے دنیا نے سینکڑوں دلدوز اور غمناک واقعات رنج و غم کی داستانیں سنی ہوں گی غمگساروں کے حالات اور ماتم کرنے والوں کے آنسوئوں کے دریا بہتے دیکھے ہوں گے۔ لیکن تاریخ کے کسی دور میں دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی نے اس قدر آنسو نہ بہائے ہوں گے۔جس قدر داستان کربلا میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر۔آج کربلا کی شہرت ایک نہ مٹنے والی تاریخی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ربِ ذولجلال نے امام حسین کو شہادت کا ایسا تاج ِ شاہی پہنایا ہے کہ جسے قیامت تک اندیشہ زوال نہیں ہو گا امام حسین اور آپ کے ساتھی میدان کربلا میں اس طرح لڑے کہ آپ کی شجاعت کے آگے سر فروشی کے تمام افسانے دھندلے پڑ گئے۔ یزیدی لشکر نے انسانی حدود سے نکل کر وحشت و درندگی اور سفاکی کے وہ مظاہرے کئے کہ اُن کے آگے درندوں کی خون آشامی بھی ہیچ تھی۔ یزیدی لشکر کے جتنے بھی زہریلے تیر تھے سب کے سب امام اور آپ کے ساتھیوں کے سینوں میں بے دردی دے اتار دئیے گئے گستاخی اور بے ادبی کے بے شما ر حربے آزمائے گئے یزید اور اُس کے حواریوں نے اپنے نامہ اعمال سیاہ کر ڈالے لیکن نواسہ رسول ﷺ کے پائے استقامت میں زرہ بھی جنبش نہ ہوئی۔ نواسہ رسول ﷺ جو اسلام کے نظریے فکر اور فلسفے کے امام تھے اُنہوں نے اسلام کی اصل روح پر عمل کرتے ہوئے یزیدی آمریت کے خلاف حق کا علم بلند کر دیا۔ امام نے ثابت کر دیا کہ دنیاوی کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں ہے امام نے اقوام ِ عالم کو سمجھایا کہ وہ ہر شکست وقتی اور ہر فتح عارضی ہوتی ہے دنیا میں حق اور سچ کو مستقل حیثیت حاصل ہے۔ آپ نے بتایا کہ ہر حال میں حق کا ساتھ دو اور باطل سے ٹکراجائو سوال مگر یہ ہے کہ جس دین کو بچانے کے لیے حسین ابنِ علی نے اپنا پورا خاندان قُربان کر دیا، اُس دین کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا سانحۂ کربلا کا سوگ مناکر ہم نے وہ حق ادا کردیا جس کے لیے خانوادۂ رسولۖ نے اپنے معصوم اور پاکیزہ خون سے کربلا کی ریت کو لہورنگ کیا آج پھر یزیدیت کا علمبردار نریندر مودی کشمیر میں ظلم وجبر کی جو داستانیں رقم کر رہا ہے، اُس کا ہاتھ روکنے والے کہاں ہیں مسلمانوں کے بہتے خون کا حساب لینے والا عالمِ اسلام کہاں سو گیا رب نے تو عالمِ اسلام کو دنیا جہان کی ہر دولت سے مالا مال کر دیا لیکن پھر پورا عالمِ اسلام غلام ابنِ غلام کیسے بَن گیاہم اپنی زندگی میں کم وبیش ہر یزید وقت کو مانتے آئے ہیں۔ جھکتے آئے ہیں۔ مفادات کی خاطر مفاہمت کرتے آئے ہیں۔ حسینیت پر یزیدیت کو فوقیت دیتے آئے ہیں یہ سب کچھ درحقیقت حسینیت سے انکار ہے وہ ایام اور مواقع جو کسی قوم کے لیے ذریعہ اتحاد، سر مایہ افتخار اور طرہ امتیاز ہوتے ہیں، اُلٹا موجب افتراق، باعث ِ فساد اور وجہ نزع بن جاتے ہیں حالانکہ عا شورہ محرم الحرام تاریخ اسلام کا ایک درد ناک باب ہے اور دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کے موقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہو جا تا ہے اور ہر فرد دکھ درد میں شریک ہو تا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحہ الم میں پہلے سے بھی زیادہ اختلاف رونما ہو جا تا ہے اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جا تی ہیں سانحہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک قومی علامت کے طور پر انسا نیت کو حق اور خیر کے لیے ظلم کے خلاف جدو جہد کا درس دیتے رہیں گے، مگر بد قسمتی سے ہم نے اس واقعہ کو شیعہ، سُنی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے سب سے پہلے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تب مفاہمت کی فضا پیدا ہو گی قومیتی، لسانی، صو بائی اور علاقائی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی منافرت نے ہمارا ملی وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے لیے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر از سرِ نو غور کرنا پڑے گا ہمیں امن’برداشت ’صبر اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق کربلا سے سیکھنا ہو گا ورنہ ہم حسینی و محمدی ۖ کہلاتے تو رہیں گے لیکن ہمارے ضمیر اور تاریخ کے اوراق ہمیں کو ستے رہیں گے اس مقدس اور تاریخ کے انوکھے یوم، یوم ِ عاشورہ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم نے محبتوں کو فروغ دینا ہے، امن کی مالا جپنا ہے، اخوت کا پر چار کرنا ہے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا مقرب بندہ اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے عظیم قربانیاں دینے والے حضرات صحابہ کرام و اہل بیت کا سچا عاشق بنائے، اور قیامت کے دن آقا ﷺ ، انبیاء کرام، صحابہ کرام، اہل بیت، اولیاء اللہ، علمائے حق، مبلغین اسلام کے چاہنے والوں میں اٹھائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں