-,- زندگی تنہا موت تماشا۔ فوزیہ مغل۔,-
وارث شاہ نہ مان کر وارثاں تے
رب بے وارث کر مار دا اے
اس شعر کی حقیقت اب عام ہو گی ہے
حمیرا اصغر مرحومہ ایک فنکارہ ایک عورت اور ایک انسان جو زندگی کے کسی مقام پر تنہا ہو گئی اتنی تنہا کہ اس کی لاش ہفتوں بعد اس کے کمرے سے دریافت ہوئی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جب وہ دنیا سے چلی گئیں تبھی لوگ جاگے مگر جاگنے کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے درد کو سمجھتے یا ہمدردی کرتے بلکہ لوگ اس کی زندگی کو کریدنے لگے اس کے کردار پر بات کرنے لگے یہ بھی عجیب و حیرت انگیز تضاد ہے کہ ایک طرف لوگ اس پر خود مختاری و ازادی سے شاہانہ زندگی گزانے کا واویلا مچا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک کرائے کے فلیٹ میں تنہا زندگی گزار رہی تھی اگر وہ واقعی ایسی ہی ہوتی جیسا لوگ دبے دبے لفظوں میں کہنا چاہ رہے ہیں تو اس کے ارد گرد رش ہوتا اور وہ دولت کے انبار اکٹھے کر چکی ہوتی مگر اس کے پاس نہ کوئی شان و شوکت نہ کوئی شور نہ ہی کوئی قریبی عزیز سوائے خاموشی کے ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت جلد اس دنیا کی اصلیت کو سمجھ چکی تھی اسی لیے اس نے خود کو محدود کر لیا صرف اپنے کام اپنی ذات اور اپنے فن کو ترجیح دی اور شاید اسی خود مختاری کی سزا پائی۔ہمارے ہاں اگر کوئی عورت مسکراتی ہے تو وہ چالاک سمجھی جاتی ہے اگر خاموش رہتی ہے تو مغرور اگر تنہا رہتی ہے تو مشکوک اور اگر آزادانہ زندگی گزارتی ہے تو بدکردار کیا عورت کا اپنی مرضی سے جینا اتنا بڑا گناہ ہے کیا ایک فنکارہ کو فن کی بجائے فتنہ سمجھنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے عائشہ خان اور حمیرا اصغر کی خاموشیاں ہمیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں مگر ہم لوگ شور کو ترجیح دینے والی قوم بن چکے ہیں شور وہ جو میڈیا نے مچایا شور وہ جو سوشل میڈیا نے پھیلایا اور شور وہ جو ہم سب کے اندر کے جج نے بغیر سوچے پیدا کیا حمیرا صرف ایک ماڈل نہیں تھی وہ ان لاکھوں عورتوں کی نمائندہ تھی جو تنہائی کا شکار ہیں بظاہر خودمختاری کا لبادہ اوڑھ کر خاموش رہتی ہے مگر راتوں کو روتی اور دن میں مسکراتی ہیں جن کے درد دکھ مسائل صرف اندر ہی اندر پکتے ہیں یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ معاشرہ سوال تو کرتا ہے لیکن سہارا نہیں دیتا ہمارا یہ المیہ بن چکا ہے کہ مرنے والوں پر تنقید آسان اور زندہ لوگوں کی مدد مشکل ہو چکی ہے مرحومہ کے لیے کسی نے یہ نہ سوچا کہ وہ کیوں اکیلی رہتی تھیں کیا وہ ذہنی تناؤ کا شکار تھیں یہ تنہائی اس کی پسند نہیں بلکہ ہماری سرد مہری کی پیداوار تھی لیکن ہر کوئی اس بات پر یک زبان ہے کہ وہ صحیح زندگی نہیں گزار رہی تھیں جیسے ہم سب دودھ سے دھلے ہوئے ہوں!کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس معصوم کی ہنستی مسکراتی تصویروں کے پیچھے کیا درد چھپا تھا یا کیا وہ اس سماج سے تھک چکی تھیں شاید وہ بھی چاہتی ہو کہ کوئی ان سے پوچھے کیا تم ٹھیک ہو وہ بچاری یہ حسرت دل میں لے کر ہی اس دنیا سے چلی گئی سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے ایک بار پھر ریٹنگ لائکس اور کمنٹس کی دوڑ میں انسانیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہمدردی و احترام کے بغیر سوالات اٹھائے گئے بلکہ ایک بحثٍ بدتمیزی چھڑ گی مرحومہ کی لاش کتنے دن پرانی ہے اس کے جسم کی حالت کیسی ہے کیا یہ قتل تھا یا خودکشی کیوں اس کے گھر والوں نے لاش لینے سے انکار کیا۔ سچ پوچھیں تو یہ صرف ایک عام قدرتی موت نہیں سفاک معاشرتی قتل ہے ہم سب کی خاموش شراکت سے ہونے والا قتل اور اب کم از کم اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ بیبسی کی موت مرنے والی فنکارہ کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ ایک فنکارہ ہفتوں لاش کی صورت پڑی رہی ہو تو یہ اس کی ناکامی نہیں بلکہ ہم سب کی ناکامی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک فیصلہ کریں کیا ہم موت کو تماشا بناتے رہیں گے یا اسے ایک سبق سمجھ کر کچھ سیکھیں گے ہم روز دیکھتے ہیں کہ ہمارے اردگرد لوگ تنہائی میں ڈوب رہے ہیں مگر ہم انہیں سہارا دینے کے بجائے خاموشی سے بی حسی سے لاپرواہی سے اور گہری تنہائی میں دھکیل دیتے ہیں۔یہی وقت ہے کہ ہم کردار کے بجائے کردار سازی پر توجہ دیں تنقید سے زیادہ ہمدردی سیکھیں۔ میری ہاتھ جوڑ کر سوشل میڈیا سے گزارش ہے زندگی کے ہزار ہا موضوعات ہیں تمھارے لائکس اور کمنٹس کے لیے لیکن خدارا کسی کی لاش سے نہ کھیلو کسی کی موت کو تماشا نہ بناؤ کل حمیرا اصغر تھی اس سے پہلے عائشہ خان تھی انے والے کل میں کوئی اور ہوسکتا اور ہم سب بس تماشائی بنے رہئے گیکیا موت بھی اب صرف ایک کانٹینٹ بن گئی ہیانسان کی خاموشی پر رحم نہیں بس کیمرہ آن ہیخدارا تھم جاؤ۔آج کا شاعر شاید اسی لیے اپنے کلام کے کلیات اپنی زندگی میں ہی شائع کروا لیتا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی یاد نہیں رکھتا کلیات کے ساتھ اپنے قل بھی پڑھ لینے چاہئے واقعی جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں اس میں انسان کو چاہیے کہ اپنا فاتحہ قل اپنی زندگی میں ہی پڑھ لیاب یہاں کسی کی موت پر افسوس کم اور تجسس زیادہ ہوتا ہے اور اگر ہم نے اپنی یہ بے حسی یہ سرد مہری اور دوسروں کے درد پر خاموش تماشا دیکھنے کی روش نہ بدلی تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں باقاعدہ اپنے مرنے کے بعد والی تمام رسمیں اپنی زندگی میں ہی ادا کر لینی پڑیں گی۔