-,-دنیا میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان-(پہلو صابر مغل) -,- 0

-,-دنیا میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان-(پہلو صابر مغل) -,-

0Shares

-,-دنیا میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان-(پہلو صابر مغل) -,-

عالمی سطع پر دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کی پریشان کن حالت کے باعث دنیا بھر میں 11 جولائی کو ہر سال عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے الراقم کے آبائی گھر سے تین فرلانگ کے فاصلے پر قائم ہائی سکول اب بھی موجود ہے سکول جانے کے لئے دو راستے تھے دونوں پر درخت ہی درخت اور ہریالی تھی سکول سے کچھ فاصلے پر چھوٹی سی نہر جو اب بھی پختہ صورت میں موجود ہے کے کنارے بھی بہت زیادہ گھنے درخت خوبصورت منظر پیش کرتے اور ماحول کو سازگار بناتے تب پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی گذرگاہ سڑک یا شاہراہ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کھال نہریں درختوں سے سجے نظر آتے وقت کے ساتھ کچھ لٹیرے کردار ان درختوں کا صفایا کرتے چلے گئے اور سب چٹیل بنا ڈالا ملک میں ہر سال شجر کاری مہم کا سنتے آ رہے ہیں عملی طور پر حصہ بھی لیتے ہیں مگر شجر کش بہت زور آور ہیں متعلقہ محکمے اس حوالے سے ہاتھوں کانوں اور زبان سے محروم تھے اور اب کچھ بچا ہو تو ان پر شکوہ کریں البتہ اگر کہیں قسمت سے کچھ ہیں تو یہ بد کردار باز آنے سے رہے یوں وہ سب کچھ ختم ہوتا چلا گیا پودوں درختوں اور سر سبز فصلوں کی جگہ آبادیوں کالونیوں اور ٹاونز نے گھیر لی دیہی علاقوں کے لوگ قصبات میں اور قصبات میں مقیم افراد نے شہروں کا رخ کر کیا اب یہ انسانی جنگل بڑھتا بڑھتا وسائل نگلنے میں کسی اژدہے سے کم نہیں پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے دوسرے نمبر کا ملک انڈیا چین سے آگے نکل کر سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے ہم بھی پڑوسی ملک کی تقلید میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق آبادی کی موجودہ بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کے تحت 2048 میں چوتھے نمبر پر موجود انڈونیشیا کا نمبر لے سکتے ہیں 2017 میں ہماری آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ تھی اور سات سال بعد 2024 میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری میں ہم 24 کروڑ 36ہزار 354 تک پہنچ گئے اب 25 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکے ہیں یہ انتہائی تشویشناک اور پریشان کن صورتحال ہے پاکستان ان آٹھ ممالک مصر کانگو ایتھوپیا انڈیا نائجیریا فلپائن اور تنزانیہ کی فہرست میں شامل ہے جو 2050 تک دنیا میں بڑھنے والی آبادی میں 50 فیصد حصہ ڈالیں گے اسی خطہ کے انڈیا اور چین دنیا کی کل آبادی میں 37 فیصد حصہ دار ہیں چین انڈیا پاکستان جرمنی جاپان اور روس سمیت 63 ممالک علاقوں میں آبادی کا حجم باقی دنیا کی نسبت تقریبا 7 فیصد زیادہ ہے ماہرین کے مطابق پاکستان میں فی گھرانہ بچوں کی پیدائش کی اوسط کہیں زیادہ ہے دنیا میں ابتدائی طور پر 1800 عیسوی تک انسانی آبادی کو ایک ارب ہونے میں ہونے میں ہزاروں سال لگ گئے 1920 میں یہ تعداد 4 ارب تک پہنچ گئی 1987 میں جب آبادی کی تعداد نے پانچ ارب نفوس کو بھی کراس کر لیا تب ورلڈ بینک میں کام کرنے والے سینئر ڈیمو گرافر ڈاکٹر کے سی زکریا نے تجویز پیش کی کہ اس طوفان کو روکنے جیسے اقدامات کے سلسلہ میں عالمی یوم آبادی منایا جائے تاکہ افراد میں شعور بیدار اور اس خطرناک صورتحال پر قابو پایا جا سکے 1989 میں اقوام متحدہ نے اس عالمی دن کی منظوری دی اور 11 جولائی 1990 میں پہلی بار یوم آبادی دنیا بھر میں منایا گیا مگر تمام تر اقدامات کے باوجود صورتحال بہتر نہ ہو سکی فروری 2016 میں عالمی آبادی 17 ارب 10 کروڑ تک جا پہنچی گذشتہ سال عالمی دن پر اقوام متحدہ کا تھیم تھا کسی کو پیچھے نہ چھوڑ ہر ایک کو شمار کریں کیونکہ اس دن کا مقصد عالمی آبادی کے رجحانات اور اس کے اثرات کی جانب توجہ مبذول کرانا مقصود اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور آبادی میں اضافے سے منسلک مسائل سے نبٹنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے مگر سب تدبیریں ناکام نظر آتی ہیں ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر گھنٹے میں 19 ہزار سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں سالانہ تقریبا 8 کروڑ سے زائد اور یوں آئندہ پچاس برسوں میں دنیا کی آبادی میں مزید 2 سے چار ارب تک اضافہ متوقع ہے پاکستان میں بھی اس عرصہ میں آبادی کے دو گنا ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ایسا ترقی پذیر ملک ہے جہاں غربت نے بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں عالمی بینک کی حالیہ اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 7۔ 44 فیصد ہے اسی سال مزید ایک 9۔ 1 ملین افراد غربت کی اس لکیر کے نیچے شمار ہوں گے کیونکہ 6۔ 2 فیصد اقتصادی ترقی غربت کو کم کرنے کے لیے ہر لحاظ سے ناکافی ہے کھپت پر بنی عدم مساوات 2021 کے بعد سے تقریباً دو پوائنٹس بڑھ گئی ہے دیہی علاقوں میں ان اعدادوشمار کے علاوہ 10 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں 51 فیصد غریب کرایہ دار مالک مکان کے مقروض ہیں (غربت پر الگ سے لکھا جائے گا مگر بوجہ مجبوری یہاں کچھ لکھنا پڑ رہا ہے) نئے عالمی پیمانے کے مطابق 5۔ 16 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے مجموعی طور پر پاکستان کی 88 فیصد آبادی ہر وقت اپنی اقتصادی صورتحال سے پریشان کن زندگی گذار رہی ہے کہتے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی آبادی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غربت کے مارے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ بچے جتنے زیادہ ہوں گے ان کی آمدن اسی قدر بڑھے گی تب مکن ہے وہ اپنا بیٹ بھر سکیں اس بات کو ذہن میں رکھے الراقم ایک ایسے شخص سے ملا جس کے 8 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں ریڑھی پر فروٹ بیچتے اس شخص نے بتایا کہ اس کے دو بیٹے میری طرح ریڑھی لگا کر روزی روٹی کما رہے ہیں دو بچے سرکاری سکول میں ہیں دو آوارگی پسند مگر کبھی نہ کبھی کوئی کام کر لیتے ہیں جبکہ باقی دو نشہ کی لعنت میں غرق ہیں ان کو جب بھی موقع ملتا ہے گھر سے کچھ نہ کچھ چرا لے جاتے ہیں یا کسی مقدمہ میں پھنس جاتے ہیں ہزار بار سوچ کر بھی کہ ان کی ضمانت نہیں کرانی ان کا پیچھا نہیں کرنا مگر نہیں رہا جاتا بیٹیوں کی شادی کا قرض الگ سے سر پر ہے دراصل ہم جتنے بھی عالمی دن منا لیں ہمارے ہاں یہ کمی ناممکبات میں سے لگتی ہے کیونکہ یہاں نہ تعلیم ہے نہ صحت جیسی بنیادی سہولیات ہر چیز میں ملاوٹ اوپر سے مہنگی۔ عدم شعور اور ادراک کی کمیابی بڑھتی آبادی کی اولین وجہ ہے جتنا ہم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی سمیت دیگر منصوبوں پر خرچ کر دیتے ہیں وہی سب کچھ تعلیم پر خرچ ہو نا چاہئے پاکستان کے بے شمار علاقوں میں اب بھی وڈیرہ ازم اور جاگیردارانہ نظام ہے جو کسی صورت نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرے مالیاتی بحران تعلیم کی کمی صحت کی ناگفتہ بہ حالت سہولیات کا بگاڑ اور فقدان خوراک کی قلت بے ہنگم ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ میں عوام بھیڑ بکریوں کی مانند سوار ہوتی ہے آلودگی پینے کے پانی کی قلت ایسے حالات میں کسی کو کچھ مثبت سوچنے کا موقع کب َور کیسے ملے گا پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا آبادی کے لحاظ سے فرٹیلٹی ریٹ بہت زیادہ ہے اور پھر بڑھتی آبادی کا یہ جن تمام وسائل نگل رہا ہے ضروری ہے کہ اگر آبادی کی روک تھام ہم ضروری سمجھتے ہیں تو یہ عالمی دن منانے سیمینارز کرنے کے جھنجٹ سے نکل کر ہم حقیقی مسائل ہر فوکس کریں ان کی تعلیم بہتر کریں تاکہ انہیں شعور حاصل ہو ان کی غربت کم کریں تاکہ یہ آسودہ حال لوگ کچھ بہتر سمت کا رخ کریں ان کے پانی کا انتظام کریں انہیں ملاوٹ زدہ خوراک سے بچائیں یہاں تو بھی جیسی بنیادی ضرورت بھی ملاوٹ زدہ اور کم از کم ایک سو روپے مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے عملی کام ہی پائیدار اور دور رس نتائج کے حامل جبکہ وقتی فائدے ہمیشہ بے اثر ثابت ہوتے ہیں گزشتہ روز میں ایک رپورٹ پڑ رہا تھا کہ بنگلہ دیش میں اس وقت 27 لاکھ خواتین گارمنٹس کی فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں جبکہ ہمارے 90 لاکھ خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دائرے میں دھکے کھا رہی ہوتی ہیں وہ کیا کریں انہیں جدھر لگایا گیا وہ اسی سمت چل پڑیں اسلام آباد میں وفاقی سیکرٹریٹ کے سامنیاس سکیم کے حوالے سے ایک بورڈ لگا ہے کہ روزگار با عزت اور خودداری کے ساتھ یہ عزت یہ خودداری ہمیں پاکستان بھر میں سڑکوں پر لگی قطاروں میں نظر آتی ہے۔ کوئی موثر قانون سازی کوئی موثر پالیسی اور موثر حکمت عملی کا راستہ اپنایا جائے تاکہ اس عفریت پر قابو پایا جا سکے آمدن کچھ نہیں کھانے والے بے شمار ایسے کب تک چلے گا یہ مزید غربت پسماندگی لاچارگی اور افلاس کی سمت ہے اس عالمی یوم آبادی پر ہی کچھ بہتر یقینی قابل عمل کسی پالیسی کا تہیہ کر لیا جائے شاید آنے والا وقت جیسے ماہرین مطابق ہم 2050 تک دگنی آبادی اور دنیا کے چوتھے بڑے ملک بن جائیں اس طوفان سے بچ سکیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں