۔،۔ قونصل جنرل شفاعت احمد کلیم (خٹک) کی الوداعی تقریب اور ان کی شخصیت۔نذر حسین۔،۔
شفاعت احمد کلیم (خٹک) تقریباََ فروری۔مارچ 2021 میں قونصلیٹ جنرل اسلامی جمہوریہ پاکستان فرینکفرٹ میں ہیڈ آف چانسلری کے عہدے پر جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں تشریف لائے تھے، قونصل جنرل آف پاکستان زاہد حُسین کی قیادت میں وہ کندن بنتے گئے، انہوں نے چند ہی دنوں میں نہ صرف فرینکفرٹ جبکہ پوری جرمنی میں بسنے والی کمیونٹی کے دل جیت لئے، ہر کسی کے لبوں پر شفاعت احمد کلیم کا نام بولتا نظر آ رہا تھا، آپ کی شخصیت کے بارے میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ جب بھی کسی سے مصافحہ کرتے تو مسکراہٹ ان کے چہرے پر عیاں ہوتی تھی۔ آپ ٭فکر مراد تھے یعنی آنے والی کا کی فکر ٭آپ ہمنوا مراد محفل کے ساتھی ٭آپ میں تابِ سخن یعنی بات کرنے کی طاقت بھی تھی ٭آپ محو غم دوش۔یعنی گزرے ہوئے کل کا غم بھی رکھتے تھے ٭آپ ہمو تن گوش یعنی پوری طرح کان لگا کر سننے والے تھے ٭آپ خون جگر پینے،مراد قوم کی حالت پر کُڑھتے بھی تھے٭آپ شوخ زبان بھی تھے، یعنی بے خوف بات کرنے والے (جو پٹھانوں کے خون میں ہوتا ہی ہے)آپ مائل برکرم بھی تھے۔ کمیونٹی کے ہر فرد پر مہربانی کرنے پر تیار٭پروائے نشیمن مراد آپ کو وطن کی فکر رہتی تھی٭آپ پختہ خیال۔عقیدوں پر مضبوطی سے قائم تھے ٭برق طبی، آپ کی باتوں میں جلد اثر کرنے والی کیفیت پائی جاتی تھی٭ وہ کسی نے کیا خوب کہا کہ سفید میں کوئی بھی رنگ ملاوُ تو نیا رنگ بن سکتا ہے جبکہ دنیا کے تمام رنگ ملا کر بھی سفید رنگ نہیں بن سکتا، کاغذ کی ضرورت نہیں پڑتی جب کسی کا برا کرنا ہو ورنہ دنیا میں سب کچھ پانے کے لئے پیار ہی کافی ہے، ان کا کہنا تھا کہ نہ تم اپنے آپ کو گلے لگا سکتے ہو اور نہ ہی تم اپنے کندھے پر سر رکھ کر رُو سکتے ہو، ایک دوسرے کے لئے جینے کا نام ہی زندگی ہے اس لئے وقت انہیں دو جو تمہیں چاہتے ہیں۔قونصلیٹ میں جانے والوں میں سے جب بھی کسی نے شفاعت احمد کلیم (خٹک) سے ملنے کا اظہار کیا تو انہوں نے خوش آمدید کہہ کر ملاقات کی، آپ عوام کو اپنی گفتگو سے مزید ذہین بنا دینے کا شعور رکھنے والی شخصیت کے حامل تھے، گفتگو ہی گفتگو میں بصیرتوں کو تقسیم کر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک خاتون کو چند کاغذات کی ضرورت تھی جو نا ممکن سی بات تھی اور وہ خاتون قونصلیٹ سے کسی بھی صورت میں باہر نکلنے پر راضی نہیں تھی اس نے ملاقات کا اظہار کیا، آپ نے ملاقات کی کچھ ہی دیر بعد خاتون خوشی خوشی گھر روانہ ہو گئی۔ آپ جب اپنی پٹھانی اردو میں گفتگو کرتے تھے تو لگتا تھا کہ کوئی آبشار پہاڑوں سے زمین پر آ رہا ہے۔ آپ جب بھی کمیونٹی سے خطاب کرتے تھے تو قرآنی آیات کے حوالہ جات کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتے تھے آپ تہذیبوں کے اشتراک کی بلند فصیل پر چلتے ہوئے سب سے روشن چراغ تھے، ہمارے ہوتے ہوئے کئی ہیڈ آف چانسلری، قونصلیٹ جنرل اور سفیر پاکستان تشریف لائے ہر کسی کا اپنا مقام تھا، سفیر پاکستان عبد الباسط خان بھی نہ بھلانے والی شخصیتوں میں سے ایک ہیں، ڈاکٹر امتیاز احمد قاضی اور زاہد حسین یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے کمیونٹی کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ اسی طرح قونصلیٹ کا عملہ یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے فی الوقت کمیونٹی کو قونصلیٹ جنرل اسلامی جمہوریہ پاکستان فرینکفرٹ سے کوئی شکایت نہیں اگر ہے تو ایک ہی کہ (نادرہ کا ڈیسک بنایا جائے) قونصلیٹ جنرل اسلامی جمہوریہ پاکستان فرینکفرٹ سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ عنقریب جلد سے جلد نادرہ کا ڈیسک قائم کیا جائے۔ جرمنی کی کمیونٹی کو اس بات پر فخر ہونا چاہیئے کہ سفیر پاکستان سیدو ثقلین، فونصل جنرل اور کمرشل قونصلر ایک بہت اچھی ٹیم ہیں جس سے ملک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ٭میں یہ سارا کچھ اس وقت بھی لکھ سکتا تھا جب شفاعت احمد کلیم (خٹک) یہاں موجود تھے صرف اس لئے تحریر نہیں کیا کہ اپنی کمیونٹی کے لوگ بات کو دوسرا رُخ دے دیتے۔