۔،۔فتنہ: آزمائش یا فکری زوال۔عارف محمود کسانہ۔ سویڈن۔،۔
دنیا کی تاریخ انسانی آزمائشوں سے بھری پڑی ہے، لیکن کچھ آزمائشیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر امتحان لگتی ہیں، مگر درحقیقت وہ قوموں کی فکری بنیادوں کو متزلزل کر دیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ہمہ جہت حقیقت ہے: “فتنہ”۔ فتنہ کا لفظ ہم اکثر بولتے ہیں لیکن حقیقت میں اس وسیع المعنی لفظ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ لغوی اعتبار سے اس کا مفہوم ہے کسی چیز کو آگ میں ڈال کر اس کی حقیقت ظاہر کرنا جیسے سونا آگ میں ڈال کر اس کی کھوٹ الگ کی جاتی ہے اور خالص پن ظاہر ہو جاتا ہے۔فتنہ کے اور بھی معنی ہیں جنہیں جاننا بہت ضروری ہے۔ اس معنی آزمائش،ابتلا،امتحان،گمراہی میں ڈالنا،فساد،عذاب،دھوکہ دینا اورکفر و شرک کی طرف مائل کرناہے۔ اس لئے جب بھی فتنہ کا لفظ بولا جائے گا تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ کس سیاق و سباق میں آیا ہے۔ قرآن کریم نے مختلف مواقع پر “فتنہ” کا ذکر کیا ہے اور وہاں بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ کس مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، گمراہیوں، سازشوں اور اخلاقی انحطاط کو “فتنہ” کہا گیا ہے۔فتنہ: ایک اصطلاحی تشریح ہے۔ ہم عمومی طور پر دنگا فساد اور خون ریزی کو فتنہ کہتے ہیں۔لیکن فتنہ صرف جنگ یا فساد کا نام نہیں۔ یہ فکری زہر بھی ہو سکتا ہے، نظریاتی انحراف بھی، اور مذہبی جذبات سے کھیلنے والی چالاکی بھی۔ ایک روایت ہے جس میں نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں فتنوں کا ظہور ہوگا، ایک فتنہ دوسرے سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ فتنے رات کے سیاہ اندھیروں کی طرح آئیں گے۔ انسان صبح کو مؤمن ہوگا اور شام کو کافر ہوگا۔کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں؟ کہیں میڈیا کے ذریعے، کہیں سوشل میڈیا کی آزادی کے پردے میں، کہیں تعلیمی اداروں میں “آزادیِ فکر” کے نام پرجس کے دل جو آتا ہے کہے چلا جاتا ہے۔ یہ سب وہ فتنے ہیں جنہوں نے انسان کو نہ صرف دین سے دور کیا بلکہ اس کی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی پہچان بھی مٹا دی۔آج کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کردیا گیاہے۔ کسی کے لئے تمیز کرنا بہت مشکل ہوجا تا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ معاشرتی زندگی ہی لے لیں، ہر شخص اپنے آپ کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا کہے گا۔ ہماری گھریلو زندگی اسی وجہ سے بے سکون ہے۔اجتماعی زندگی کا جائیزہ لیں تووہاں یہی صورت حال ہے۔ ایک دور تھا جب ویڈیو نہیں بنتی تھی اور تب کوئی غلط بیانی کرتا تھا یا اپنے بیان سے مُکر جاتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر لکھا گیا ہے۔ لیکن اب ہمارے سامنے ویڈیو کی صورت میں شہادت ہوتی ہے تو تب بھی ڈھٹائی سے انکار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ شاید یہی ہے کہ انسان سچ اور جھوٹ میں تمیز کھو چکا ہے۔ باطل کو حسنِ بیان کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ حق کو دقیانوسیت قرار دے کر پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے اور فتنے تو قتل سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ فتنے ہمیشہ تلوار لے کر نہیں آتے۔ بعض اوقات یہ مسکراتے چہروں، دلکش نعروں اور لبرل سوچ کے ساتھ آتے ہیں۔ اس لئے فتنہ کی مختلف اقسام کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔ دینی فتنہ سے مراد دین میں تحریف، بدعات اورفرقہ واریت کو کہیں گے۔ معاشی فتنہ میں سودی نظام، رزقِ حرام، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناقص مال فروخت کرنا اور کم تولنا ہوسکتا ہے۔ معاشرتی فتنوں میں فحاشی، بے حیائی، خاندانی نظام کی تباہی اور اخلاقی زوال شامل ہے۔ سیاسی فتنہ میں میں کرپشن، اقربا پروری، سازشیں، لاقانونیت، ناانصافی اور جبر شامل ہے جبکہ فکری فتنوں میں لادینیت، الحاد، دینی تعلیمات کا مذاق اور گمراہی شامل ہے۔ ان حالات میں ہمیں اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہونا اور اس کے مطابق عملی اقدامات کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم تحریر و تقریر اوراپنے عمل کے ساتھ اپنا کردار دا کرسکتے ہیں۔ سچ کا ساتھ دیں اور جھوٹ کو مسترد کریں۔ حق کے ساتھ کھڑے ہوں اور باطل کو ٹھکرائیں۔ عدل اور انصاف کا ساتھ دیں اور ظلم و ستم کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ ہماری زندگی میں بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں یا ہماری صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ ہم ظلم و ستم کے خلاف نہیں بول سکتے۔ ہم کسی بھی وجہ سے یا مصلحت کی وجہ سے سچ اور حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے لیکن کم از کم اتنا تو ضرور کریں کہ ظالم کے ساتھ بھی کھڑے نہ ہوں۔جو حق پر نہیں اور ظالم ہے، اس سے دوری اختیار کریں۔ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک، اگر ہم مظلوم کا ساتھ نہیں دے سکتے تو تو ظالم کے ساتھ بھی تعلق نہ رکھیں۔ آج جب ہر سمت سے فتنے امڈ رہے ہیں، تو صرف علم، شعور، قرآن و سنت سے وابستگی اور اجتماعی بیداری ہی ہمیں ان سے بچا سکتی ہے۔ ہمیں فتنے کے گہرے اثرات پر غور کرنا ہو گا۔اپنی نسلوں کو فتنے کی آگ سے بچانے کے لیے صرف نعرے نہیں، عملی اقدامات درکار ہیں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں فتنے کی لپیٹ میں آئیں، وہ یا تو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں یا غلامی میں جکڑی گئیں۔یاد رہے کہ فتنہ کوئی دور کی کوڑی نہیں، یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ بس ضرورت ہے تو آنکھیں کھولنے، حق و باطل میں فرق پہچاننے، اور استقامت اختیار کرنے کی۔اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ سنبھالا، تو اگلی نسلیں ہمیں صرف تاریخ کی کتابوں میں ایک “غافل قوم” کے طور پر یاد کریں گی اور ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
