-,-پاکستان کے سول ایوارڈز 2025 اور دبی دبی سسکیاں-فوزیہ مغل۔ فرینکفرٹ-,-
پاکستان کے سول ایوارڈز 2025 اور دبی دبی سسکیاں,پاکستان میں سول ایوارڈز کا نظام 19 مارچ 1957 کومتعارف کروایا گیا
1975 میں پاکستان سول ایوارڈز رولز کے تحت یہ نظام منظم کیا گیا اس سال پاکستان کے سول ایوارڈز کا اعلان صدر آصف علی زرداری نے کیا ان ایوارڈز کا مقصد مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا اس سال مجموعی طور پر 263 افراد کو یہ ایوارڈز دیے گئے جن میں 52 افراد کو فنونِ لطیفہ، ادب اور کھیل کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی پر ایوارڈز ملے۔نشانِ پاکستان یہ پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے جو غیر ملکی شخصیات کو دیا جاتا ہے اس سال یہ ایوارڈ سعودی عرب کے پرنس خالد الفیصل کو دیا گیا۔ ہلالِ پاکستان یہ ایوارڈ غیر ملکی شخصیات کو دیا جاتا ہے جو پاکستان کے لیے نمایاں خدمات انجام دیتی ہیں۔ اس سال یہ ایوارڈ چین کے تین اعلیٰ حکام کو دیا گیا۔ ستارہِ امتیاز یہ ایوارڈ پاکستانی شہریوں کو ان کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ تمغہِ امتیاز یہ ایوارڈ بھی پاکستانی شہریوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ اس بار شاید پاکستانی تاریخ کے پہلے سول ایوارڈز ہیں جو تقریباً 80.فیصد اہل افراد تک پہنچے ہیں سوائے چند ناموں کے جن کی بلند سرکاری حیثیتوں کے باوجود کارکردگی صفر رہی ان ادبی جوکیوں کو شاید سینئرٹی کی بنیاد پر شامل کیا گیا ہو لیکن مجموعی طور پر شفافیت کا گراف بلند ہی رہا ہے جس کی واضح مثال محترم اختر عثمان تجمل کلیم مرحوم کے نام کی صورت میں نظر آئی ہے۔ ماضی قریب میں پانچ فیصد بھی مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتے تھے لیکن اس بار شفافیت کے باوجود کچھ دبی دبی سی سسکیاں ان خواتین و حضرات کی نمایاں سنائی دے رہی ہیں جنہوں نے پچھلی چند دہائیوں میں سرکاری سیٹیں پروٹوکول اور اعزازات سب کچھ چپ چاپ سمیٹا اور سرکاری خرچوں پر اپنے ذاتی مفادات حاصل کیے۔ ان چند دہائیو کے دوران کیا کوئی جینوئن بغیر سرکاری سیٹ کے شاعر / شاعرہ مصنف/ مصنفہ یا ادیب سامنے آیا؟ کیا پنجاب کی دھرتی اتنی بنجر ہو چکی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی یہ دھرتی ادبی لحاظ سے اتنی ہی زرخیز ہے جتنی پہلے تھی مگر اس وقت سرکاری سیٹوں پر ذہنی مریض اور اپنی ذات کے اسیر افسران نہیں ہوتے تھے سب سے معزز شعبہ تعلیم کا ہوتا ہے جہاں ہر شعبوں کے لیے معماروں کی بہترین تیاری کروائی جاتی ہے مگر افسوس ہمارے درسگاہوں میں ایک بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی رہی ہے اور ہیں جو سر کی چوٹی سے لیکر پاوں کی ایڑی تک زور لگا کر صرف خود کو تیار یا اہل کرتے ہیں ادب کے کسی نہ کسی شعبے میں گھسنے کے لیے۔ اگر یہ اتنے ہی قابل ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد یہ شوق فرمائیں دوسرے ممالک کی طرح۔ یہاں تقریبا ہر شعبہ کا یہی حال ہے اسکی وجہ یہی ہے انہیں نے اپنے تعلیمی تربیتی کیرئیر میں یہی کچھ اپنے اساتذہ سے سیکھا ہوتاہے ریڈیو ٹی وی ہر جگہ ایسے لوگ مسلط ہیں جن کے سائے میں صرف ان کے حواری ہی پل سکتے ہیں۔ جینوئن رائٹر اپنے حق سے محروم ہی رہتا ہے بغیر سرکاری سیٹ کے چند ادبی بڑے قدآور سینئر بیچارے جو گاہے بگاہے آوازِ حق بلند کرتے ہیں مافیا گروپ ان کے ادبی قد کو دبانے کی کوشش میں ناکام ہے مگر ان کی آواز کو کسی حد تک دبانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ اس سال سول ایوارڈز کے عمل میں شفافیت نظر آئی ہے مگر یہ ضروری ہے کہ یہ اعزازات صرف اہل اور مستحق افراد کو ہی دیے جائیں سرکاری سیٹوں پر مسلط افراد اور مافیا گروپوں کے اثرات کو کم کرنا اور جینوئن ادبی شخصیات کو نمایاں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔