۔،۔ بارہ ربیع الاول بروز جمعرات فرینکفرٹ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن (قیصر اسٹریٹ) سے شمع بردار جلوس نکالا گیا۔ نذر حسین۔،۔
٭سارے جہانوں کے سردار حضرت محمد ﷺ جنہوں نے رات دن اپنے رب سے ایک ہی فریاد کی اور کرتے رہے(یا اللہ میری اُمت کی بخشش فرما دے) اُسی محمد عربی کی میلاد پاک دارالسلام فرینکفرٹ میں منائی گئی ٭قُل بِفَضلِ لِلّہِ وَ بِرَحمتِہِ فَبِذَ لِکَ فَلیَفرَحُو ھُوَا خَیرُ مِمَا یَجمَعُونَ۔تم فرماوُ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے٭اللہ کی کوئی بھی رحمت ہو تو خوشی کرنے کا حکم ہے تو جو سب سے بڑی رحمت ہو، جو سب سے بڑی نعمت ہو اب آپ میں سے کوئی بھی کہہ سکتا ہے نبی پاک اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔پھر قرآن میں اللہ خود فرماتا ہے۔ وَ مَا ارسَلنکَ اِلَا رَحمَتََ لِلّعلَمِینَ۔میرے آقا تو سارے جہان کے لئے رحمت ہے۔حدیث قدسی ہے اے محبوب تجھے نہ بناتا تو یہ کائنات ہی نہ بناتا٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/۔ روشنیوں کے شہر فرینکفرٹ میں ادارہ پاک دارالسلام میں میلاد مصطفی منانے کے لئے مسجد کو اندر اور باہر سے قمقموں کے ساتھ سجایا گیا تھا٭قُل بِفَضلِ لِلّہِ وَ بِرَحمتِہِ فَبِذَ لِکَ فَلیَفرَحُو ھُوَا خَیرُ مِمَا یَجمَعُونَ٭ کی آیت اور اللہ کے فرمان ٭وَ مَا ارسَلنکَ اِلَا رَحمَتََ لِلّعلَمِینَ٭ کو سمجھنے والوں نے میلاد مصطفیﷺ کی خوشی منانے کو اپنی خوشی سمجھ کر منا ڈالا جو کہ وہ ہر سال بڑی شان و شوکت کے ساتھ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جرمنی میں سب سے پہلی مسجد جس نے میلاد کا جلوس نکالنا شروع کیا تھا اور آج تک اس عمل کو ہر سال دہراتے ہیں اور انشا اللہ دہراتے رہیں گے یہ کہنا تھا امام مسجد(ادارہ پاک دارالسلام) کا۔میلاد کی محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا، پھر اللہ کے حضور نعتیہ کلام پیش کیا گیا۔۔حضرت مولانا عبد اللطیف چشتی کا فرمانا تھا کہ ماہ ربیع اول شریف ماہ ربیع النور شریف کی آمد پر جملہ احباب کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں، مالک نے توفیق دی اس کے محبوب کی تشریف آوری کے اوپر خوشی کا اظہار کرنے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے مالک ہم سب کی حاضری کو قبول فرمائے۔بِا لّمُوُ مِنِینَ رَءُ وفُ رَحِیم۔ رب نے ہمیں وہ نبی دیا ہے جس کے بارے میں رب فرماتا ہے کہ وہ مومنین کے لئے روف بھی ہیں اور رحیم بھی ہیں۔یہ دو صفات کس کی ہیں رب تعالی کی ہیں،یہ دو صفات ایسی ہیں جو رب نے اپنے محبوب کے سوا کسی کو عطاء نہیں کیں۔انسان کو کیوں پیدا کیا گیا تھا انسان وہ مقصد بھول گیا ہے وہ کیا تھا٭ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔یہ جہاں چیز ہے کیا یہ لوح و قلم تیرے ہیں ٭ ان کا کہنا تھا کہ وہ خوش نصیب ہیں جو حضور کا میلاد مناتے ہیں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ جتنے انبیاء آئے اللہ کریم سب کا خالق ہے،اللہ نے جب ان پر وحی فرمائی نازل کی تو نام لے کر خطاب کیا۔آدم سے عیسیؑ تک یہی معاملہ رہا۔یا آدم۔یا نوع۔یا ابراہیم، یا داودُ،یا ذکریا، یا یحیی،یا موسی۔ یا عیسی، اللہ تبارک تعالی نے حضرت کو مبعوث فرمایا کہا قرآن میں چار بار محمد کا نام آیا لیکن یا محمد کے طور پر نہیں۔اللہ نے قرآن میں کہیں یا ایوہل مزمل۔مدثر۔یسین ان کا رتبہ بڑوں سے بڑا ہے۔ ان کا مزید فرمانا تھا کہ محفل میلاد کے لئے ضروری نہیں کہ دیگیں پکائی جائیں،پکوان بنائے جائیں، جب وہاں سے منظوری آتی ہے (چَنوں) کے اوپر بھی میلاد پڑھو رب کے محبوب کی بارگاہ میں قبول ہو جاتا ہے،شاہ ولی اللہ کے والد صاحب فرماتے ہیں میں ہر سال جب میلاد شریف کا چاند طلوع ہوتا۔بارہ ربیع الاول کا دن آتا اپنے محبوب آقا کی شان میں محفل سجاتا،دوستوں کو دعوت دیتا کہ وہ آج میرے نبی کا میلاد پڑھیں گے مجھے جو رب نے توفیق دی ضیافت کا اہتمام کرتا،ایک سال ایسا آیا ان کے پاس کچھ نہیں تھا پریشان ہو گیا،میلاد کا مہینہ آ گیا کیسے کروں میں نے دیکھا میرے پاس تھوڑے سے پیسے ہیں اس کے چنے خریدے،میلاد کا اہتمام کیا اسی رات حضور کا دیدار نصیب ہو گیا۔مغرب کا وقت قریب آ گیا میلاد میں شریک حضرات کو لنگر محمدی پیش کیا گیا،نماز مغرب ادا کی گئی، فرینکفرٹ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے سامنے (قیصر اسٹریٹ) سے شمع بردار جلوس نکالا گیا۔ جیسے ہی لاوڈ اسپیکر سے ٭نُور والا آیا ہے۔نُور لے کر آیا ہے۔سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نُور چھیا ہے ٭ کی صدائیں لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرائیں تو ہر کسی کی نگاہیں ہوا میں لہراتے سبز جھنڈوں پر رُک گئیں، نہ چاہتے ہوئے بھی کئی لوگ پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ ایسا کیا ہوا ہے جو اتنے لوگ مشعل بردار ریلی نکال رہے ہیں، انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ چند ننھے منے بچے بھی ریلی میں شامل ہیں اور ان کے لبوں پر بھی٭نُور والا آیا ہے۔نُور لے کر آیا ہے۔سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نُور چھیا ہے کی صدائیں ہیں۔لاوڈ اسپیکر سے ابھرتی بلند آوازیں روشنیوں کے شہر فرینکفرٹ کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکراتی سنائی دی جا رہی تھیں اور روشنیوں کا طوفان سڑکوں پر لہراتا نظر آ رہا تھا سجی سجائی گاڑیاں اورر خصوصی طور پر ٭شیخ شوکت محمود۔ ہر سال اپنی گاڑی کو دلہن کی طرح سجا کر لاتے ہیں سب سے آگے آگے تھے٭جلوس مختلف شاہراوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل مقصود تک پہنچا جہاں پر حضرت مولانا ملک محمد صدیق پتھروی نے اجتماعی دعا فرمائی۔ ریلی میں شریک افراد کو سموسے پیش کئے گئے ایسے یہ جلوس اپنے اختتام کو پہنچا۔اللہ کریم سب کی حاضری کو قبول و منظور فرمائے(آمین ثم آمین)