۔،۔تصوف اوربانی جماعت اسلامی مولا ناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔میرافسر امان۔،۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒاپنی خود نشست سوانح میں فرماتے ہیں۔خاندان مودودیہ کی جس شاخ سے میرا تعلق ہے وہ نویں صدی ہجری کے اواخر میں بلوچستان سے ہندوستان آیاتھا۔ اس شاخ کے پہلے بزرگ حضرت ابو جعفر ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ ان ہی کے نام کی نسبت سے میرا نام ابوالاعلی مودودیؒ رکھا گیا۔حوالہ”تصوف اور تعمیر سیرت“ مصنف عاصم نعمانی۔کتاب تذکرہ سید مودودی جلد اوّل میں پڑھا۔ خاندان موودیہ کے مورثِ اعلیٰ اور تمام سلاسل چشتیہ ہند کے شیوخ حضرت خواجہ مودود چشتیؒ حضرت ابو یوسف چشتیؒ کے بڑے صاحب زادے اور خلیفہ مجاز تھے۔ خرقہ اجازت اُنہیں سے حاصل کیا تھا۔خواجہ محمد یوسف چشتیؒ کا نسب تیرہ واسطوں سے حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔حوالہ تصوف اور تعمیر سیرت مصنف عاصم نعمانی۔ آپ کی والدہ ماجدہ خواجہ ابو محمد چشتیؒ کی ہمشیرہ اور خواجہ ابو محمدچشتی ؒکی دختر نیک اختر تھیں۔سید خواجہ مودودچشتیؒ اپنے والد سے بیعت تھے۔ سید خواجہ مودود چشتی ؒکی وفات ۷۲۵ھ میں ہوئی۔اسی چشت میں سید مودودچشتی ؒ کا مزار آج بھی موجود اور مرجعء خلائق ہے۔سید مودودچشتیؒ کے خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ارادت مند کتنے ہوں گے اسے ہم خود شمار کر سکتے ہیں۔تصوف بھی دین کا حصہ ہے۔ قرآن میں ذکر و فکر پر زور دیا گیا ہے۔ بعد میں لفظ تصوف بھی معروف ہوا۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی تصوف کے چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ تصوف بارے مولانا مودودیؒ پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے۔ پھر یہی الزام جماعت اسلامی پر بھی لگائے جاتے ہیں۔ جن میں ایک تصوف بھی ہے۔ اس بارے میں سید مودودیؒ پر ایک صاحب کے سوال کا جوب لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔”میں حضرت قطب الدین مودود چشتیؒ کی اُولاد میں سے ہوں۔ اسی لیے اپنے آپ کو موددی لکھتا ہوں۔ یہ کسی نشر عام یا تشہیر کے لیے نہیں ہے اور اس سے کوئی فائدہ اُٹھانا مقصود ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو شعوب اور قبائل میں تعارف و امتیاز کے لیے تقسیم کیا ہے۔ میں جس قبیلہ کا ہوں محض اس کا اظہار کرتا ہوں۔ ”مودودی“ کسی مسلک یامذہب کانام نہیں ہے کہ مجھ پر اس لیے اعتراض دارد ہو۔ میں اس خاندان سے ہوں جس میں ایک ہزار برس سے سلسلہ بیعت و ارشاد جاری رہا ہے۔ مجھے اس کے تمام اچھے ا ور بُرے پہلوں کا براہ راست مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔ کسی بیرونی آدمی کے طرح تعصب کے ساتھ اسے نہیں دیکھاہے بلکہ قدرتی طور ر اس کے متعلق میرا نقطہ نظر ہمدردانہ ہے۔اس کے بعد اگر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام کے دوسرے اداروں کی طرح یہ ادراہ بھی انحطاط کاشکار ہو گیا ہے۔ اور اس میں بہت ردو و بدل کی ضرورت ہے۔ تو یہ کسی بیرونی دشمن کے رائے نہیں ہے بلکہ گھر کے دوست کی رائے ہے جو محض حق پرستی کی بنا پر ظاہر کی گئی ہے۔ اگر حق میرے پیش نظر نہ ہوتا تو میرے لیے بہت آسان تھا کہ خود اپنے خاندان کی گدی سنبھال کر بیٹھتا اور مشیخت کا رنگ جما کر ہاتھ پاؤں چومنے والے اور نزرانے گزارنے والے بہت سے حضرات کو اپنی ارد گرد جمع کر لیتا“ تذکرہ سید مودودیؒ کے صفحہ۳۱۔۴۱ میں پڑھا کہ سکندر لودھی کے زمانے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بزرگ شاہ ابواعلیٰ جعفرؒ نے بلوچستان سے مستقل ہجرت کر کے ہندوستان میں کرنال کے قریب براس نامی بستی میں رشد وہدایت کی سمع روش کی تھی۔تاریخی طور پر ہجرت و جہاد اس خاندان کا طرہ امتیاز ہے۔ جیسے خود سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ علامہ اقبالؒ کے کہنے پر اپنا وطن حیدر آباد دکن چھوڑ کر خالصستاً اللہ،پنجاب کے علاقے پٹھان کوٹ جمال پور تشریف لائے۔ اللہ کے دین کا اللہ کے بندوں پر نفاذ کے لیے ڈھیرے ڈالے۔ ڈاکڑ اسرار احمد ؒ نے کسی محفل میں کہا تھا کہ پاکستان کے قیام اور اسے اسلامی بنانے کے شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے دو عظیم کام انجام دیے تھے۔ا یک ناراض قائد اعظم ؒبانی پاکستان کو لندن سے ہندوستان بلا کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کو کہا۔جس نے پاکستان حاصل کیا۔ دوسرے سید ابواعلیٰ مودودی ؒکو حیدر آباد دکن سے پنجاب پٹھان کوٹ جمال پور بلا کر اسلامی فقہ کی تدوین جدید پر لگایا۔ اور پاکستان کو اسلامی بنانے کے لیے جماعت اسلامی قائم کی۔ہم بات کررہے تھے سید موددی ؒ کے بزرگ شاہ ابواعلیٰ جعفرؒ کی۔ شاہ ابوالاعلیٰ جعفرؒ نے ہندوستان آکر بنفس نفیس جہاد بالسیف میں بھی حصہ لیا۔ سلکندر لودجی کے اس لشکر کے ہمراہ آپ اپنے مریدان با صفحاکے ساتھ شریک تھے جس نے قلعہ تھنکر پر چڑھائی کی تھی۔راجپوتوں کے اس قلعے ک بلا آکر شاہ ابو الاعلیٰ جعفرؒ کے تیر قضانے فتح سے ہمکانار کر دیا۔ کہتے ہیں باغی راجہ قلعے میں محصور تھا۔ لڑائی طول پکڑ چکی تھی اور قلعہ فتح نہیں ہور ہاتھا۔ایک دن شاہ جعفر ابوالاعلیٰ اپنی تیر اندازوں کے ساتھ قلعے کے اُس جانب جانکلے جہاں باغی راجہ فصیل پر بیٹھا لڑائی کا رنگ دیکھنے میں محو تھا۔شاہ ابوالاعلیٰ جعفرؒ نے ایسا تیر پھینکا کہ سیدھا راجہ کی آنکھ میں لگا۔ وہ زخمی ہو کرگرا۔ لڑائی پانسہ پلٹ گیااور مسلمانوں نے قلعہ فتح کر لیا۔جب سلطان کو علم ہوا کہ فتح کا سہرا اس بزرگ کانام ہے۔اسے معلوم ہوا کہ مرد درویش شاہ جعفر نے بغیر کسی معاوضے اپنے مریدوں کے ساتھ جہاد فی بالسیف کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جنگ میں شرکت کی، تو بادشاہ کو رحانی مسرت ہوئی ور ضلع کرنال سے میرٹھ تک پھیلی جاگیر نذر کر دی۔ میں نے تصوف کے بارے کوئی خاص کتاب نہیں پڑھی۔ ہاں جب سے جماعت اسلامی میں شامل ہواہوں اور جماعت اسلامی کے دین کے بارے اور تصوف بارے کچھ معلومات ضرور ملیں۔ کیوں کہ جماعت اسلامی ایک دینی جماعت ہے۔ اس کے ظہور میں آنے کامقصد ہی اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون کا نفاذ کرنا ہے۔ یعنی حکومت الہٰیا، نظام مصفطے یا اسلامی نظام حکومت تو جماعت اسلامی کے کارکن پر لازم ہو گیا کہ وہ دین اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کرے۔ تصوف دین کا ایک حصہ ہے۔ جماعت اسلامی کے پروگراموں مقررین کی تقریروں سے پتہ چلا کہ بزرگان دین نے دنیا میں کیسے اسلام پھیلایا۔ خاص کر بر صغیر میں عرب دنیا سے آئے ہوئے بزرگان دین نے کیسے کیسے محنت کر کے مشرک ہندوؤں کو مسلمان بنایا۔ مسلمان حکمران گدی نشینوں سے کیسے جہاد کے لیے افراد حاصل کرتے تھے۔ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنا کام کر کے اللہ کے ہاں اپنا اجر پالیا۔ان کے بعددور کے بزرگان دین کاکام ہے کہ ان مسلمان ہونے والوں نے جو ہندوانہ رسم رواج ساتھ لائیں ہیں ان کی مذید تربیت کریں اور انہیں توحیدی مسلمان بنائیں۔ یہی کام جماعت اسلامی شروع سے کر رہی ہے۔تطہیر افکار، تعمیر افکار،صالح افراد کی تلاش، ان کی تربیت اور اصلاح معاشرہ، اور نظام حکومت کی اصلاح کرنا ہے۔عوام خوددیکھتے ہیں،ہم شعبہ علم و ادب قلم کاروان اسلام آباد کے پروگروموں کے زریعے اصلاح معاشرہ کا کام کر رہے ہیں جس میں تصوف بھی شامل ہے۔ اللہ ہماری مدد فرمائے آمین۔
