۔،۔ رشتوں کی مٹی میں محبت کا بیج بو دو۔ واجد قریشی۔کوپن ہیگن۔،۔
کبھی ذرا ٹھہر کر سوچا ہے… وہ رشتے جو کبھی ہماری زندگی کی خوشبو تھے، اب اجنبی کیوں لگنے لگے ہیں؟وہ چہرے جنہیں دیکھ کر دل کو اطمینان ملتا تھا، اب ان سے نظریں ملانا بھی کیوں بھاری ہو گیا ہے؟شاید اس لیے کہ ہم نے رشتوں میں محبت کے بجائے“میں”کا بیج بو دیا ہے۔ جہاں“میں”جنم لے لیتی ہے، وہاں“ہم”مر جاتا ہے، اور جب“ہم”مر جائے تو رشتے سانس لینا بھول جاتے ہیں۔کبھی کبھی رشتے یوں نہیں ٹوٹتے کہ کوئی بڑی بات ہو جائے، بلکہ یوں بکھر جاتے ہیں کہ احساس کی زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ محبتوں کا دریا آہستہ آہستہ خشک ہونے لگتا ہے، اور ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ کب باتوں کی جگہ خاموشیاں لے لیتی ہیں، کب مسکراہٹوں کے پیچھے فاصلے چھپنے لگتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں شاید وقت بدل گیا ہے، حالانکہ بدل تو ہم گئے ہیں۔ ہم نے اپنی ترجیحات میں رشتوں کو پیچھے دھکیل دیا، اور دل کی زمین پر خود غرضی کے کانٹے اُگا دئیے۔ پھر شکایتیں بڑھ گئیں، دل چھوٹے پڑ گئے، اور محبت کہیں درمیان میں دب کر رہ گئی۔صوفیاء کہتے ہیں،“دلوں کی دراڑیں وقت نہیں، فقط نرمی بھرتی ہے۔”مگر ہم نے نرمی کو کمزوری سمجھ لیا، اور کمزوری سے بچنے کے چکر میں خود ہی اپنی طاقت، یعنی محبت، کھو دی۔یہ جو بہن بھائی، ماں باپ، خالہ ماموں، چچا پھوپھی — سب ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں، یہ فاصلہ کسی ایک واقعے یا تلخ جملے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہمارے دلوں میں اُگنے والی بے حسی اور انا کی عکاس ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے پرکھنا شروع کر دیا، بات سننے کے بجائے جواب دینے لگے، اور معاف کرنے کے بجائے اپنی انا کے قلعے بلند کر لیے۔ کبھی جو محبت گھروں کی فضا میں خوشبو بن کر بسی رہتی تھی، اب وہ صرف تصویروں کے فریموں میں مسکراتی نظر آتی ہے۔ چہرے وہی ہیں مگر دلوں کے رنگ بدل گئے ہیں، لفظ وہی ہیں مگر احساس کی حرارت کہیں گم ہو چکی ہے۔ اس دوری کے درمیان ہر تعلق کے بیچ اب ایک خاموش مگر مضبوط دیوار کھڑی ہے۔ جس کا نام انا ہے۔ کوئی پہلا قدم بڑھانے کو تیار نہیں، اور کوئی اپنی بات واپس لینے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یوں محبت، جو کبھی سانس کی طرح قدرتی تھی، اب ایک انتظار بن کر رہ گئی ہے، کہ شاید کوئی اسے دوبارہ زندہ کرے۔صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ“جو خود کو جھکا لیتا ہے، وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے، اور جو جھکنا چھوڑ دے، وہ سب سے پہلے اپنے ہی رشتوں سے دور ہو جاتا ہے۔”ہم جھکنا بھول گئے ہیں۔ بڑے ہونے کا غرور اور چھوٹے ہونے کا بہانہ، دونوں نے مل کر محبت کو بیچ راستے میں دفن کر دیا ہے۔ ہر تعلق کے بیچ اب ایک خاموش مگر مضبوط دیوار کھڑی ہے — جس کا نام انا ہے۔ کوئی پہلا قدم بڑھانا نہیں چاہتا، کوئی اپنی بات واپس لینے کو تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دل قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ رشتے جیتنے سے نہیں، جھکنے سے قائم رہتے ہیں، اور جھکنا کمزوری نہیں، دراصل محبت کی سب سے بڑی عبادت ہے۔دلچسپ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اجنبیوں کے لیے ہم نرمی اور لچک اختیار کر لیتے ہیں، مگر اپنے پیاروں کے لیے دل پتھر کا بنا بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جنہیں ہم پہچانتے تک نہیں، ان کے لیے ہم مسکراہٹیں تراشتے ہیں، لہجے بدل لیتے ہیں، خود کو بہتر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب بات اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا قریبی رشتوں کی آتی ہے تو فوراً“میں ٹھیک ہوں”کی دیوار کھڑی کر لیتے ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ جہاں سچائی اور خلوص کی ضرورت ہے وہاں ہم دکھاوا کرتے ہیں، اور جہاں جھکنے سے عزت ملتی ہے وہاں ہم اکڑ دکھاتے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ محبت رتبے سے نہیں، رویے سے پہچانی جاتی ہے۔ اور نرمی وہ زبان ہے جو ہر بند دل کا دروازہ کھول سکتی ہے۔یاد رکھئیے، رشتے محض تعلق نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی امانت ہیں۔ ان کا احترام، ان کی حفاظت اور ان میں دراڑیں پڑنے سے بچانا دراصل زندگی کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ جو دل رشتوں کو جوڑنے کی نیت رکھتا ہے، وہ حقیقت میں اپنے رب سے اپنا ناتا مضبوط کرتا ہے، کیونکہ محبت اور معافی دونوں اسی کے اوصاف ہیں۔ اور جو شخص نفرتوں کو ہوا دیتا ہے، وہ دراصل دوسروں کو نہیں، خود اپنے دل کو جلاتا ہے۔ آہستہ آہستہ، خاموشی سے، اپنی ہی روشنی کو راکھ بنا کر۔ہماری آنے والی نسلیں ہمیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں۔ ہم جیسے برتاؤ کرتے ہیں، وہی ان کے رویوں کا آئینہ بن رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنے رشتوں میں ضد، انا اور نفرت کے بیج بوئے، تو کل انہی بیجوں سے اگنے والے کانٹے ہمارے اپنے دلوں کو زخمی کریں گے۔ نہ کہ کسی نانا نانی، دادا دادی، خالہ ماموں یا چچا پھوپھی کے دلوں کو۔ اور اس وقت ہمیں شکایت کا کوئی حق نہیں رہے گا، کیونکہ وہ تو صرف وہی واپس کر رہے ہوں گے جو ہم نے ان کے دلوں کی زمین میں بویا تھا۔یاد رکھیئے، بچے نصیحتوں سے نہیں، عمل سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے گھروں میں محبت کے چراغ روشن نہ کیے، تو کل انہی بجھے ہوئے دیوں کی تاریکی ہماری نسلوں کا مقدر بن جائے گی۔دنیا فانی ہے، سب کچھ ایک دن مٹ جانا ہے۔ ہماری باتیں، ہماری دلیلیں، ہماری ناراضگیاں۔۔ سب وقت کی مٹی میں دب جائیں گی، جیسے کوئی خواب بکھر کر خاموش ہو جائے۔ مگر یاد رکھیئے، محبت کبھی نہیں مرتی۔ وہ دل جو صاف رکھتے ہیں، وہ روحیں جو معاف کرنا جانتی ہیں، ان کی خوشبو وقت کی سرحدوں سے بھی آگے تک پھیلتی ہے۔ جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، تب بھی محبت زندہ رہتی ہے۔ دعاؤں کے لہجے میں، یادوں کی مہک میں، اور ان دلوں میں جنہیں ہم نے کبھی نرمی سے چھوا تھا۔تو آؤ، آج ہی کسی روٹھے دل کو منائیں، کسی ناراض دل کے دروازے پر آہستہ آہستہ دستک دیں، کسی بہن یا بھائی کو محبت بھرا پیغام بھیجیں، اور دل سے کہہ دیں:“آؤ، دل صاف کر لیں، سب کچھ نیا شروع کریں۔”زندگی بہت مختصر ہے اور وقت کے ساتھ رشتے بھی نازک ہو جاتے ہیں۔ انہیں انا کی آگ میں نہ جلاؤ، بلکہ صبر، معافی اور محبت کی مٹی میں دفن کر کے دوبارہ پروان چڑھاؤ۔ یقین رکھو، جب رشتے محبت کے پھول بن کر کھلتے ہیں، تو خدا خود ان کی خوشبو میں شامل ہو جاتا ہے، اور وہ خوشبو کبھی مدھم نہیں پڑتی۔