-,-سویڈن کی بہادر بیٹی: گریٹا تھون بیری ۃعارف محمود کسانہ -,- 0

-,-سویڈن کی بہادر بیٹی: گریٹا تھون بیری ۃعارف محمود کسانہ -,-

0Shares

-,-سویڈن کی بہادر بیٹی: گریٹا تھون بیری ۃعارف محمود کسانہ -,-

دنیا اسے ایک ماحولیاتی کارکن کے طور پر جانتی ہے، لیکن حقیقت میں گریتا تھونبری صرف موسمیاتی تبدیلی کے خلاف آواز اٹھانے والی لڑکی نہیں، بلکہ وہ انسانی وقار، انصاف اور مظلوم قوموں کے حق میں کھڑے ہونے والی ایک عالمی ضمیر کی آواز بن چکی ہے۔گریتا نے اپنا سفر 2018 میں ایک کارڈ بورڈ کے ٹکڑے اور ایک تنہا احتجاج سے شروع کیا تھا۔ سویڈش پارلیمنٹ کے باہر بیٹھی اس نوجوان لڑکی نے “اسکول کی ہڑتال برائے ماحول” کا نشان اٹھا رکھا تھا۔ یہی وہ خلوص اور عزم تھا جس نے “فرائیڈیز فار فیوچر” جیسی عالمی تحریک کو جنم دیا اور اسے ماحولیاتی انصاف کی علامت بنا دیا۔تاہم، گریٹا کا دائرہ کار صرف ماحولیات تک محدود نہیں رہا۔ جہاں کہیں بھی انسانیت سسک رہی ہو، وہ اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ یہی جذبہ اسے “فلوٹیلا فار ریسسٹنس” نامی مہم میں لے گیا، جو بین الاقوامی سمندری راستے سے غزہ کا محاصرہ توڑنے اور وہاں امداد پہنچانے کی کوشش تھی۔ اس مہم کے دوران، اسرائیلی بحریہ نے ان جہازوں پر حملہ کر کے تمام کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ گریٹا بھی انہیں میں سے ایک تھیں۔اس سے قبل بھی گریتا نے غزہ کو محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تھی اور وہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئی۔ اس بار گرفتاری کے بعد سویڈن کے ایک بڑے اخبار کو انہوں نے اپنی قید کی تفصیلات بتائیں اور جیل میں ہونے والے اسرائیلی مظالم سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا بیان پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی محافظ بار بار انہیں “فحش” جیسے القابات سے پکارتے۔ ان کا سرخ بیگ ضبط کر کے اس پر “گریٹا فحش” لکھا گیا اور اس کے ساتھ نامناسب تصویریں بنائی گئیں۔ انہیں زمین پر پھینک کر ایک اسرائیلی پرچے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ جب بھی اتفاق سے ان کا جسم اس پرچے کو چھو جاتا، محافظ چیختے ہوئے کہتے: “پرچے کو مت چھوؤ!” اور اس کے ساتھ ہی انہیں لاتوں سے مارتے۔ سب سے المناک پہلو یہ تھا کہ تمام کارکنوں کو پانی تک سے محروم رکھا گیا۔گریتاکا کہنا ہے کہ ان کی اپنی سویڈش حکومت نے بھی اس واقعے کی سنگینی کو کم کر کے پیش کرنے کی کوشش کی اور مختلف حیلوں سے کہا کہ کارکنوں کو وہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ جب حکومت نے یہ کہا کہ کارکنوں کو غزہ کے خطرناک علاقے میں سفر نہیں کرنا چاہیے تھا، تو گریتا نے دانشمندی سے جواب دیا:پہلی بات، ہمیں بین الاقوامی پانیوں پر گرفتار کیا گیا تھا، جہاں جانے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ دوسری بات، یہ دیکھیے کہ میری حکومت ان سویڈش شہریوں کی تعریف کرتی ہے جو یوکرین کے ان علاقوں میں جہاں سفر کی پابندی ہے گریتا نے بجا طور پر پوچھا: “پھر وہ سویڈش شہری جو یوکرین میں جنگ کے دوران انسانی خدمت کے لئے گئے، ان کی حکومت نے تو تعریف کی… یہ تضاد کیوں؟ جواب صرف ایک ہے — نسلی امتیاز!” اس کا مطلب صاف ظاہر ہے: یہ ایک واضح معاملہ ہے نسل پرستی کا۔سویڈن حکومت ویسے تو حقوق انسانی کی پاسداری کے لئے آواز بلند کرتی ہے لیکن اس معاملے پر نیم دلانہ بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔سویڈن کی اپنی وزارتِ خارجہ کا رویہ بھی افسوس ناک رہا۔ایک سفید فام، سویڈش پاسپورٹ رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ شخصیت کے ساتھ اگر اسرائیل یہ سلوک کر سکتا ہے، جبکہ پوری دنیا کی نظریں اس پر ہیں، تو ذرا سوچیے وہ فلسطینیوں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں کیا کچھ کرتا ہو گا؟یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا کے بیشتر رہنما تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔گریتا نے نام نہاد جمہوری اور حقوق انسانی کی علمبردار حکومتوں کے چہروں سے نقاب اتار دیا ہے۔ وہ کسی مصلحت، خوف، لالچ یا تعصب کا شکار نہیں ہوئیں۔ ان کا مقصد کوئی عالمی ایوارڈ لینا نہیں کی مصلحت سے کام لیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گریتا تھونبری باقی تمام ’ایوارڈ یافتہ ہیروز‘ سے الگ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ایک طرف نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ہیں، جو تعلیم اور امن کی بات تو کرتی ہیں مگر جب فلسطین کے بچوں پر بم گرتے ہیں تو خاموش رہتی ہیں۔ نہ کسی اسرائیلی جارحیت پر مذمت، نہ کسی شہید فلسطینی بچے کے لئے ایک ٹویٹ۔اور دوسری طرف گریتا ہے — بغیر کسی ایوارڈ کے، بغیر کسی خوف کے، دنیا کی سب سے طاقتور فوج کے سامنے کھڑی۔ نہ مصلحت، نہ خاموشی، نہ سفارتی چالاکی۔ وہ اپنی ہی حکومت کو بھی للکارتی ہے۔ ظالم چاہے کوئی ہو — گریتا بولتی ہے۔دنیا کی ظاکم حکومتوں کے خلاف بغیر کسی لگی لپٹی کے بولتی ہیں۔ وہ کسی مصلحت کا شکار ہیں اور نہ ہی عالمی ایوارڈ کا لالچ رکھتی ہیں۔ان کی اس حق گوئی کی وجہ سے دنیا کی کئی حکومتیں انہیں پسند نہیں کرتیں۔ گریتا کو نوبل انعام نہیں ملا — مگر اب حقیقت یہ ہے کہ اگر اسے ایوارڈ ملے گا تو وہ ایوارڈ کا اعزاز ہو گا، گریتا کا نہیں۔ وہ عزت جو کروڑوں انسانوں کے دل میں جاگزیں ہو چکی ہے، وہ کوئی کمیٹی یا ادارہ دے ہی نہیں سکتا۔میرے لئے بحیثیت ایک سویڈش شہری، سب سے بڑا فخر یہ ہے کہ گریتا تھونبری میرے وطنِ ثانی سویڈن کی بیٹی ہے۔گریتا! ہم تمہیں سلام پیش کرتے ہیں۔تم نے دنیا کو دکھا دیا کہ بہادری کا تعلق نہ عمر سے ہے نہ جنس سے — یہ ضمیر سے ہے۔خدا تمہیں سلامت رکھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں