۔،۔سفرِنور قسط ہفتم۔اے آراشرف۔،۔
ہجرت رسول کریمﷺ ہمارے ہادی و مرسل حضرت محمدصل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت کے بعد جن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اپنے قارعین کے گوش گزار کروں علامہ مرزا یوسف حسین نے کتاب۔نہج البلاغہ۔اردو میں ترجمہ کیا ہے وہ ہجرت رسول مکرم کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ اعلان نبوت کے وقت ہی سے کفار و مشرکین نے حضورﷺ کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی اور ایذارسانی کی مہم شروع کردی تھی جب کفار مکہ کی عداوت کاپیمانہ حد سے تجاوز کر گیاتو اس موقع پر جناب ابوطالبؑ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک محفوظ مقام پہاڑ کی گھاٹی میں ایک قلعہ کی صورت میں منتقل کر دیااور حضرت ابو طالبؑ مشرکین کے خطرناک ارادوں کے پیش نظرہر شب کو جہاں حضورﷺ اول شب سوتے تھے تو آدھی رات کوخوابگاہ رسالت کو تبدیل کر کے اُس جگہ اپنے بیٹوں کو لٹا دیا کرتے تھے کہ اگر کفار حضورﷺ کو اذیت دینے پہنچاناجایئں تو جو کچھ گذرنا ہو وہ اولاد ابو طالب پر گذر جائے مگر پیغمبر اسلام پر آنچ نہ آنے پائے۔بعثت کے بعد کفار مکہ کے سرداروں عتبہ،عتیبہ،ابوجہل اور ابوسفیان وغیرہ جمع ہو کر آنحضرتؑ کی شکائت کرنے کیلئے جناب ابوطالب کے پاس آئے اور شکائت کی کہ تمہارا بھتجا ہمارے خداؤں۔بُتوں کو بُرا کہتا ہے اور ہمیں بُت پرستی سے روکتا ہیاور ہمارے دین کی توہین کرتا ہے پس تم محمدﷺ کوقتل کرنے کے لئے ہمیں دیدواور اُن کی بجائے ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہم سے لے لو یہ سُن حضرت ابو طالبؑ کو غُصہ آ گیا اور فرمایا کہ تم بڑے بیوقوف ہو یہ کونسی دانائی کی بات ہے کہ میں اپنا فرزند تمہیں قتل ہو نے کیلئے دیدوں اور تمہارے بچے کو لے کر پرورش کروں دور ہو جاؤ میں صاف صاف کہتا ہوں جو محمدﷺ کا دشمن ہے اور جو میر دین کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔معارج النبوا۔جب آنحضرتﷺکسی صورت بھی کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ آئے اور حضرت ابوطالبؑ کو بھی حضورﷺ کی حفاظت اور حمائت سے دستبردار نہ کر سکے اور شعب ابو طالب میں آنحضرتﷺ کو محفوظ کر دیا تو یہ دیکھ کر کفار و مشرکین کی آتش غضب مزید بھڑک اُٹھی اور حضورؑ کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان نے موقع پاکر تمام کفار قریش سے بنی ہاشم کا بائیکاٹ کرا دیااور ایک عہد نامہ لکھا گیا جس کی رو سے ہاشمیوں سے شادی بیاہ جائز تھا اور نہ اُن سے تجارت جائز تھی یہاں تک تمام ضرویات زندگی کھانا پانی تک بند کر دیاتھارسالت مابؑ کی بعثت کے ساتویں سال کا یہ واقعہ ہے کہ ابوطالبؑ متواتر تین سال تک ہر قسم کی تکلیفٰں برداشت کرتے رہے اور کفار کے اس بائیکاٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے پیغمبر اسلام کی حفاظت و حمائت کرتے رہے سوائے بنی ہاشم کے اس بائیکاٹ میں کسی اور بزرگ کا نام نہیں ملتا مسلسل تین سال کے بعد یہ سوشل بائیکاٹ ختم ہوامگر ان انتہائی مصائب کے تین برسوں میں کسی اور کی خدمت کا ریکارڈ نظر نہیں آتا حالانکہ سب ہی غریب و نادار نہ تھے ان میں غنی موجود تھیاسی لیئے حضورﷺ نے اپنے مربی،معاون وحامی چچا کے احسانات کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا ہے یعنی جب تک ابوطالب زندہ رہے کفار مجھے ایذا نہ پہنچا سکے یہ تحریر تاریخ کامل کیجلد دوئم میں موجود ہے۔بعثت کی ۰۱ ہجری میں حضرت ابو طالب نے داعی اجل کو لبیک کہا اورجوار رحمت میں اس محافظ رسالت نے جگہ پالی تو آپ کی مفارقت دائمی کا حضورﷺ کو اسقدر صدمہ اور رنج ہوا کہ اُس سال کا نام آپﷺ نے (عام الحزن)یعنی رنج و مصیبت کا سال رکھاکیونکہ حضرت ابو طالب ؑ کی وفات کے بعد کفارقریش کے حوصلے بہت زیادہ بلند ہو گئے اور وہ تیزی سے آنحضرتﷺ کوہر طرح کی اذیتیں پہنچانے کی تدبیریں بنانے لگے تھے اور اُنکی آتش انتقام جوش میں آئی اور تمام روساء قبائل کفار جمع ہوئے اور باہمی صلاح و مشورہ کیلئے دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے اور ان کے سرغنہ ابو سفیان تھے بہت سی تدبیریں زیر غور رہیں آخر کار ابو جہل کا مشورہ سب نے متفقہ طور پر منظور کر لیا کہ ہر ایک قبیلے کا ایک ایک فرد مل کر تلواروں سے آنحضرتﷺ کا خاتمہ کر دے تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلہ سے دیت خون طلب نہ کر سکیں اور سب سے قصاص لینا اُنکی طاقت سے باہر ہو جائیاس طرح مشرکین قریش نے جھٹ سے ہی حضورﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا کیونکہ اہل عرب رات کو خواتین کے مکان میں داخل ہونا معیوب سمجھتے تھے اس لئے باہر کھڑے رہے کہ جب آپ صل علیہ و آلہ وسلم باہر نکلیں تو اُنہیں قتل کر دیں دوسری جانب اللہ تعالیٰ نیاپنے پیارے حبیب کو اُنکے ناپاک اور بد ارادوں سے آگاہ فرما دیا اور حکم دیاکہ اپنے بھائی وصی ووزیر و خلیفہ یعنی علیؑ ابن ابوطالب کو اپنے بستر پر سلا کر راتوں رات یہاں سے ہجرت کر جاؤ چانچہ اس حکم خداوندی کی تعمیل میں آنحضرتؑ نے علیؑ کو واقعات سے آگاہ کر دیا اور حضرت علیؑ بغیر کسی چون و چرا اس حکم تعمیل میں بستر رسالت پر سونے کیلئے آمادہ ہو گئے تاکہ لوگ سمجھیں کہ نبیؑ سو رہے ہیں مولا علیؑ کے بستر نبیﷺ پر سونے کی کفیت کو اسطرح بیان کیا ہے کہ کیا کہنا واللہ علیؑ سوئے تو محمدﷺ بن کراور جاگے تو ولی خدا بن کرآنحضرتؑ نے تو رات ہی علیؑ کو بتا دیا تھا کہ میرے پاس جو لوگوں کی امانتیں ہیں وہ تم ادا کر دینااور میرے پاس چلے آنااور حضورﷺ خود روانہ ہو گئے اور حضرت علیؑ بستر رسالت پر نہایت اطمنان قلب کیساتھ سوئے بلکہ ایسے سوئے کہ گویا کوئی خطرہ ہی نہیں تھا دوسری جانب مشرکین کی حالت یہ تھی کہ مجمع امڈا چلا آتا تھااور لوگ نہایت بے چینی سے صبح کا انتظارکرتے رہے کہ جیسے صبح نمودار ہو اور وہ حملہ کرکے حضورﷺ کو ختم کر دیں مگر رات ہی کو آپﷺنے کچھ کنکریاں کافروں کی طرف پھنکیں اور کافروں کی آنکھوں پر پر دہ پڑ گیا اور آپﷺ ہجرت کر گئے اور کوئی کافر اُنہیں ؑ کو دیکھ نہ سکاصبح ہوتے ہی کافر اندر گھس آئے اور ادھر علیؑ مسکراتے ہوئے اُٹھے اور کفار یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور علیؑ سے پوچھاکہ محمد بن عبداللہﷺ کہاں ہیں جناب امیر المومنینؑ نے فرمایاکہ کیا تم نے محمدﷺ کو میر سپرد کیا تھاجو واپس مانگتے ہوعلیؑ کا بے باکانہ جواب اور وہ غصے اور نفرت سے بپھڑے کفار کے سامنے اسقدر بہادری اور جُرات سے جواب دینا علیؑ کی جھوٹ نہ بولے بغیر دلیری کا مُنہ بولتا ثبوت اور رازداری تھی چونکہ آنحضرتﷺ کافعل عین حکم ومثیت خدا کے مطابق تھا اور خدا نے بھی سورہ افعال میں ارشاد فرمایا ترجمہ۔یاد کرو اے محمدﷺ وہ وقت کہ جب کافروں نے تمہارے ساتھ مکر کیا تھاتاکہ تمہیں قید یا قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں وہ مکر کرتے تھے اورخدا اُنکے مکر کو کاٹتا تھااور خدا تو مکر کرنے والوں کے مکر کوبہترین کاٹنے والا ہے۔(اس آیت کریمہ سے نہایت صریح نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت علیؑ کو بستر رسولﷺ پرسلانے کی تجویز جس سے کفار کے مکر کو توڑا گیااللہ تعالیٰ کے حکم سے قرار پائی تھی اس شب ہجرت کے واقعہ کو تمام مورخین نے بیان کیا ہے اورشب ہجرت علیؑ کا بستر نییﷺ پر سونا جانثاری کا ایسا اعلیٰ ترین ثبوت ہے جسے خدا نے اپنی کتاب میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔یعنی ایک شخص ایسا ہے جو محض خدا کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان فروخت کرتا ہے اور خدا تو اپنے بندوں پر بڑا شفقت کرنے والا ہے اور اس آیت کا مصداق حضرت علی علیہ السلام ہیں۔تواریخ اور رواایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت کے بعد مولائے کائنات حضرت علیؑ تین روز تک مکہ میں رہے اور جو امانتیں رسولخداﷺ کے پاس رکھیں تھیں اُنہیں واپس کیا اور آپؑ بھی بنت رسول جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ اور دیگر خواتین کے ہمراہ مدینہ روانہ ہو گئے علامہ مجلسی کی تحریر کے مطابقحضورﷺ نے مکہ سے سفرکرکے منزل قبا پر قیام فرمایااور ابو واقد کی معرفت امانتیں واپس کرنے کے بعد حضرتب علیؑ کو فوراََ ہجرت کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا علیؑ کے ہمراہ بنت رسول حضرت فاطمہؑ،علیؑ کی والدہ فاطمہ بنت اسد،فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب اور پسر ام ایمن حکم رسول پاتے ہی روانہ ہوئے اور علیؑ رجز پڑھتے ہوئے سفر طے کر رہے تھے علامہ مجلسی کے قول کے مطابق اثناء راہ اٹھ کافروں نے آپؑ کو گھیرا آپؑ نے اپنا دفاع کیا اور حارث بن امیہ کے غلام کاشانہ کو زحمی کر دیا اور دوسر ے سب کافر بھاگ گئے اور یہ قافلہ حضرت علیؑ کی قیادت میں رسولحداﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا۔اسلام کی پہلی مسجدکاقیام۔ہجرت کے چھٹے یا ساتویں ماہ حضور ﷺ نے مدینہ منورہ میں اسلام کی پہلی مسجد تعمیر فرمائی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دنیا بھر میں جس قدر مساجد تعمیر ہوتی رہتی ہیں وہ سب اسی مسجدکی نقل اور شبیہ ہیں ا ور آداب و طہارت میں اصل اور نقل سب برابر ہیں البتہ مسجدنبوی کے احکام جداگانہ ہیں اس مسجد کی تعمیر میں تمام مہاجرین وانصار نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علیؑ اینٹ اور گارا لا کر دیتے تھے اور یہ رجز تھے جسکا ترجمہ یہ ہے۔۔جو مسجد تعمیر کرتا ہے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر مشقت برداشت کرتا ہے اور جو گرد وغبار کے باعث اس کام سے جی چراتا ہے وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے آنحضرت ﷺ نے جب مسجد تعمیر فرمائی تھی تو آپﷺ کے ساتھ صحابہؓ نے بھی مسجد سے ملحق اپنے مکانات تعمیر کر کے اس کے دروازے مسجد میں کھول دئیے تھے تاکہ مسجد میں آنے جانے میں آسانی رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر حالت میں لوگ مسجد میں آنے جانے لگے جس سے مسجد نبوی کی حرمت و تقدس مجروح ہونے لگی اس پر خدا نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیاکہ سوائے در علیؑ کے مسجد میں کھلنے والے دروازے بند کردیں اور علیؑ کو منجانب خدا یہ اجازت ملی۔غرض تمام صحابہؓ کے مکانوں کے دروازے جو مسجد میں کھلتے تھے جب بند کرا دئیے گئے تو اس پر اصحابؓ رسول نے اعتراض کیا جب رسولﷺ کو اُنکی شکایت معلوم ہوئی تو آپﷺ نے منبر پر تشریف لا کراعلان فرمایاکہ نہ میں نے صحابہؓ کے دروازے بند کروائے ہیں اور نہ علیؑ کا دروازہ کھلا رکھا ہے یہ جو کچھ ہوا ہے یہ سب حکم خداوندتعالیٰ سے ہوا ہے اس سلسلہ میں تواریخ کی کتابوں سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے جیسا ابن حجر مکی کی صواعق امحرقہ،ریاض النضرہ، مسند امام احمد بن حنبل اور بہت سی دوسری کُتب اسکی تفصیل موجود ہے جب حضورﷺ کو لوگوں کی چہ میگوئیوں کا پتہ چلا تو آپﷺ منبر تشریف لے گئے اور بعد از حمد و ثناالہی ارشاد فرمایا کہ تحقیق مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کے دروازے سوائے علیؑ کے دروازہ کے بند کر دو مگر اس پر تم اعتراض کرتے ہوبخدا میں نے نہ کوئی خود دروازہ بند کیا ہے اور نہ در علیؑ خود کھلا رکھا ہے مجھے جو حکم خداوند تعالیٰ نے دیا ہے اسکی تعمیل کی ہے۔حاکم۔ کی تحقیق کے مطابق اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح الاسناد حدیث ہے اس بارے میں نے۔ابن عساکر۔نے ابو رافع سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے کہ جناب رسول خداﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ وہارونؑ کو حکم دیا کہ وہ دونوں اپنی قوم کے لئے مکانات تیار کریں اور ان دونوں کو حکم دیا کہ مسجد میں کوئی جُنب نہ ہو اور نہ عورتوں سے مباثرت کریں سوائے ہارونؑ اور اُنکی ذریت کے اسی طرح کسی کیلئے جائز نہیں ہے کہ میری مسجد میں عورتوں سے مباثرت کرئے اور اس میں جُنب رہے سوائے علیؑ اور اُنکی ذریت کے اس واقعہ سے حضرت علیؑ کی مشابہت جناب ہارونؑ سے ثابت ہوتی ہے اور اہل بیت نبویﷺ کی طہارت کاملہ بھی ثابت ہوتی ہے اور اس سلسلے میں حضورﷺ کی وہ حدیث جو بخاری کے علاوہ دوسری شیعہ و سنی محدثین کی دیگر احادیث کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے جو۔ حدیث منزلت۔کے نام سے مشہور ہے۔جنگِ تبوک۔کہ موقع پرجب مدینہ منورہ میں ہر جانب سرگوشیاں عروج پر تھیں کہ۔قیصر روم۔ ایک بڑے لشکرجرار کے ساتھ مدینہ کی جانب بڑھ رہا ہے رفتہ رفتہ یہ افواہ سارے مدینہ میں پھیل گئیں اور جب یہ افواہ رسول اکرمﷺ کے کانوں تک پہنچی تو آپؑ نے حکم صادر فرمایا کے دور و نزدیک کے تمام مسلمان۔قیصر روم۔کے لشکر کا مقابلہ کرنے کیلئے سفر کے واسطے تیار ہو جائیں مگر مدینہ کے سیاسی ماہروں کے نزدیک۔قیصر روم۔ جیسے طاقتور دشمن سے لڑنا ایک خطرناک اقدام تھا دوسری جانب منافقین اپنی خفیہ میٹینگووں میں یہ کہہ کر کہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر رہے تھے کہ محمدﷺسمجھتے ہیں کہ۔قیصر روم۔سے جنگ لڑنا بھی عربوں کی مانند آسان ہو گا۔منافقین کی ان خفیہ سر گرمیوں کے پیش نظر حضور پاکﷺ کو مدینہ منورہ کے نظم و ضبط کیلئے ایک پراعتماد جانشین کی ضرور ت تھیں جو ہر لحاظ سے حضورؑسے مشابہ ہواور وہ ایک ایسا آدمی ہو جو اپنی ذاتی قوت سے کام لیکر دینی اور ملی مفادات کی حفاظت کر سکے اور اُسے اپنے تقویٰ، فضیلت،صداقت اور امور سلطنت سے واقفیت میں سب سے بہتر ہواور وہ کسی قیمت پر خریدا نہ جا سکے اور نہ ہی کسی قسم کی دھمکیوں سے مرعوب ہو سکے مگر آنحضرتﷺ نے امام علیؑ کے علاوہ کسی اور کو اپنی جانشینی کے لائق نہ سمجھااور مدینہ کا دارالحکومت حضرت علیؑ کے سپرد کرکے خود اسلامی سپاہ کے ہمراہ محاذ جنگ طرف روانہ ہو گئے اسطرح امام علیؑ مدینہ میں رہ گئے اور انتظام اپنے ہاتھوں میں لیکر فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے یہ دیکھ کر منافقین سمجھ گئے کہ انکا منصوبہ خاک میں مل گیا ہے کیونکہ وہ علیؑ کی شجاعت،ہوشمندی اور ثابت قدمی سے خوب واقف تھے اور سمجھ گئے کہ امام علیؑ کی مدینہ میں موجودگی کے دوران انکی کوئی سازش کامیاب نہ ہو گی مگر منافقین نے یہ افواہ اُڑا دی کہ آنحضرتﷺ علیؑ سے خفا ہیں اس لئے علیؑ کو اس جنگ میں ساتھ لیکر نہیں گئے اس موقع پر آنحضرت ﷺواشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ(اے علیؑ مدینہ کا انتظام میرے یا تمہارے بغیر نہیں چل سکتاتم میرے اہل وعیال،میر مقام ہجرت مدینہ اور میری قوم کے درمیان میرے جانشین ہو۔۔کیا تم اس بات پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی۔بجز اس امر نبوت کے کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔یہ حدیث منزلت ہے اور شیعہ و سنی محدثین نے اسے نقل کیا ہے لیکن منافقین جو اسلام اور حضورﷺ کے مشن کو نقصان پہنچانے کیلئے ہر وقت متحرک رہتے تھے اُنکے ہاتھ ایک نیا شوشہ آ گیا اور اُنہوں نے یہ افواہ اُڑا دی کہ رسول اکرمﷺ علیؑ سے ناراض ہیں اس لئے اُنہیں۔جنگ تبوک۔اپنے ساتھ نہیں لے جا رہے جب یہ خبر حضرت علیؑ تک پہنچی تو آپؑ نے اس کی شکایت حضورﷺسے کی اسپر رسول اکرمﷺ نے حدیث منزلت بیان کر کے منافقین اور کفار کی تمام تر سازشیں ناکام بنا دیں اور مسلمانوں پر یہ بھی واضیح کر دیا کہ رسول اکرمﷺ کی غیر موجودگی میں علیؑ کے سوا اس منصب کا دوسرا اہل نہیں ہو سکتا اسی طرح جب نصرانیوں سے مباہلہ کرنے کا موقع آیا تو قراآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے خاص حکم کے مطابق رسول خداﷺ پنج تن پاک یعنی مولائے کائنات علیؑ۔جناب فاطمہؑ۔امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے علاوہ کسی اور کومباہلہ کیلئے ساتھ لیکر نہیں گئے پھر خم غدیر کے موقع پرحضورصلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طویل خطبہ اور حدیث۔من کنتُ مولا۔کے بیان سے فضیلت علیؑ نمایاں نظر آتی ہے۔
