
-,-لیمبرگ۔ دریائے لہن کے کنارے آباد عجب کدہ-فوزیہ مغل۔ فرینکفرٹ -,-
کچھ شہر صرف پتھر اور اینٹوں کا مجموعہ نہیں ہوتے وہ وقت کے صفحات پر لکھا ہوا ایک زندہ جاوید عکس ہوتے ہیں ایسے شہر انسان کو حال سے نکال کر ماضی کی آغوش میں لے جاتے ہیں جہاں کی در و دیوار ہر کھڑکی اور ہر گلی ایک کہانی سناتی ہے جرمنی کا قدیم شہر لیمبرگ Limburg بھی انہی شہروں میں سے ایک ہے جہاں تاریخ جمالیات اور روحانیت کا دلکش امتزاج ہےلیمبرگ کی چھوٹی چھوٹی پتھریلی گلیاں لکڑی سے بنی قدیم عمارات اونچے گرجا گھر اور کوچہ بازار ایک ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں جو بیک وقت روح کو تسکین دیتا اور آنکھوں کو جمالیاتی سرشاری سے بھر دیتا ہے یہاں کا کیتھیڈرل اور فش مارکیٹ محض تاریخی مقامات نہیں بلکہ روحانی بلندی اور زمینی حقیقت کا حسین سنگم ہیں گوتھک فن تعمیر کی باریکیاں ان دونوں مقامات کو محض قریب نہیں بلکہ باہم مربوط کرتی ہیں دعا روحانیت فن تجارت روزمرہ کی زندگی اور تاریخ کا تسلسل یہاں ایک ساتھ چلتے ہیں دریائے لہن کے کنارے آباد یہ شہر صدیوں سے تجارتی معاشرتی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے آج بھی لیمبرگ کی فش مارکیٹ میں وہی خوشبوئیں ہیں مچھلی پھل اور ہاتھ سے بنی اشیاء کی لوگوں کی بات چیت کا وہی مانوس لہجہ گلیوں میں لگے چھوٹے چھوٹے اسٹال بالکونیوں سے لٹکتے پودے اور رنگ برنگی کھڑکیاں جیسے وقت کے کسی فریم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ہوں میں فش مارکیٹ کی ایک پرانی دکان کے باہر بچھی کرسیوں میں سے ایک پر سیاحوں اور مقامی لوگوں کے درمیان بیٹھی تھی کہ اچانک یوں محسوس ہوا جیسے میں قرون وسطیٰ کے کسی زندہ شہر میں ہوں اور وقت نے اپنی موجودگی ترک کر دی ہو میرے سامنے پلیٹ میں سجی مقامی فش میری نظر میں کہیں پیچھے رہ گئی اور میری سوچ تاریخ کے ذائقے میں ڈوب گئی لیمبرگ کی اصل خوبصورتی صرف اس کے قدیم منظر میں نہیں بلکہ اس قوم کے رویے میں ہے جو اپنی تاریخ سے نظریں نہیں چراتی نازی دور ہو یا قرون وسطیٰ کی باقیات یہاں کی ہر عمارت کو اگر وہ تاریخی اہمیت رکھتی ہو اس کی اصل حالت میں محفوظ رکھنا قانونی فرض ہے جدید مرمت بھی پرانی تکنیکوں سے کی جاتی ہے وہی لکڑی وہی پتھر وہی ہاتھ کی کاریگری شہری خود نگرانی کرتے ہیں اور اگر کوئی سائن بورڈ یا کھڑکی روایتی اصولوں کے خلاف ہو تو اسے فوری طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے یہ لوگ عمارتوں کو صرف عمارتیں نہیں سمجھتے بلکہ ان کو اپنی پہچان اپنی بنیادیں سمجھتے ہیں فش مارکیٹ کی رونق سے ذرا آگے بڑھی تو ایک بلند و بالا منظر نے مجھے ٹھہرنے پر مجبور کر دیا یہ لیمبرگ ڈوم تھا تیرہویں صدی میں تعمیر ہونے والا گوتھک طرز تعمیر کا شاہکار اس کے نوکدار مینار رنگین شیشے کی محرابیں اور مجسمے صرف ایک چرچ کا حصہ نہیں بلکہ یورپی روحانیت فن اور تاریخ کا مظہر لگ رہے تھے ان شیشوں پر بائبلی مناظر کی بصری داستانیں رقم تھیں اور سورج کی سنہری روشنی ان میں سے چھن کر اندر آ رہی تھی گویا روشنی اور روح ایک ہو جاتے ہوئے محسوس ہو رہے تھےکچھ دیر وہاں رک کر جب باہر نکلی تو ایک لڑکی کو دیکھا جو پل کے قریب دریائے لہن کے کنارے بیٹھ کر اپنی ڈائری میں کچھ لکھ رہی تھی شاید وہ وقت کو قید کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر لیمبرگ کا وقت قید نہیں ہوتا وہ بہتا ہے اس سے چند قدم فاصلے پر چرچ کے قریب ایک چھوٹے اسٹال پر ایک شخص ہاتھ سے لکڑی کی صلیبیں بنانے میں مصروف تھا اس کے پاس آنے والے اکثر بات نہیں کرتے وہ صرف صلیب لیتے ہیں اور خاموشی سے لکھی قیمت اور دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے اس لکڑی میں کسی دعا کی گونج ہوایک دکان کے کاونٹر پر ایک بوڑھی خاتون ہاتھ سے بنائے ہوئے جام کے مرتبان رکھ رہی تھی اس کے قریب سے گزرتے ہوئے لیموں اور شہد کی مسحورکن خوشبو آئی اگلے موڑ پر بازار کے بیچ ایک موسیقار پرانا وائلن بجا رہا تھا اس کی دھن پر فضا میں ہلکی سی اداسی محسوس ہوئی مگر اگلے ہی لمحے نظر اسی پتھریلی گلی میں ایک پرانے کتب فروش کی دکان پر پڑی نظروں کے تعاقب میں قدم بے اختیار اس طرف بڑھ گئے جہاں کتابوں اور کافی کی مہک آپس میں الجھ گئی تھی اس لمحے دل میں یہ خیال آیا کہ بے شک کچھ کتابیں دوستوں کی طرح ہوتی ہیں جنہیں ہمیشہ ساتھ رکھا جانا چاہئے مگر کافی کے بغیر ان کا مزہ ادھورا ہےلیمبرگ عجائب گھر تو نہیں مگر عجائبات سے کم بھی نہیں یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں ماضی صرف محفوظ نہیں بلکہ متحرک بھی ہے جہاں چرچ کی گھنٹی ہو یا دکانداروں کی دالچینی جیسی مسکراہٹ سب کچھ آپ کو ماضی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے روزمرہ کی چہل پہل بچوں کی ہنسی روایتی کیفے کی خوشبو اور مقامی زبان میں کی گئی بات چیت سب کچھ گویا وقت کو روک لیتے ہیں سنہ سترہ سو چھیانوے میں جب نپولین بوناپارٹ جرمن علاقوں میں داخل ہوا تو لیمبرگ بھی اس کی راہ میں آیا تاریخی روایات کے مطابق نپولین نے یہاں مختصر قیام کیا اور شہر کی اہمیت کو تسلیم کیا بعد میں اس کے زیر اثر چرچ کی زمینیں ضبط ہوئیں اور مذہبی قوتوں سے اقتدار چھن کر نئی ریاستی تقسیم کی بنیاد پڑی یہ دور لیمبرگ کی تاریخ میں ایک بڑا موڑ تھا جب شہر قرون وسطیٰ کے مذہبی ڈھانچے سے جدید دنیا کی طرف بڑھالیمبرگ شہر کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ زمین پر نہیں بلکہ تاریخ کے سنہری اوراق پر چل رہے ہوں ہر پتھر ہر سایہ ایک کہانی سناتا ہے اور ہر موڑ پر وقت کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں بس شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ساتھ سفر کرنے کا سلیقہ جذبہ اور دل ہو پھر یہ شہر آپ کو اپنی پرانی یادوں اور رنگین مناظروں میں شامل ہونے کا پورا موقع دیتا ہےڈھلتی شام کے وقت شہر کی روشنیوں میں چھوٹے کیفے اور بازار ایک خاص رونق اختیار کر رہے تھے اور دریائے لہن کے کنارے چلتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہر پتھر ہر عمارت ایک ساز کے سروں پر رقص کر رہی ہو وہاں میں نے سچ معنوں میں محسوس کیا کہ یہاں وقت کا پہیہ دھیرے دھیرے چلتا ہے فرینکفرٹ جیسی بھاگ دوڑ نہیں تھی ہر لمحہ دل میں محفوظ ہو رہا تھا لیمبرگ فرینکفرٹ سے صرف تقریباً ایک گھنٹے بیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے-