۔،۔ٹرمپ ۱۲ نکاتی امن منصوبہ یہودی مکر ہے۔میر افسر امان۔،۔ 0

۔،۔ٹرمپ ۱۲ نکاتی امن منصوبہ یہودی مکر ہے۔میر افسر امان۔،۔

0Shares

۔،۔ٹرمپ ۱۲ نکاتی امن منصوبہ یہودی مکر ہے۔میر افسر امان۔،۔
اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے ناجائز خون بہنے سے ساری دنیا کے انسانیت پسند عوام امریکہ اسرائیل کے مخالف ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت کرنے والی حکومتوں کے عوام بھی اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف ہو گئے۔ ان کے حکومتی کے کنٹرولڈ میڈیا کو بھی سوشل میڈیا نے شکست دے دی۔ حکومتوں کے اندرکسی حد تک آزاد میڈیا نے بھی حکومتی کنٹرولڈ میڈیا کوشکست فاش دے دی۔ سوشل میڈیا نے غزہ میں بچوں عورتوں نہتے عوام کی نسل کشی کے خلاف حق میں اوراسرائیلی مظالم کے خلاف کھل کر آوازیں اُٹھانا شروع کیں۔ حالت یہ ہو گئی کہ الحمد اللہ،جب بھی نیٹ کھولا جاتا ہے کوئی نہ کوئی غزہ کے حق میں بول رہا ہوتا ہے۔ حتہ کہ دنیا کے چوالیس ملکوں کے انصاف پسند لوگ،اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے، سمندر کی بے رحم لہروں اور اسرائیل کے متوقع حملوں کی پروا کیے بغیر غزہ کے مظلوموں کے لیے اکاون کشتیاں لے کر غزہ کو انسانی امداد پہنچانے کے لیے نکل پڑے۔دنیا کا کوئی ملک بھی نہیں بچا، جس کے اندر عوام نے اسرائیل مظالم سفاکیت، وحشت، شقی القلب اور نسل کشی کے خلاف جلوس اور ریلیوں کے ذریعے آوا ز نہ اُٹھائی ہو۔ اس احتجاج میں بچے بوڑھے عورتیں اور معاشرے کے سب لوگوں نے حصہ لیا۔یہ ساری پوزیشن دیکھتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا بیان آیا کہ اسرائیل دنیا میں تنہا ہوتا جا رہاہے۔نیتن یاہو کو فلسطینیوں سے لڑانے والے بنیاد پرست عیسائی ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ اور دنیا میں تنہا ہو گیا ہے۔ٹرمپ کا داماد یہودی ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکی سفیر یہودی ہے۔ امریکا کا وزیر خارجہ متعصب عیسائی ہے۔ ٹرمپ کی صدارتی تقریب حلف برداری کے بعد ماتھے پر صلیب کا نشان لگا کر وہ اس کا اظہار بھی کر چکا ہے۔شاعر اسلام حکیم الاامت علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے ایک شعر میں امریکہ پر یہودی کی گرفت کو اپنے اس شعر میں بیان کر چکے ہیں:۔
تیری دوا نہ جینوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنچہ یہود میں ہے
کیا کیا جائے امریکہ نے مسلمان حکمرانوں کو بھی اپنے پنجہ میں گرفتار کیا ہواہے۔ وہ مسلمان حکمرانوں سے مسلمان عوام پر مظالم کرواتا رہتا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کا جوکام اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو اورامریکا کاصدر ڈونلڈٹرمپ حماس سے جنگ لڑ کر نہ کروا سکا۔اب دونوں مل کر آٹھ مسلمان ملکوں کے کلمہ گو وزیر اعظموں اور صدورکی حمایت سے کروائے گا۔فلسطین اور حماس کی دنیا میں شاندار حمایت کو ختم کرانے کے لیے نیتن اور ٹرمپ نے ایک ۱۲ نکاتی امن منصوبہ جو اصل میں ایک مکر کا جال ہے تیار کیا ہے۔ انہیں معلوم کہ حماس فتح یا شہادت کا مشن لیے ہوئے ہے۔ نیتن اور ٹرمپ اپنے انتہائی جدید اسلحہ کے استعمال کے بعد بھی دو سال گزر گئے اپنے قیدی جنگ سے رہا نہ کروا سکے۔ پہلے رہا ہونے والی یرغمالی بھی ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا ہوئے۔ نیتن پر یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور عوام نے مظاہرے کر کر کے نام میں دم کیا ہوا ہے۔ ساری دنیا کے عوام اور خود اسرائیل اور امریکی کے عوام بھی خلاف ہو گئے ہیں۔ یورپی ملکوں کے حکمرانوں بھی اپنی رعایا کے دباؤ سے حماس کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ اٹلی کی وزیر اعظم نے اسرائیل کی حمایت کی۔ تو اس کے خلاف اس کی عوام اُٹھ کھڑے ہوئے۔اقوام متحدہ میں بھی ایک سو نوے میں سے ایک سوساٹھ نے دو ریاستی حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔ دس ملکوں نے تو فلسطین کو آزاد ریاست کو تسلیم کر کے عمارتوں پر فلسطین کے قومی جھنڈے بھی لہرا دیے۔جس میں بلفور معاہدے کر کے اسرائیل کو فلسطین میں بسانے والا برطانیہ بھی شامل ہے۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب فلسطین کی ریاست دنیا میں کہیں بھی وجود نہیں رکھتی، کہنے والا نیتن یاہو، جب اقوام متحدہ میں تقریرکرنے آیا تو اقوام متحدہ کے پیشتر ممبران نے واک آؤٹ کیا، سب سیٹیں خالی نظر آ رہیں تھیں۔ان ممبران نے احتجاجاً، نیتن کی تقریرنہیں سنی۔امریکہ کے ویٹو کرنے پر اسرائیل ستر سالوں سے اقوام متحدہ کی فلسطین بارے پاس شدہ قراردادوں کے خلاف دریاں کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کسی بھی بین القوامی معاہدے کو نہیں مانتا۔ یہود کی اللہ تعالیٰ سے وعدہ خلافیوں کا قرآن شریف میں کئی جگہوں پر ذکر ہے۔ اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدے کو بھی توڑ کر آج تک مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ روز سو پچاس نہتے شہریوں کو شہید و زخمی کر رہا ہے۔ ستر ہزار شہید دو لاکھ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس میں بچے اور اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ نوے فی صد غزہ تباہ کر چکا ہے۔ٹرمپ نے اب آٹھ اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ امن منصوبے پر میٹنگ کے دوران اکیس نکات پیش کیے۔ جن کو اسلامی ملکوں کے حکمرانوں سے تسلیم کروایا۔جو بعد میں نیتن یاہو اور اپنے یہودی داماد سے ملنے کے بعد ایک نکتہ جس میں دو ریاستی حل مانا گیا تھا نکال دیا۔ نیتن نے بھی اسرائیل میں عمرانی زبان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطین کی ریاست کو نہیں مانتے۔ فلسطینی بھی کہتے ہیں یہ وطن ہمارا ہے۔ فلسطین سے یہودیوں کو نکال کر دم لیں گے۔ وہ یہودیوں سے ستر سالوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل نے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ مگر اپنے وطن فلسطین چھوڑ کرنکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ہزاروں کو اسرائیل نے قید کیا ہوا ہے۔ لاکھوں کو مار مار کے بے وطن کیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے امن منصوبے کو تسلیم کروانے کے لیے حماس کو تین دن کا وقت دیا کہ اس امن منصوبے کو تسلیم کرے۔ اگر نہیں کرتا تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر تم سے لڑے گا۔ اسرائیل بھی وہی کرے جو اس نے کرنا ہے۔اگر دیکھا جائے تو امریکہ پہلے سے اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس سے لڑ رہا ہے۔ جو اسلحہ سابق امریکی صدر نے بند کیا تھا۔ وہ بھی کھول دیا ہے۔ لاکھوں ڈالر کا مہلک اسلحہ اسرائیل کو دیا۔ جو وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ پہلے بھی ایسی ہی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ حماس کا ایک ہی کہنا کہ اسرائیل غزہ سے نکل جائے۔ جنگ بندی کرے۔ ہمارے قیدی چھوڑے۔ تب یہ منصوبہ اُسے منظور ہے۔ ورنہ نہیں۔ قطر سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملک بھی ٹرمپ سے معاہدے کو ریویو کرنے کاکہہ رہے ہیں۔ سعودی نے کہا ہے ہمیں فلسطینیوں کی غزہ سے جبری منتقلی منظور نہیں۔ در ریاستی حل ہمارے ہماری ریڈ لین ہے۔ نیتن ٹرمپ کا یہ مکر بھی فیل ہو گیا ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔ انہیں ہی ملے گا، اسرائیل باہر آکر قابض ہوا ہے۔ اسے قبضہ چھوڑ کر فلسطین سے نکلنا پڑے گا۔یہ انصاف کا تقاضہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں