۔،۔ جرمنی کے شہر بون میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم)کی یاد میں خراج عقیدت کی یادگاری تقریب۔ نذر حسین۔،۔
٭معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے(رائن انڈس گلوبل فورم) کے زیر انتظام ایک خوبصورت محفل کا اہتمام کیا گیا جس کا سہرہ محترمہ کشور مصطفی اور ان کی بیٹی سکینہ سید کو جاتا ہے،جس میں نہ صرف جرمنی بھر سے جبکہ بلجیئم تک سے چاہنے والوں نے بھرپور شرکت کی٭
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/بون۔ معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے(رائن انڈس گلوبل فورم) کے زیر انتظام ایک خوبصورت محفل کا اہتمام کیا گیا جس کا سہرہ محترمہ کشور مصطفی اور ان کی بیٹی سکینہ سید کو جاتا ہے، جرمنی کے دور دراز شہروں۔برلن۔ ہیمبرگ۔ آخن اور فرینکفرٹ سے جبکہ بلجیئم تک سے چاہنے والوں نے بھرپور شرکت کی، محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کا شرف لیکچرر ڈاکٹر شہرور کو جاتا ہے جبکہ جرمن زبان میں ترجمہ ڈپلوم ہولڈر ڈرک ہاسلبش نے کیا،محترمہ کشور مصطفی نے محفل کو رونق بخشنے والی خواتین اور مردوں کا دلی شکریہ ادا کیا،پروفیسر اسلم سید کی زندگی اور کام کے سب سے نمایاں پہلووں کو اجاگر کیا، ثقافتی تبادلے،موسیقی، شاعری اور فن کے ساتھ ان کی فلسفیانہ گفتگو، معاشرے میں امن اور ہم آہنگی، میوزیکل کنٹریبیوشن یہ سب کچھ اور اس سے بھی زیادہ کرنے کا ارادہ رکھنے والے معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم)نے ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھا، پروفیسر ڈاکٹر اسلم سیدتہذیبوں کے اشتراک کی بلند فصیل پر چلتے ہوئے روشن چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ڈرک ہاسلبُش کا کہنا تھا کہ میرا دوست جس کے ساتھ میری لمبی دوستی نہیں تھی لیکن وہ سائنس کی ماں کی حیثیت رکھتا تھا۔انہوں نے اپنے دوست کی یاد میں پییانو پر جو صرف اچھا رب ہے کی موسیقی پیش کی۔ محترمہ ڈاکٹر ہیلگا ولمین کا کہنا تھا کہ میری ملاقات ایک پیدل سفر کے درمیان ہوئی مجھے ان کی ذہانت، گفتگو اور عالمی پس منظر پر بات چیت نے مجھے پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) سے جوڑا، منسلک کیا۔حیدر کا کہنا تھا کہ معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) ایک اونچا قد رکھتے تھے وہ علم و ہنر کی جس نہج پر تھے اس جگہ تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے، بہت خوش اخلاق،تاریخ دان، مورخ، فلسفی اور قرآن پاک جس پر وہ کھلی کتاب تھے۔مسٹر اعوان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے جرمنی کے شہر برلن میں ایک سیمینار پر ملاقات ہوئی،میرے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی مجھے مجبور کر رہی تھی کہ میں ان سے ملوں جب ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ انہوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی یہ میری خوش قسمتی تھی۔ملاقاتو ں سے جان پہچان دوستی میں تبدیل ہوگئی پھر اچانک دوستی بھائی چارہ میں تبدیل ہو گئی، وہ بہت شفیق بھائی تھے۔ڈاکٹر طاہرہ رباب صاحبہ نے کچھ یوں بیان کیا، ڈاکٹر صاحب ایک ناقابل فراموش لیکچرار تھے، ان کی عظمتوں کو تسلیم نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔ ان کو علم تھا کہ کہاں کون سی بات اور کیسے کی جانے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ کومل ملک نے ڈاکٹر اسلم سید پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) سے میری ملاقات دو سال قبل انتہائی مختصر ہوئی۔فرینکفرٹ میں ایک ایونٹ پر تشریف فرما تھے جب مجھے ان سے متعارف کروایا گیا تو وہ کھڑے ہو گئے، انتہائی شفقت اور محبت سے مہربان شخص کو میں نے دیکھا اور میں ایک لمحے میں ان سے بہت متاثر ہوئی،مجھے شوق ہوا کہ یہ علم کا خزانہ ہیں ان سے میں بہت کچھ حاصل کر سکتی ہوں۔موقع نہیں ملا لیکن یہاں آ کر خوشی بھی محسوس ہوئی۔ عشرت معین کا کہنا تھا کہپروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) کے طالب علم پوری دنیا میں ان کا نام روشن کر رہے ہیں،ان کے سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ۔ابدیت کی سرگوشیاں،روشنی ایسی تحریکیں ہیں جہاں عقلیت پسندی سامنے آئی،لیکن دوسری جگہ بھی اس کی جگہ کسی اور چیز نے لے لی،ہمیں عالمی معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیئے۔ایک اور سٹوڈنٹس نے کچھ یوں کہا۔پروفیسر ڈاکٹر اسلم سیدروح اور شکل میں جوان رہا، اس کی آواز مستحکم، اس کے ہاتھ غیر متزلزل، اس کا اعتماد غیر متزلزل رہا، پروفیسر صاحب کی طاقت کا سہرا ان کی عقیدت مند بیوی کشور مصطفی کو جاتا ہے، جنہوں نے اسے آخری دم تک جوان رکھا اور چہرے پر مسکراوہٹیں دیتی رہی۔ان کی پیاری بیٹی سکینہ سید نے اپنے شفیق باپ،استاد اور پروفیسر پر چند باتیں کیں،محترم بلبل چو ڈوسلڈورف سے تشریف لائے تھے نے پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید پر مختصر بات کی پھر ان کے ہاتھوں سے مہوش افتخار کو (رائن انڈس گلوبل فورم) کی طرف سے ایوارڈ دیا گیا۔ مہوش کا کہنا تھا کہ آپ کی مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے محفل میں مدعو کیا نہ صرف یہ جبکہ (رائن انڈس گلوبل فورم) کے اقوارڈ سے بھی نوازا جو میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں ان سے نہ مل پائی۔ اس ایوارڈ نے میری حوصلہ افزائی کی ہے،یہاں میں اپنے ماں باپ کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس مقام تک پہنچنے میں بہت مدد کی۔ پیٹر شائے کوسکی نے بھی پروفیسر صاحب پر بات کی ان کی پسند کا گیت پیانو بجا کر پیش کیا، آخر میں علی شہباز قلندر بھی سنایا۔ اس کے بعد مشاعرہ کا آغاز کیا گیا کیونکہ یہ چیپٹر بھی پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید (مرحوم) میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ شعر و شاعری کے دلدادہ تھے۔کومل راجہ نے نظامت کے فرائض سنبھالتے ہی کچھ تو پروفیسر صاحب کی شخصیت کے بارے میں کہا۔انہوں نے محترمہ طاہرہ رباب کو صدارت کی کرسی پیش کی۔پھر کچھ یوں گویا ہوئیں۔ایک زمانہ تھا جب حضرت انسان دنیا پر اترے تھے۔نہ کوئی تحریر نہ کوئی کتاب،صدا ہی پہلا فن تھا۔شاعری کا بیج۔ جب انسان نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہ دُعا بن گیا۔ جب زمین کی طرف جھکا اور دیکھا تو نغمہ بن گیا، پہلی بار جب لفظ پتھر پر تراشے گئے۔ وہ بھی شاعری ہی ہے۔بابل کی سرزمین پر جس دورویش کی داستان انسان کا پہلا غزمیہ ہے۔شاعری تاریخ بن گئی تاریخ آئینہ بن گئی۔ پھر انہوں نے اپنی پہاڑی زبان میں اپنی شاعری سنائی۔ باجے کی بند کرو تے ڈھولے اتے ہلکی جیئی تھاپ چلاو۔خوبصورت شاعری کے اختتام پر مہمانوں کی پاکستانی کھانے سے تواضع کی گئی۔