-,-پارسی مذہب کے بانی پیشوا: زرتشت(Zoroaster)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی-,-
-,-چھبیس دسمبر یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر-,-
”زرتشت“پارسیوں کے اولین روحانی پیشوااوراس مذہب کے بانی تصورکیے جاتے ہیں۔افغانستان کے ایک مقام”گنج“میں کم و بیش پندرہ سوسے دوہزارسال قبل مسیح پیداہوئے جبکہ زیادہ مستندذرائع سے ان کا دورانیہ حیات 628سے 551قبل مسیح بنتاہے۔ان کے بارے میں مورخین کاخیال ہے کہ وہ شاہی خاندان کے فرد تھے۔آغازشباب سے ہی غوروفکراور مطالعہ میں غرق رہتے تھے اورشاعری کرتے تھے اورشاعری کو پسندبھی کرتے تھے۔تیس سال کی عمرتک تلاش حق میں سرگرداں رہے،پھرایک بارسورج کوڈوبتے دیکھاتوان پر حقیقت آشکارہو گئی اوران سے منسوب مقدس کتب کے مطابق انہوں نے ”اہورمژدا“یا”یزداں“نامی خدا کی پہچان کادعوی کیا۔مقامی لوگوں نے ان کے عقائد تسلیم کرنے سے انکارکردیا جس کے باعث انہیں اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ اس وقت کے مشرقی ایران کے ایک مشہورعلاقہ”خراسان“میں وارد ہوئے جہاں ”کشمار“نامی شہرمیں ”شاہ گستاسپ“وقت کے بادشاہ کے دربارمیں پہنچ کر اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔شاہی خاندان نے ان کے عقائد کوتسلیم کرلیااوریوں ان کا مذہب سرکاری طورپر کل ریاست میں نافذکردیاگیا۔مورخین کے مطابق اس مذہب کاخاورنصف النہار600ق م سے 650بعد مسیح تک ایران کے اندر پوری آب و تاب سے جلوہ افروزرہا۔طلوع اسلام تک یہ مذہب کل عالم اور تاریخ دنیامیں ایران کی پہچان تھا،لیکن فتح ایران کے بعد یہاں کے باسیوں نے ختم نبوت کی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ لے لی۔فی زمانہ زرتشت کے ماننے والے ”پارسی“کہلاتے ہیں جب کہ عربی کتب میں انہیں ”مجوسی“کانام دیاگیاہے۔پارسی یامجوسی کم و بیش معلوم دنیامیں ہرجگہ پائے جاتے ہیں اورآگ کی پرستش کرتے ہیں ان کے گھروں میں آگ جلتی رہتی ہے،انہیں آتش پرست بھی کہاجاتاہے۔ایک اندازے کے مطابق کل عالم میں ان کی تعداد دولاکھ کے اندراندر ہے۔
26دسمبرکی تاریخ زرتشت کے یوم وفات سے منسوب ہے جسے ”خورشید“بھی کہاجاتاہے،اس مذہب کی تقویم تاریخی کے مطابق دسویں مہینے کی گیارہویں تاریخ کو یہ دن بنتاہے جس دن ”بلخ“کے شہرمیں جنگ کے دوران ایک طورانی سپاہی نے ”زرتشت“کاخون کردیاتھا۔ان کے پیروکاراس تاریخ والے دن اپنے روحانی پیشواکویادکرتے ہیں،ان کے اسباق دہرائے جاتے ہیں،ان اسباق پر باہم محفلوں میں بہت تفصیلی گفتگوہوتی ہے اوران کے افکارکی گہرائی جانچنے کی سعی کی جاتی ہے۔اس دن کے موقع پر ماہرین مذہب ”موبد“کی بہت بڑی تعدادموجودہوتی ہے جوخطبے بھی دیتے ہیں اورپھردعائیں بھی مانگی جاتی ہیں۔”موبد“زرتشتیوں کے مذہب کا اعلی ترین مقام ہے،جولوگ اس منصب پرپہنچتے ہیں انہیں طویل دورانیے کی تعلیم وتربیت سے لازماََگزرناپڑتاہے۔یہ منصب صرف مردوں کے لیے مخصوص ہوتاہے تاہم ”نائب موید“کامقام کوئی خاتون بھی حاصل کرسکتی ہے۔”یسنہ“جو مذہب زرتشت میں عبادت کی بجاآوی کوکہتے ہیں،اس عمل کی قیادت بھی ”موبد“ہی کرتے ہیں۔زرتشت کے اس یوم وفات پر آتش کدوں میں جو کہ ان کے ماننے والوں کے لیے معبدکامقام رکھتے ہیں،یہاں کل اہل مذہب موجود ہوتے ہیں اورکوئی بھی غیرحاضر نہیں رہ سکتا۔مذہب زرتشت میں آتش کدے کا بھڑکاؤ تین درجات کاحامل ہوتاہے،آتش بہرام جواعلی درجہ،آتش ادران جومتوسط درجہ اورآتش دارغہ جوادنی درجہ کی آگ ہوتی ہے۔
دسمبرکے اس موقع پرآتش کدہ اعلی درجے کا بھڑک رہاہوتاہے جسے اصطلاح میں ”آتش بہرام“کہتے ہیں۔جہاں اس مذہب کے لوگ زیادہ تعدادمیں ہوں وہاں بڑے پیمانے پریہ دن منایاجاتاہے اسی طرح کم تعدادوالے اپنے گھروں میں یاچھوٹی جگہوں پرہی اس کااہتمام کرلیتے ہیں۔اس دن کو ”برسی“یا ”یوم وفات“یا”یوم سوگ“قطعاََبھی نہیں کہاجاتا،اس طرح کی اصطلاحات کااستعمال اس دن کے لیے سختی سے ممنوع ہے۔یہ دن تعلیمات زرتشت کی یادآوری کاایک ذریعہ اوربہانہ ہے جب سب اہل عقیدہ جمع ہوتے ہیں اوراپنے شعائر کی پوجاکرتے ہیں اور تفہیم مذہب ومراسم عبودیت بجالائے جاتے ہیں۔اس دن کو سوگ نہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زتشت کی وفات کاذکران کی مذہبی کتب میں نہیں ملتااوردیگرمذاہب کی طرح شاید زرتشت کے پیروکاربھی اپنے پیشواکی موت کایقین نہ کرتے ہوں اورانہیں زندہ اورابدی سمجھتے ہوں۔زرتشت سے پہلے ایران میں کسی خاص مذہب کے آثارنہیں ملتے۔مشرق و مغرب سے کچھ ملے جلے اعتقادات و روایات اور اخلاقی فلسفے تھے جن پر قدیم ایرانی عمل پیرارہتے تھے۔زرتشتیت کی صورت سب سے پہلے ایک منضبط اورمربوط نظام فکروعمل اہل ایران کو میسرآیا۔زرتشت سے دوکتب منسوب کی جاتی ہیں،اوستا اوردساتیر،ان دوکے پھردودواجزا ہیں۔اوستاخورد اور اوستاکلاں اوراسی طرح دساتیرخورد اور دساتیر کلاں۔یہ کتب”پہلوی“اور”ژند“زبانوں میں موجود ہیں۔مذہب زرتشت کی کتب میں توحیدخالص بیان ہوئی ہے اور کم و بیش سورۃ اخلاص کاکل مفہوم بلاکم و کاست بھی بیان ہواہے لیکن پھر بھی اس مذہب کو”دوئی“کامذہب کہاجاتاہے کیونکہ اس میں دو آفاقی طاقتوں کی خدائی کابیان ہواہے۔پہلا خدا ”اہورمژدا“ہے اوراس لفظ کامطلب”عقلمندآقا“ہے۔زرتشتیت میں اس کو نیکی کے خداکامقام حاصل ہے،یہ خالق و مالک اور حق و صداقت کی روح ہے اور نیک لوگ اس خداکی فوج ہیں۔دوسراخدا”انگرومینا“یا”اہرمن“ہے جوبدی کاخداہے اوربرے لوگ اس خداکی فوج ہیں۔زرتشتیت کے مطابق دنیامیں جب اہورمژداکی حکومت ہوتی ہے تو نیکی کابول بالا ہو جاتاہے اور جب انگرومینا غالب آجاتاہے تودنیا بدکاریوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ان دونوں خداؤں کے درمیان جنگ جاری ہے اوراس مذہب کے مطابق کامیابی بلآخرنیکی کے خداکوملے گی اور وہ اپنی فوج کوانعامات سے نوازے کا اوربرائی کے سپاہیوں کوسزادے گا۔ پارسی مذہب والوں نے ”اہورمژدا“کوآگ سے منسوب کرلیاہے کیونکہ آگ پاک ہے،گندگی کوجلادیتی ہے اور پاکیزگ کورواج دیتی ہے،اسی لیے وہ آگ کی پوجاکرتے ہیں۔بہرحال اس سب کے باوجود پارسی یا مجوسی خود کو آتش پرست کہلانا پسندنہیں کرتے اوراسی طرح وہ خدائے تثنیث کے بھی خلاف ہیں اوروہ اپنے آپ کو موحد یعنی ایک خداکے عبادت گزارہی کہلاتے ہیں۔زرتشت سے متعددتعلیمات وابسطہ ہیں جو اس مذہب کا جزولاینفک ہیں لیکن ان تعلیمات کی اکثریت خاص مذہبی طبقے کے لیے اہم ہیں۔تاہم صرف تین اہم ترین تعلیمات ایسی ہیں جو مذہب زرتشت کے عام و خواص سب کے لیے یکساں ہیں:
۱۔”ہوماتا“(Humata)یعنی حسن فکریااخلاص نیت،
ب۔”ہوکھاتا“(Hukhta)حسن کلام یا حسن اخلاق،اور
ج۔”ہوراشتہ“ (Hvarashta) یعنی حسن اعمال یااعمال محمودہ۔
اللہ تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام کوزمین پراتاراتو فرمایاکہ ”قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲:۸۳) وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُوْلٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۲:۹۳)“ترجمہ:”ہم نے کہاتم سب یہاں سے اترجاؤپھرجومیری طرف سے کوئی ہدایت تمہاری طرف پہنچے،توجولوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ہوگااورجولوگ اس (ہدایت)کوقبول کرنے سے انکارکریں گے اورہماری آیات کو جھٹلائیں گے،وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے“۔اللہ تعالی نے اپنایہ وعدہ اس طرح پوراکیاکہ قبیلہ بنی آدم میں انبیاء علیھم السلام کاسلسلہ شروع کردیااوران کے توسط سے سامان رشدوہدایت نازل کرنے لگا۔قرآن مجیدمیں صرف ان انبیاء علیھم السلام کاذکرہے جنہیں عرب قبائل جانتے تھے۔باقیوں کے بارے میں اجمالاََایک حدیث میں بتادیاگیاکہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزارنفوس قدسیہ بحیثیت انبیاء مبعوث کیے گئے۔زرتشت کی نبوت کے بارے قطعیت کے ساتھ اس لیے نہیں کہاجاسکتاکہ قرآن و حدیث میں ان کاذکرنہیں ملتا۔بعض علماء اسلام، کچھ اسماء انبیاء کو کھینچ تان کر ”زرتشت“کالبادہ تلفظ یا جامہ معنویت پہنانے کی کوشش توکرتے ہیں تب بھی بہت کم سہی لیکن تشکیک کاعنصربہرحال باقی رہ جاتاہے۔اگرچہ زرتشت کے جملہ احوال جن میں تلاش حق،ہجرت،جہاد،نزول کتاب اورشہادت وغیرہ میں مماثلت انبیاء پائی جاتی ہے پھربھی عدم شہادت نص صریح زرتشت کے ایقان نبوت میں مانع ہوسکتی ہے۔انبیاء علیھم السلام اگردنیامیں تشریف نہ لاتے توجنگل کابادشاہ انسان ہوتا۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ صدیوں پرانے مذاہب جن کی کتب مقدسہ کی زبان بھی نابودہوچکی ہے پھر بھی ان کے ماننے والے کم از کم انسانوں کی طرح عرصہ حیات دنیا توگزارہی لیتے ہیں جب کہ عقل کے پیداکیے ہوئے مذاہب سیکولرازم،لبرل ازم،کیمونزم،سوشل ازم،ایتھیسٹس،فاش ازم،جمہوریت،سرمایادانہ نظام معیشیت اورریشنل ازم کے ماننے والے تو جانوروں سے بھی بدترفکرحیات کے مالک ہیں۔ان عقل نژادمذاہب کے پیروکاروں نے اپنی وحشت،درندگی اور شرپسندی و دہشت گردی میں بھیڑیوں،شیر،چیتوں اور جنگل میں بسنے والے خونی درندوں کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیاہے۔پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش نے ان عقل زادوں کواندھاکرکے انسانی بستیوں میں خون کی ہولی اور کشتوں کے پشتے لگاکرلہو کی ندیاں بہانے کے سوا کوئی کام نہیں سکھایا۔