0

۔،۔ٹھنڈی سیاہ رات۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔ٹھنڈی سیاہ رات۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
دسمبر کا آخری ہفتہ برف کا لباس پوری طرح پہن چکا تھا بوڑھا سورج پہاڑی برفیلے گلیشرز سے خوف زدہ ہو کر دور آسمان پر منہ چھپائے بیٹھا تھا سورج کا منہ چھپانا اور پہاڑوں پر ٹنوں کے حساب سے پڑی برف سے بغل گیر ہو کر آتی برفیلی ہواؤں نے آبادیوں پر بھی برفیلی چادر سی تان دی تھی لگاتار سورج کے غائب ہو نے سے لاہور شہر بھی برفستان میں بدل چکا تھا جوان تو ہمت کر کے گرم کپڑے پہن کر ہوٹلوں کا رخ کرتے جہاں جا کر باربی کیو توا مچھلی بیسن والی مچھلی سے خود کو گرم کرتے جبکہ بوڑھے لوگ کسی بھی قسم کا رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھے وہ گرم اونی کمبلوں میں خود کو لپیٹ کر آگ اگلتے آتش دان ہیٹر کے سامنے خشک میوہ جات اور شہد ملے قہوے سے سردی کا مقابلہ کرنے کی ناکام سی کو شش میں لگے ہوئے تھے کیونکہ میں بھی بڑھاپے کی وادی میں قدم رکھ چکا ہوں اِس لیے رات کو فوری طور پر واک بند کر کے گھرمیں رہنا شروع کر دیاتھا کیونکہ میرا میٹا بولزم اس قدر طاقتور نہیں رہا تھا کہ سرد برفیلی ہواؤں اور ٹھنڈ کا مقابلہ کر سکے آج رات بھی ٹھنڈ اور کُہر نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا عشا کی نماز کے بعد گلی میں دیکھا تو برفیلی دھند میں ڈوبی نظر آئی ہر طرف خاموشی اور پراسرار سناٹے کا راج تھا لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے سردی سے بچاؤ کی کو شش کررہے تھے میں نے چند قدم گلی میں ہی واک کی ناکام کو شش کی لیکن چند قدم چلنے کے بعد ہی سر پر ٹوپی اور گرم مفلر کے باوجود یخ برفیلی ہواؤں نے شدت سے اپنی موجودگی کا احساس بلکہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ اِس ٹھنڈے ٹھار برفیلے موسم میں جب جوانوں میں واک کا حوصلہ نہیں تم نے کیسے جرات کی کہ آکر برفیلے موسم میں واک کرو لہذا مجھے شدت سے ٹھنڈ کی نا گواریت کا احساس ہوا اور میں تیزی سے گھر کی طرف پلٹا اب مجھے شدت سے سٹڈی روم کی گرم نرم و گداز رضائی یاد آرہی تھی جس سے آجکل میری دوستی ہے میں کھانا کھانے اورعشا ء کی نماز کے بعد کمرہ گرم کرنے کے بعد جب آرام دہ بستر پر نرم گرم رضائی میں خود کو ماں جیسی آغوش والی رضائی کے حوالے کرتا ہوں پھر چند منٹوں بعد جسم کی حرارت سے رضائی کے اندر کا ماحول پرسکون زیست آفرین آرام دہ ہو تا ہے تو پہلے تو جسم کی رگوں میں حرارت آمیز احساس رینگنے لگتا ہے پھر جیسے جیسے رضائی گرم ہو تی جاتی ہے میرے جسم کا انگ انگ فرحت انگیز حرارت کے کیف انگیز سرور سے روشناس ہو تا چلا جاتا ہے تو میں اللہ ھو کی ضربوں کے ساتھ مراقبہ شروع کر دیتا ہوں پھر جب رضائی کی حرارت خاص حد تک جاتی ہے تو جسم پر مدہوشی غنودگی سی طاری ہو نا شروع ہو تی ہے اور نیند کی دیوی اپنی آغوش وار کر دیتی ہے اور میں نیند کے خمار میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں دن بھر بے شمار لوگوں سے ملنے کے بعد جسم جس تھکاوٹ کا شکار ہو چکا ہو تا ہے بڑھاپے کی امر بیل ہر گزرتے دن کے ساتھ جسمانی اعضاء اور نظاموں کو شکستہ کر تی جارہی ہے جسم میں موجود چربی توانائی کے ذخائر کمزور پڑتے جا رہے تازہ خون کی سپلائی کم ہو تی جارہی ہے جوانی کب کی رخصت ہو چکی اب تو بڑھاپے کو رکنے کی کوشش میں اور میرے جیسے لوگ اللہ کے خاص فضل و کرم سے حق تعالی نے مجھ سیاہ کار سے جو خدمت خلق کا کام لیا ہے ڈیوٹی لگائی ہے میں اپنی پوری کو شش سے اِس احسن کام کو جاری رکھنے کی کو ششوں میں لگا رہتا ہوں اور یہ سب بھی صرف اور صرف اُس بے نیاز خالق کی عطا اور مرضی ہی ہے ورنہ آپ نیکی کا ایک قدم اور سانس بھی اُس رب کریم کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتے سارا دن لوگوں کی باتیں دھیان سے سننا پھر ان کو اپنی کم عقلی کے مطابق مشورہ ذکر اذکار وظائف بتانے لیکن مشکل کام اُس وقت پیش آتا ہے جب مد مقابل ایسا انسان آجائے ایسا کام لے کر جو ہونے والا ہی نہ ہو مثلا پچاس سال کی عورت کہے کہ میں نے پچیس سال کے جوان لڑکے سے شادی کر نی ہے یا کوئی عورت یہ کہے کہ فلاں بندے سے مجھے شادی کرنی ہے اُس کی پہلی بیوی بھی موجود ہے لیکن میں نے پھر بھی شادی کر نی ہے یا پھر آپ کوئی ایسا عمل کریں کہ وہ پہلی عورت کو چھوڑ کر صرف اور صرف میرا ہو جائے ایسی نیک بیبیوں کو آپ لاکھ سمجھا لیں کہ وہ بد کردار انسان ہے آپ کی طرح اور بہت ساری عورتوں کو بھی ٹائم پاس کے لیے رکھا ہوا ہے وہ باکردار نیک انسان نہیں ہے آپ خدا کے لیے اُس کا خیال دل سے نکال دیں تو وہ نہایت معصومیت سے کہتی ہیں اُس کی بد کرداری کا مجھے خوب احساس ہے تو سر آپ کس مرض کی دعا ہیں کوئی ایسا وظیفہ عمل چلا کریں کہ وہ صرف اور صرف میرا ہو جائے ایسے کیسوں میں آپ جتنا مرضی سمجھا لیں لیکن اِن کی سوئی ایسی اٹکی ہوتی ہے کہ مجھے میرا محبوب چاہیے یا کوئی ساس آکر جب یہ کہتی ہے کہ پروفیسر صاحب میری بہو دنیا کی سب سے بڑی جادوگرنی ہے ظالم بد کردار ہے اُس جیسی خراب عورت زمانے میں نہیں آپ بس اُس کو طلاق کردیں وہ ہمارے گھر سے چلی جائے تومیں پوچھتا ہوں اُس کے بچے ہیں تو کہتی ہیں ہاں بچے ہیں لیکن میں ان کو خود پال لوں گی آپ بس طلاق کرا دیں میرا اگلا سوال یہ ہوتا ہے آپ یہ بتائیں آپ اپنے بیٹے سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ کہتیں ہیں وہ تو رن مرید ہے وہ کبھی بھی طلاق نہیں دے گا بس آپ طلاق کروادیں میں آپ کی ہر بات مانو گی آپ کو راضی کر دوں گی اور جب میں صاف انکار کر تا ہوں کہ باجی میں طلاق والے کاموں میں نہیں آتا اور نہ ہی میں طلاق کرواوں گا جب اُس کا میاں آپ کا بیٹا خوش ہے تو آپ طلاق کیوں کروانا چاہتی ہیں تو ساس صاحبہ بہو کی بد کرداری پر اُتر آتی ہیں میرے انکار کرنے پر وہ کسی دوسرے بابے کی جیب نوٹوں سے بھر رہی ہوتی ہیں ایسے لوگوں سے مل کر الجھن اور بے زارگی سی آجاتی ہے اور تھکاوٹ بھی یعنی ایسے لوگوں کو برداشت کر نے سے جسم تھکاوٹ سے چکنا چور ہو جاتا ہے اور پھر رات کو آرام مانگتا ہے اسی آرام سے میں تیزی سے اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا دروازے پر پہنچا تو دو سائے میرا انتظار کر رہے تھے قریب پہنچا تو دو عورتیں سیاہ برقعوں میں ملبوس میرا انتظار کر رہی تھیں سیاہ ٹھنڈی رات وہ دونوں میرے دروازے پر کھڑی تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں