0

۔،۔بہادر بیٹی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔بہادر بیٹی۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
معصوم یتیم مریم بیٹی اپنی بیوہ ماں کے ساتھ مٹھائی لے کر میرے پاس آئی تھی دونوں ماں بیٹیاں پچھلے چھ ماہ سے لگاتار میرے پاس آرہی تھیں۔مریم دو سال کی تھی جب باپ انتقال کر گیا۔ مریم کی ماں جوان تھی گھر والوں نے ایک سال بعد کسی سے شادی کروا دی جو عیاش نکلا چند ماہ بعد ہی مریم کی ماں کو طلاق دے کر بھاگ گیا اِس تلخ تجربے کے بعد مریم کی ماں نے دوبارہ شادی سے تو بہ کر لی۔پڑھی لکھی تھی سکول میں نوکری کر لی ‘گھر میں کپڑوں کی سلائی کا کام شروع کر دیا اِس طرح بھاری بھر کم زندگی کی گاڑی کو کمزور جسم سے چلانے کی نہ ختم ہونے والی ڈرل کو شروع کر دیا۔قافلہ شب و روز اپنی رفتار سے چلتا رہا یہاں تک کہ مریم نے جوانی کے آنگن میں قدم رکھا تو بیوہ ماں کو شدت سے مریم کی شادی کا احساس جاگا تو خاندان میں اِدھر ادھر دیکھا تاکہ مریم کے فرض سے نجات پا سکے لیکن کیونکہ مریم کی ماں کرائے کے مکان میں رہتی تھی اِس لیے کسی نے بھی مریم کے رشتے میں دل چسپی کا اظہار نہ کیا۔ماں پوری کو شش کر رہی تھی کسی طرح سے مریم کی شادی ہو جائے لیکن مریم کا یتیم ہونا غریب ہونا اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا جب خاندان والوں نے ہاتھ نہ پکڑا تو ماں نے رشتہ کرانے والیوں سے رابطہ کیا اب رشتہ کرانے والوں کی لوٹ مار شروع ہو گئی جب ماں بیچاری یہاں پر بھی ناکام ہو ئی تو رشتے میں بندش کا علاج کروانے کے لیے بابوں مزاروں بنگالی جادوگروں کے پاس جا کر ماتھا رگڑنا شروع کر دیا یہاں بھی نہ ختم ہونے والی دوڑ تھی جو دونوں ماں بیٹیاں دوڑ رہی تھیں اِس بھاگ دوڑ میں دونوں ایک شیطانی قوتوں کے حامل بنگالی جادوگر کے ہتھے چڑھ گئیں بنگالی نے پہلے تو دونوں کو خوب ڈرایا دھمکایا کہ مریم پر خطرناک آسیبی جناتی قوتوں کا قبضہ ہے جو اِس کی شادی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اِن کا علاج کر ناہوگا دونوں مجبور تھیں اس ظالم کی باتوں میں آگئیں کہ واقعی اِیسی بات نہ ہو تو اب اس ظالم نے مختلف بہانوں سے اِن کے چکر لگوانے شروع کر دئیے ہر بار نئی کہانی نیا ڈرامہ بار بار بلاتا کہ میں تو توڑ کر رہا ہوں لیکن جنات کی تعدا د لاکھوں میں ہے جیسے علاج کر تا ہوں اِن جنات کو ختم کر تا ہوں وہ اور آجاتے ہیں اب دونوں ماں بیٹیاں سکول میں مزدوری کر کے کماتی تھیں اس کو عامل نے لوٹنا شروع کر دیا اب عامل نے نیا تقاضہ کیا میں بہت کو شش کر رہا ہوں لیکن جنات قابو نہیں آرہے اِس لیے اب مجھے آپ دونوں کے گھر میں رات گزار کر اِن کا توڑ کر نا ہو گا اب یہ دونوں ماں بیٹیاں پریشان کہ کیا کریں لیکن پھر علاج اور بندش کا علاج کرانے کے لیے اس ظالم کو گھربلایا اب گھر میں مختلف قسم کے پانی اور عرقیات کے چھڑکاؤ کرنا شرو ع کر دئیے پھر مختلف جڑی بوٹیوں کو بخورات کی شکل میں جلانا شروع کر دیا پھر عجیب مطالبہ کیا کہ کیونکہ جنات سے مقابلہ کر نا ہے اِس لیے اب مریم کو میرے سامنے بیٹھا کر ماں دوسرے کمرے میں چلی جائے تاکہ ماں کو کوئی نقصان نہ ہو پہلے تو ماں پریشان ہوئی لیکن پھر علاج سمجھ کر بات مان گئی اب عامل صاحب نے مریم پر مختلف قسم کے عملیات پڑھ کر دم کرنا شروع کردئیے یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن جب دم کے بہانے عامل صاحب نے مریم کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کی کو شش کی تو مریم بیٹی بہت پریشان ہوئی اٹھ کر بھاگ کر دوسرے کمرے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی تو عامل بہت ناراض کہ میرا عمل خراب ہو گیا اب آپ لوگ خود ذمہ دار ہو گے مریم تعاون کرے گی تو علاج ہو گا ماں نے دبے لفظوں میں مریم کو سمجھایا کہ تم کو غلط فہمی ہو ئی ہے باباجی دم کر رہے ہیں تو مریم نے انکار کر دیا کہ میں اچھی طرح جان گئی ہوں یہ علاج نہیں بلکہ جنسی ہوس ہے جو یہ کرنا چاہتے ہیں مجھے علاج کی ضرور ت نہیں ہے میں ساری عمر شادی کے بغیر گزار دوں گی لیکن اِس طرح کا عمل یا علاج نہیں کراؤں گی اب جب عامل نے دیکھا کہ لڑکی تعاون نہیں کر رہی شکاری جال میں نہیں آئی تو اس نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر تم نے علاج نہ کرایا تو یہ جناتی چیزیں تمہاری زندگی حرام کر دیں گی تمہاری شادی کبھی نہیں ہو گی تم آرام سے آؤ اپنا علاج کراؤ لیکن مریم عامل کی آنکھوں میں جنسی شکاری چمک دیکھ چکی تھی اس کی چھیڑ خانی کو پہچان چکی تھی ماں اور عامل نے بہت زور لگایا لیکن عزم و ہمت کی پیکر مریم نے انکار کر دیا پھر عامل صاحب بہت ساری دھمکیاں دے کر چلا گیا وہ جنسی شکاری روحانی لٹیرا تو اپنی جنسی ہوس پوری کرنے آیا تھا لیکن فائیٹر مریم نے اس کے خواب چکنا چور کر دئیے اِس المناک حادثے کے بعد مریم نے روحانی علاج سے توبہ کر لی ماں بیچاری کو شش کرتی رہی اِس دوران عامل صاحب کے فون بھی آئے کہ اگر مریم نے علاج نہ کرایا تو برباد ہو جائے گی بوڑھی ہو جائے گی لیکن مریم نے ہمت کی عامل کو صاف جواب دے دیا کہ میں نے اب علاج کراونا ہی نہیں پھر مریم کی ماں جب بھی کہتی کسی بابے کا ذکر کر تی تو مریم انکار کر دیتی’ ماں تو ماں ہے وہ بیچاری ہاتھ پاؤں مارتی رہی اِسی دوران کسی نے میرے بارے میں بتا یا میری تعریفیں کیں تو ماں نے مریم سے میرا ذکر کیا تو مریم نے پھر انکار کر دیا لیکن جب ماں نے بار بار اصرار کیا تو میرے پاس مجھے چیک کر انے آئی دو تین ملاقاتوں میں اِدھر ادھر کی باتیں کرتی اور آکر بہت دیر میرا مشاہدہ کرتی کچھ لوگوں سے میرے بارے میں معلومات حاصل کیں جب اچھی طرح دیکھ لیا تو ایک دن اپنی زندگی کی داستان اور جنسی فراڈی عامل کے بارے میں بتایا تو میں نے مریم بیٹی کی تعریف کی کہ تم فائیٹر ہو آپ جیسی بیٹی ہو نی چاہیے اب مریم نے ماں کے ساتھ میرے پاس آنا شروع کر دیا چند ملاقاتوں کے بعد ہی مریم کی عاملوں بابوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں تھیں وہ دورہو گئیں وہ جب بھی آتی تو میں کہتا میری فائیٹر بیٹی آئی وہ خوش ہو جاتی آج جب مٹھائی لے کر آئی تو بولی سر میری منگنی ہو گئی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی ہے ماں بولی بہت اچھے خدا ترس لوگ ملے ہیں جن کو ہماری غریب مریم کے یتیم ہو نے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ جہیز نہیں لے رہے بارات بھی نہیں چند لوگوں کے ساتھ آکر مریم کو لے جائیں گے شادی کا جوڑا بھی انہوں نے بنایا ہے ہم سے ایک سوئی بھی نہیں لے رہے مریم کی آنکھیں آنے والے دنوں سے روشن تھیں مریم بہت ساری دعائیں دے کر اور مجھ فقیر سے دعا لے کر جب رخصت ہو نے لگی تو میں نے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور بولا مریم کاش وطن عزیز کی بیٹیاں بھی تمہاری طرح بہادر ہو جائیں تاکہ بنگالی جادوگروں کی لوٹ مار ختم ہو سکے جو آنے والے دنوں کے خوف سے آزاد لوگوں کی دولت اور عزتوں سے کھیلتے ہیں کہ جب اِن عاملوں کی بیٹیاں کسی عامل کے سامنے بیٹھی ہونگیں اور جنسی شکاری عامل اِن کو ہوس کی نظروں سے دیکھ رہے ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں