0

۔،۔ اسپتال یا ذبح خانے۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔ اسپتال یا ذبح خانے۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

لاہور شہر کا جدید ترین مشینوں سے لیس مہنگا ترین پرائیویٹ ہسپتال پاکستان پھر سے مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے اُبل رہا تھا بیچارے لواحقین لاکھوں روپے ہاتھ میں پکڑے اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں اور عملے کی منتیں ترلے کر رہے تھے ہر شعبے میں مریضوں اور لواحقین کی قطاروں سے لگ رہا تھا جیسے یہاں پر مریضوں نے اِس جدید ترین ہسپتال پر یلغار سی کر دی تھی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹروں کی فوج اور ہسپتال کے مالک مہذب جلادوں کا روپ دھارے خوفناک لوٹ مار میں بے نیازی سے گم تھے یہ شفا خانے کی بجائے مہذب ذبح خانہ تھا جہاں پر انسان کی چیڑ پھاڑ کے ساتھ ان کی تجوریوں کو بھی خالی کیا جارہا تھا مختلف بیماریوں میں مبتلا مریض بے ہوشی نیم بے ہوشی میں یا آہ بکاہ کر تے اِدھر ادھر دوڑتے دیکھ کر میری حساس طبیعت مضطرب سی ہو گئی میں یہاں کسی دوست کے والد صاحب کو دیکھنے آیا تھا جن کا کامیاب آپریشن ہو گیا تھا میں ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر تھا مریض سے ملاقات کے بعد اب میں جلد سے جلد اِس ذبح خانے سے بھاگنے کے چکر میں لفٹ کے باہر انتظار میں تھا کہ کب لفٹ آئے اور میں باہر جا کر کھلے آسمان کے نیچے لمبے لمبے سانس لے کر پھیپھڑوں کو تازہ ہوا سے بھر سکوں میں انتظار میں تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی پچاس سالہ عورت نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور پر جوش آواز میں بولی بھٹی صاحب آپ یہاں کس سے ملنے آئے ہیں آپ کو دیکھ کر مل کر بہت اچھا لگا میں نے نو وارد عورت کی طرف دیکھا تو آشنائی کی چمک میری آنکھوں میں آگئی اور میں بولا جی گوشی باجی آپ یہاں کس کے ساتھ یا ملنے آئی ہیں تو گوشی باجی پریشان سی ہو کر بولی آپ پلیز دو منٹ میری بات سن لیں اور مریضہ سے مل بھی لیں آپ کو مریضہ کو دیکھ کر اُن کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہونگے لیکن کیونکہ آپ ہمیشہ سے ہی مہربان رہے ہیں اِس لیے آج بھی شفقت فرمائیں گے پھر گوشی باجی مجھے لے کر سائیڈ پر آگئیں اور بولیں آپ ہماری میڈم ”رومی باجی“ کو تو جانتے ہی ہیں وہ بہت بیمار بلکہ ڈاکٹروں نے اُن کو جواب دے دیا ہے لیکن گھر والے ان کی سانسیں لمبی کر نے کے لیے اِس مہنگے ہسپتال میں اپنی دولت لٹارہے ہیں گوشی کی یہ بات سن کر میں بھی بولا بلکل اِس ہسپتال میں کوئی سفید پوش آنا تو دور کی بات اِس کے سامنے سے گزر بھی نہیں سکتا یہ دولت مندوں کا ہسپتال ہے جس طرح دولت مند لوگ اپنی دولت کی تشہیر کرنے کے لیے مہنگے ہوٹلوں میں جا کر کھانا کھاتے ہیں مہنگے برانڈ کے کپڑے اور شاپنگ کر تے ہیں یہاں تک کہ ناک اونچی رکھنے کے لیے اپنے نالائق بچوں کو شہر کے مہنگے ترین سکولوں میں داخل کروا کر نجی محفلوں میں بڑھکیں مارتے ہیں تاکہ سٹیٹس اونچا اور مقابلہ ہو سکے اِ س ہسپتال میں آنا علاج کرا نا پھر مریضوں کے مرنے کے بعد فاتحہ خوانی قل شریف پر بیٹھ کر کہتا کہ ہم نے اِس ہسپتال سے علاج کروایا ہے اتنے دن علاج جاری رہا لیکن مریض بچ نہ پایا لیکن ہم نے سب سے مہنگے ہسپتال سے علاج کروایا کروڑ پتی لوگ اِس ہسپتال سے علاج کروائیں تو بات عقل میں آتی ہے حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب سفید پوش لوگ اپنے زیورات جائیدادیں فروخت کر کے اِس ذبح خانے میں اپنی دولت کو پھونکتے ہیں ایسے ہسپتال سے جو لوگ علاج کرواتے ہیں یہ پھر زندگی کے باقی معاملات میں بھی اپنی تشہیر کر تے ہیں اگر کسی غریب کو پوچھنے جائیں تو اِن سے پوچھتے ہیں کس ہسپتال ڈاکٹر سے علاج کروایا ہے اگر اُس بیچارے نے کسی گورنمنٹ کے ہسپتال یا خیراتی ہسپتال سے علاج کروایا ہو تو اُس کو شرمندہ کر تے ہیں کہ یہ غلطی کیوں کی آپ نے زندگی سے بڑھ کر قیمتی تو کوئی چیز نہیں ہوتی آپ مہنگے پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کروانا چاہیے تھا آپ لوگ اپنے مریضوں سے محبت ہی نہیں کرتے جو اُن کو گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں لے جاتے ہیں آئندہ جب بھی کوئی بیمار ہو تو فلاں پرائیویٹ ہسپتال میں لے کر جائیں وہاں پر علاج اور بہت خیال رکھا جاتا ہے مشورہ دینے والے اس طرح آرام سے مشورہ دیتے ہیں جیسے ہسپتال کے اخراجات بھی یہ ہی ادا کریں گے لیکن انا خودی ناک اونچی سٹیٹس کا مقابلہ کرنے کے لیے سارا معاشرہ ہی مصنوعی رنگ میں رنگا ہوا ہے مقابلے کی دوڑ ہے جس میں اندھا دھند دوڑے چلے جارہے ہیں ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی حقیقت کیا ہے یہ جاننے کی کوئی کو شش ہی نہیں کرتا میں جس ہسپتال میں گوشی باجی کے ساتھ کھڑا تھا یہاں پر بھی اِسی قبیلے کے لو گ آئے ہوئے تھے یہاں پر اپنا مریض داخل کروا کر پھر پورے خاندان میں اشتہار چلاتے ہیں کہ ہمارا فلاں مریض فلاں ہسپتال میں داخل ہے اِس لیے آپ بیمار پرسی کے لیے آجائیں اور حیران کن بات یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسے ہسپتالوں میں لوگ پوچھنے بھی زیادہ جاتے ہیں یہی مریض اگر کسی گورنمنٹ کے ہسپتال میں داخل ہو تو ادھر کا رُخ بھی نہیں کرتے کہ وہاں بیماریوں والے جراثیم بہت ہوتے ہیں صفائی کا انتظام اچھا نہیں ہو تا ایسے ہسپتالوں میں جانا سٹیٹس سمجھتے ہیں میرے چاروں طرف ایسے ہی ذہنی مریض بکھرے پڑے تھے جو موت اور بیماری کے وقت بھی سٹیٹس کو میں پھنسے نظر آتے ہیں مجھے گوشی باجی مریضہ رومی باجی کے مہنگے ترین پرائیویٹ کمرے کے باہر لے آئی میں جلدی جلدی رومی باجی کو دیکھنا اور ہسپتال سے دوڑنا چاہتا تھا لیکن کمرے کے باہر آکر پتہ چلا ڈاکٹر صاحب اندر مریضہ کا چیک اپ کر رہے ہیں لواحقین کا تعلق کیونکہ امیر طبقے سے تھا اِس لیے یہاں پر بھی انہوں نے اپنی دولت خوب اِس طرح بہانی تھی کہ مہنگے ڈاکٹروں کو وزٹ پر بلا کر اپنے رشتہ داروں کو بتاتے کہ صبح دوپہر شام یا گھنٹے گھنٹے بعد سپیشل ڈاکٹر صاحب کا وزٹ ہے جو مریضہ کی جلد صحت یابی کی کوششوں میں لگے ہیں اِس طرح وہ آنے والوں کو یہاں بھی اپنی خاص کیئرکا بتاتے کہ ہم خاص اشرافیہ سے ہیں اِس لیے یہاں بھی ہم خاص لوگ مہنگے ڈاکٹروں کو وزٹ کرواسکتے ہیں آنے والے تحسین آمیز نظروں سے لواحقین کو دیکھتے کہ آپ کیا خاص با کمال لوگ ہیں جو اتنے مہنگے ہسپتال میں مہنگے ترین ڈاکٹروں کو بلا کر مریضہ کی صحت یابی کی کو شش کررہے ہیں جلاد ڈاکٹر بھی ایسے امیر زادوں سے خوب کھیلتے ہیں ٹیسٹوں پر ٹیسٹ کی بھر مار تاکہ اپنی پر فارمنس دکھا سکیں لواحقین دواؤں اور ٹیسٹوں کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں اِن ڈاکٹروں کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ مریض میڈیکلی مر چکا ہے اِس کی وینٹی لیٹر کے ذریعے صرف سانس چل رہی ہے جیسے ہی وینٹی لیٹر اتاریں گے سانسوں کی ڈوری کٹ جائے گی لیکن یہ خدا سے نہیں ڈرتے لوٹ مار کے سلسلے کو طویل سے طویل کر تے چلے جاتے ہیں جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کا وزٹ مکمل ہوا تو میں گوشی باجی کے ساتھ رومی باجی کے کمرے میں داخل ہوا اندر کے ہولناک کراہت آمیز منظر کے لیے میں بلکل بھی تیار نہیں تھا بیڈ پر ہڈیوں کا ڈھانچہ پڑا تھا جس پر کالی سیاہ جلد لپٹی ہوئی تھی مریضہ بے ہوش تھی وینٹی لیٹر کی مشین چل رہی تھی رومی باجی کی یہ حالت دیکھ کر مجھے پچیس سال پہلے والی رنگ و نور شراب اور رومی کے اشعار میں لپٹی خوبرو جوان رومی باجی یاد آگئی جو زندگی کے رنگوں سے بھری ہوئی تھی۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں