0

۔،۔بے بس پیر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔بے بس پیر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میرے چاروں طرف سونا چاندی ہیرے موتی قیمتی نایاب جواہرات اور قیمتی پتھروں کے ڈھیروں کے ساتھ دنیا جہاں کے نوٹوں کی پیٹیاں پڑی تھیں پاکستانی کرنسی کے ساتھ ڈالر پونڈریال درہم کے ساتھ بانڈوں کے ڈھیر کسی بھی گندم کھانے والے انسان کو بے ہوش کر نے کے لیے کافی تھے بلاشبہ میں زندگی میں پہلی بار اتنی زیادہ دولت قیمتی سونے کے زیورات اورجواہرات دیکھ رہا تھا انسان جب بھی کوئی حیران کن منظر دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اُس کی بصارت اتنی زیادہ مقدار میں دولت کے انبار دیکھنے کی عادی نہیں ہوتی تزکیہ نفس کے کڑے مراحل سے گزرنے کے بعد میرے لیے یہ دولت کے انبار اب کشش نہیں رکھتے تھے لیکن کسی انسان کے پاس اِس قدر خزانہ موجود ہوا ور وہ بے بسی کی تصویر بنا التجا یہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا ہو یہ حیرا ن کن تھا دولت کے ڈھیر وں کے ساتھ دنیا بھر کے مقدس مقامات کے تبرکات ریشمی کپڑوں کے تھان قیمتی انگوٹھیاں وہ قیمتی پتھروں کی ایک ایک تسبیح اٹھا کر اُن پر تبصرہ بھی فرما رہے تھے پھر قیمتی نایاب تبرکات کے بارے میں یہ فلاں مقدس جگہ کا غلاف ہے یہ جھاڑوہے پھر عطریات کی شیشیاں کھول کھول کر دکھانے لگے ایسے قیمتی عطر کے جن کا ایک ایک قطرہ انتہائی مہنگا اور عام لوگوں کو دستیاب نہیں کمرہ کیا ہال دنیا بھر کے خزانوں نوٹوں قیمتی نوادرات اورمقدس غلافوں سے بھرا پڑا تھا یہ ایسا منظر تھا جو کسی بھی نارمل بندے کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا جبکہ میرا یہاں آنے کا مقصد یہ خزانے نوٹ اور قیمتی نوادرات نہیں تھا میں تو یہاں کسی اورمقصد کے لیے آیا تھا جبکہ سجادہ نشین صاحب نے مجھے شاید متاثر کر نے کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے اِسی دوران پیر صاحب نے انکشاف کیا کہ آپ میرے ذاتی خاندان کے علاوہ پہلے اور آخری شخص ہیں جن کو یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ وہ اپنی نظروں کو ان قیمتی نوادرات اور مقدس غلافوں کو دیکھنے اور چھونے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں پھر پیر صاحب نے ایک چوغہ (لباس) اٹھا یا اور کہ اِس کو آپ تھوڑی دیر پہن لیں یہ تاریخ کے فلاں عظیم بزرگ کا ذاتی خر قہ لباس ہے جو عرصہ دراز تک اُن کے جسم اطہر کی زینت اور استعمال میں رہا پیر صاحب مجھے ذبح کر نے پر تلے ہو ئے تھے لیکن میرا دماغ کسی اور ہی نقطے پر پھنسا ہوا تھا کہ میں یہاں روحانی فیض درشن کے لیے آیا تھا تو پیر صاحب یہ دنیاوی ما ل و دولت مجھے کیوں دکھا رہے ہیں میں فطری شائستگی کے تحت اُن کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا جبکہ مجھے اِس نظارے یا چیزوں کی ضرورت اور نہ ہی کوئی کشش تھی پیر صاحب کی خوشی کے لیے میں مصنوعی دل چسپی کا اظہا رکر رہا تھا ساتھ ہی پیر صاحب کے مقدر پر بھی غور کر رہا تھا کہ کس طرح یہ دنیابھر کے مریدوں سے ایسی قیمتی چیزیں لوٹتے غریبوں کے چولہے نہیں جلتے اور یہ قیمتی ریشمی پو شاکیں پہن کر دنیا بھر کے نایاب قیمتی پھلوں خزانوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں اِس کمرے میں لانے سے پہلے پیر صاحب مجھے کھانے کی میز پر بھی متاثر کرنے کی ناکام کو شش کر چکے تھے دنیا جہاں کے اشتہا انگیز کھانوں شکاری پرندوں اور ہرنوں کا گوشت بہترین فروٹ اور خشک میوہ جات اور زعفرانی قہوے کے ساتھ وہ میزبانی کر چکے تھے میں پیر صاحب کے ذوق کی داد بھی دے رہا تھا دل و دماغ میں بار بار یہ سوال بھی انگڑائیاں لے رہا تھا کہ آخر پیر صاحب یہ سب کچھ مجھے کیوں دکھایا متاثر کر رہے ہیں یا مجھ میں ایسی کونسی خاص بات ہے کہ وہ اپنا ذاتی خزانہ مجھ فقیر کو دکھا رہے تھے میں تو روحانیت تصوف فقر عشق الہی پر بات کرنے آیا تھا بزرگوں کے اقوال سے روح کو تازہ کر نے آیا تھا بزرگوں کی کرامات سے لطف اٹھانے آیا تھا جبکہ وہ روحانیت تصوف کی بجائے دنیاوی خزانوں کو دکھا اور ان کی تعریفیں کر رہے تھے چند ماہ سے پیر صاحب کا مرید خاص میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میرے پیر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں پہلے تو میں ٹالتا رہا پھر اِس خیال سے کہ پیر صاحب کا خاندان صدیوں سے متلاشیان حق کی روحانی پیاس بجھا رہا ہے تو ان کے پاس جانا چاہیے مرید صاحب بے اولاد تھے عرصہ دراز سے پیر صاحب کے دامن سے لپٹے ہو ئے تھے پھر کسی نے میرا بتایا بیوی اٹھرا کے مرض کی مریض تھی میں نے حکیمی اور روحانی علاج کیا اللہ تعالی نے شفا دی اور مرید صاحب کو اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا تو مرید بیٹے کو لے کر اپنے مرشد کے قدموں میں بیٹھ گیا اور عرض کی مرشد پاک میرے بیٹے کا نام آپ رکھیں تو مرشد نے پوچھا کہاں سے علاج کروایا ہے تو مرید نے میرا نام لے دیا یہاں سے مرشد پاک کا تجسس اور ملنے کا شوق پیدا ہوا اِس کے بعد مرید جب بھی مرشد صاحب کے پاس جاتا تو مرشد ایک ہی تقاضہ کر تے کی پروفیسر صاحب کو ہمارے پاس لے کر آؤ تو مرید نے مجھ سے تقاضہ شروع کر دیا کہ آپ کو میرے مرشد صاحب یاد اور طلب فرما رہے ہیں میں فقیر سیاہ کار اپنے کاموں میں مصروف ٹالتا رہا لیکن جب مرید نے بہت تقاضہ کیا تو اِس خیال سے کہ مرشد صاحب سے روحا نیت تصوف پر بات ہو گی اِس بہانے مرشد کے بزرگوں کی قبروں کی زیارت بھی ہو جائے گی لہذا آج میں مرشد صاحب کے پاس تھا مرشد جی نے پہلے تو شاندار کھانا کھلایا پھر اپنے خزانوں کے کمرے میں لے آئے اور یہ خزانوں کی اشتہار بازی شروع کر دی جب مرشد نے سب کچھ دکھا دیا تو میں بولا جناب مجھے طلب کرنے کی وجہ آپ نے نہیں بتائی تو مرشد بولے پروفیسر صاحب آپ کو یہاں جو بھی چیز پسند ہے آپ اٹھا لیں لیکن میر اایک کام کر دیں تو میں بولا جناب کام تو اللہ تعالی کر تا ہے میرا کام تو دعا کرنا ہے میں کردوں گا بتائیں کام کیا ہے تو وہ بولے میں بے اولاد ہوں میرے دو بڑے بھائی انتقال کر گئے ان کو بھی اولاد نہیں ہے میں اِس روحانی گدی کا آخری چشم و چراغ ہوں میرے بعد اِس گدی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تو میں بولا اولاد نہ ہو نے کی وجہ تو وہ بولے میں بانجھ ہوں میرے اندر اولاد پیدا کرنے والے جراثیم نہیں ہیں میں نے چار شادیاں کیں لیکن اولاد نہیں ہوئی تو میں نے پوچھا آپ سے کونسی غلطی گناہ ہوا ہے تو بولے میں مرید عورتوں کو لونڈیا ں بنا کر زنا کر تا رہا جس کی سزا یہ کے اب میں بانجھ ہو کر ستر سال کا بوڑھا ہو گیا ہوں اب جسمانی تعلق کے قابل بھی نہیں ہوں پیر دیر تک مجھے لالچ دیتے رہے اور میں سوچ رہا تھا خدا کی لاٹھی دیر سے حرکت میں آتی ہے لیکن آتی ضرور ہے اب پیر صاحب کا صدیوں کا خزانہ مرید اور غیر کھائیں گے میں بے بس پیر کی سزا اور مقدر پر حیران واپس چلا آیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں