
۔،۔جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں کتابی میلہ۔بُک فیئر۔جہاں کتاب زندہ ہے وہاں فکر بھی زندہ ہے۔ فوزیہ مغل۔،۔
فرینکفرٹ کتاب میلہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم ترین بین الاقوامی کتابی میلہ ہے یہ ہر سال اکتوبر میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں منعقد ہوتا ہے یہ محض ایک تجارتی یا ادبی تقریب نہیں بلکہ علم و تہذیب کا عالمی جشن ہے یہ میلہ اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ کتاب رابطے علم اور امن کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے دنیا بھر سے مصنفین ناشرین مترجمین محققین صحافی اور قارئین اس میں شریک ہوتے ہیں یہ میلہ نہ صرف کتابوں کی نمائش کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ ایک بین الثقافتی مکالمے کے مرکز کے طور پر بھی کام کرتا ہے اس کے بنیادی مقاصد میں کتابوں اور علم کے عالمی تبادلے کو فروغ دینا ادب ثقافت اور تخلیقی صنعتوں کے درمیان تعلق قائم کرنا مصنفین اور ناشرین کے درمیان نئے معاہدے اور شراکتیں ممکن بنانا اور دنیا کی مختلف زبانوں اور ادبی روایات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا شامل ہےسال 2025 کے لیے فلپائن کو مہمان خصوصی ملک کے طور پر منتخب کیا گیا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ فلپائن کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے اس موقع پر فلپائن کے مصنفین شاعروں فنکاروں اور ناشرین کو دنیا کے سامنے اپنا ادبی اور ثقافتی ورثہ پیش کرنے کا موقع ملے گا ابھی تک پاکستان کو فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان خصوصی ملک کا درجہ حاصل نہیں ہوا البتہ پاکستانی ناشرین مصنفین اور کتابی ادارے کئی برسوں سے اس میلے میں نمائش کنندہ کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں اس سال عبیرہ ضیاء ممبر پرائم منسٹر یوتھ کونسل اوورسیز جرمنی نے بھی شرکت کی اور پاکستانی ادب اسلامی مطالعہ خطاطی اور اردو اشاعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف اسٹالوں کا دورہ کیا ان کی شرکت پاکستان کے علمی اور ادبی تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرتی ہےفرینکفرٹ کتاب میلے کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے قرون وسطیٰ میں جب جرمنی تجارت کا مرکز تھا تب فرینکفرٹ میں تجارتی میلوں کے ساتھ کتابوں کی خرید و فروخت بھی شروع ہو گئی تھی جدید دور میں اس میلے کی باقاعدہ بنیاد 1949 میں رکھی گئی جب دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں اشاعت کی صنعت دوبارہ فروغ پانے لگی پہلے جدید میلے میں صرف دو سو پانچ جرمن ناشرین شریک ہوئے تھے وقت کے ساتھ یہ میلہ بڑھتا گیا اور آج اس میں سو سے زائد ممالک کے ہزاروں ادارے شریک ہوتے ہیں فرینکفرٹ شہر اور کتاب میلے کا ادبی ماحول گوئٹے کی روح فکر سے منسلک سمجھا جاتا ہے اور یہ بات سچ بھی ہے گوئٹے خود کتاب علم اور تخلیقی آزادی کے حامی تھے ان کا فلسفہ عالمی ادب دراصل وہ نظریہ ہے جس پر فرینکفرٹ کتاب میلہ اپنی بنیاد رکھتا ہے اس نظریے کے مطابق ادب کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا سرمایہ ہے اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کتاب میلے کے دوران گوئٹے یونیورسٹی کے آرٹ سوشیالوجی اور کلچرل اسٹڈیز کے شعبے مختلف پینل ڈسکشنز نمائشوں لیکچرز اور مصنفین کی گفتگو کا اہتمام کرتے ہیں کئی بار مہمان خصوصی ممالک کے ادیبوں کے ساتھ یونیورسٹی کے طلبہ اور محققین مکالمے کرتے ہیں کتاب میلے کی فکری بنیاد اس وقت مستحکم ہوئی جب یوهانِس گوٹن برگ نے پندرہویں صدی میں مائنز جو فرینکفرٹ کے قریب واقع ہے میں چھاپہ خانہ ایجاد کیا ان کی مطبوعات میں عربی عبرانی اور یونانی رسم الخط کے تجربات بھی کیے گئے اس کے بعد یورپ میں قرآن کریم کے لاطینی تراجم اور ابن سینا رازی الخوارزمی البیرونی اور دیگر مسلم مفکرین کی کتابیں چھپ کر فرینکفرٹ تک پہنچنے لگیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مائنز میں طباعت کی ابتدا نے فرینکفرٹ میں کتابی تجارت کی راہ ہموار کی یوهانِس گوٹن برگ کے اس انقلابی کارنامے کی یاد میں مائنز کی یونیورسٹی کا نام یوهانِس گوٹن برگ یونیورسٹی رکھا گیا جو آج تک پبلشنگ اور میڈیا اسٹڈیز کے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہےگوٹن برگ یونیورسٹی مائنز نے کتاب کو چھاپنے کا فن دیا تو گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ نے کتاب کے فہم و معنی کو عالمی سطح پر سمجھنے کا زاویہ دیا دونوں ادارے مل کر فرینکفرٹ کتاب میلے کے دو ستون ہیں ایک علم و طباعت کا دوسرا فکر و تخلیق کا میری دلی خواہش ہے کہ ایک دن پاکستان بھی فرینکفرٹ کتاب میلے کا مہمان خصوصی ملک بنے وہ دن جب دنیا کے بڑے بڑے ادبی ہالز میں اردو پنجابی سندھی بلوچی ادب کی گونج سنائی دے پاکستانی شاعروں ادیبوں کے افکار جرمن سامعین کے دلوں میں اتر رہے ہوں میں چاہتی ہوں کہ دنیا پاکستان کو صرف خبروں یا سیاست کے آئینے سے نہیں بلکہ کتاب قلم اور تخلیق کے زاویے سے دیکھے جہاں لفظ امن کا پیغام دیتے ہیں جہاں علم روشنی بن کر دلوں کو منور کرتا ہے اور جہاں نوجوان نسل مطالعے کو اپنی شناخت بناتی ہے اگر مائنز نے طباعت کو جنم دیا فرینکفرٹ نے ادب کو عالمی کیا تو ایک دن ضرور آئے گا کہ لاہور کراچی اور اسلام آباد کے تخلیق کار اسی عالمی اسٹیج پر کھڑے ہوں گے اور دنیا کہے گی یہ ہے پاکستان کتاب اور خیال کی سرزمین کی اصل ترجمانی.