۔،۔تبصرہ: کتاب عہد ِ نسیم۔میر افسر امان۔،۔ 0

۔،۔تبصرہ: کتاب عہد ِ نسیم۔میر افسر امان۔،۔

0Shares

۔،۔تبصرہ: کتاب عہد ِ نسیم۔میر افسر امان۔،۔
میری لائبریری میں نئی کتاب”عہدِ نسیم“کا اضانہ ہوا۔مرحوم نسیم احمد سبحانی ؒ سے جماعتی تعلق تھا۔ ایک بیٹھک میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ دوسرے دن ہی تبصرہ لکھنا بھی شروع کر دیا۔ نسیم احمد ؒان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنی پوری زندگیاں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کی ہوئی تھیں۔ نسیم صاحب نے اپنے اولاد کو بھی اس نیک کام میں شریک کیا۔نسیم صاحب انہی لوگوں میں شامل ہیں جن کے علاقے کو پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔ نسیم صاحب کا آبائی وطن مظفر نگر ہے۔ وہ دین دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب دیکھاکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لبوں پر دین کی محبت کی وجہ سے ایک ہی نعرہ ہے پاکستان کامطلب کیا”لا الہ الا اللہ“ ہے تو نسیم صاحب بھی اس میں گم ہو گئے۔معاش کے لیے سامان کندھے پر رکھ کر گلی گلی فروخت کیا، کامیابی نہیں تو دہلی بھیج دیے گئے۔ سائیکل کی دوکان پربیٹھادیے گئے۔ پینچر لگانا اور کود کود کر پمپ سے ہوابھری۔ تعلیم جاری رکھی۔ شبینہ پڑھائی کی۔ 1944ء میں ہندوستان میں گورنمنٹ ملازمت ملی۔خاندان میں پہلے بی اے پاس تھے۔ ہندوستان سے آخری اسپیشل ٹرین میں بیٹھ کر فوج کے پہرے پیرے میں سکھوں سے بچتے بچاتے واہگہ ریوے اسٹیشن لاہور پاکستان پہنچ گئے۔ پاکستانی گورنمنٹ میں ملازمت کی۔1969ء میں وزارت خزانہ میں سیکشن آفسیر کامنصب ملا۔ آخر میں 1989ء جوائنٹ سیکر ٹری ریٹائرڈ ہوئے۔مظفر نگر میں 14 /ستمبر 1927ء کوپیدا ہونے والے نسیم احمد سبحانی راولپنڈی میں 90برس عمر پا کر وفات پا گئے۔کتاب ”عہد نسیم“ ایک علمی مذہبی گھرانے کی معلومات سے بھری بڑی ہے۔ سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے باب میں نسیم صاحب کے آباؤ اجداد کے بارے میں ہے۔ دورسرا باب عہد نسیم احمد یعنی نسیم کی زندگی پر مشتمل ہے۔ تیسرا باب نسیم احمد کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں خطوط کا ذکر ہے، پانچویں باب میں کچھ تحریریں ہیں۔ چھٹے باب میں نسیم صاحب سفر ناموں کی روداد ہے اور آخر میں ساتویں باب میں نسیم احمد کے خاندان کا شجرہ نسب ہے۔پہلے باب میں نسیم احمد اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہوئے دادا منشی رفیق احمد کے بارے لکھتے ہیں کہ ابا جی کرتے پاجامے اور واسکٹ میں ملبوس، سر ایک اونچی باڑھ کی گول ٹوپی جس کو کلف لگا کر ایک قالب پر چڑھا یا جاتا تھا۔ کندھے پر رومال اور ہاتھ میں بینت(دستی چھڑی)و اسکٹ کی جیب میں گھڑی جس کی رنجیربٹن کے کالج میں پھنسی ہوتی تھی۔ ذریعہ معاش آمدن ملازمت رہا۔ زراعتی مالیاتی نظم و نسق کا کام رہا۔ کبھی سر کار، کبھی نوابوں، کی ریا ستوں کے مختیار کار رہے۔ کچھ عرصہ تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مطبوعات کا انتظام کرتے رہے۔والد مولوی محمدمیاں،نانا احسان الحق اور اپنی والدہ امت القدس ے بارے معلومات فراہم کیں۔دوسرے باب”عہد نسیم“ میں خود نوشت سرگزشت میں اپنی زندگی کے حالات لکھے۔ اپنے آباؤاجداد کی عزت و تکریم، ان کے کردار اعمال سے اپنی آنے والی نسل کو روشناس کرایا۔ اپنی مشاہدات زندگی اور ذاتی سرگزشت کو پوری ایمانداری سے تاریخی ترتیب سے بیان کیاہے۔اس باب میں اپنے آبائی وطن مظفر نگر کے شب وروز اور دور کے حالت، مسلمانوں اورہندوؤں کے آپس کے تعلوقات اور اس دور کی کرنسی،پائی، دھیلا، پیسہ اکنی، دوانی، اٹھنی اور چاندھی کا روپیہ،سونے کی اشرفی کے روشناس کرایا۔ 1946ء میں مظفر نگر سے لیاقت علی خان انڈین مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہونے کا بھی ذکر کیا۔ بتاتے ہیں ان کی پرورش ان کے ننھال میں ہوئی۔ ان کے خاندان کا ذریعہ معاش مطبع تھا۔ شہر کا واحد پریس تھا۔ ہفتہ وار اخبار بیدار شائع ہوتا تھا۔جب ہندی نے اُردو کی جگہ لی تو یہ پریس بند ہو گیا۔میرٹھ میں ٹائب سیکھ کر ملازمت کی۔ دہلی میں گورنمنٹ میں ساٹھ روپے، مہنگاہی الاؤنس پینتیس روپے کی نوکری مل گئی۔1947ء میں آخری ٹرین میں بیٹھ کر پاکستان آ گئے۔پاکستان میں وزارت خزانہ میں نوکری میراانتظار کر رہی تھی۔جماعت اسلامی سے رابطہ 1942ء ہوا۔ الہ آباد کے بڑے اجتماع میں شرکت کی۔ دہلی میں جماعت اسلامی کے دروس قرآن میں شرکت کرتا رہا۔ اسلام آباد میں رفاہی ادارے الفلاح کاذمہ دار بنا۔سرکار میرے پیچھے پڑھ گئی۔ 1972ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔1981میں ترقی پا کر ڈپٹی سیکرٹیری بنا۔ 1998ء میں جوئنٹ سیکر ٹیری کاعہدہ ملا۔ 1989ء میں مدت ملازمت ختم ہوئی اور ریٹائر کر دیا گیا۔2008ء میں امریکہ گیا۔ سفر نامہ ترتیب دیاو فرائیڈے اسپیشل کراچی میں شائع ہوا۔اسلام آباد میں لوگ چلتی پھرتی جماعت اسلامی کہتے تھے۔جماعت کے ایک مخالف رسالے نے لکھا کی جماعت اسلامی نے ایک جوئنٹ سیکر ٹری کو کھالیں جمع کرنے پر لگا دیاہے۔الحمد اللہ راقم نے بھی کئی دھایوں تک جماعت اسلامی الخدمت کے لیے کھالیں جمع کیں۔ لکھتے ہیں پاکستان تو اسلام کے نام پر بنا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد راؤ عنصر علی منیر اور سردار شوکت حیات نے برملا کہا کہ اسلام ایک سیاسی نعرہ تھا۔ پاکستان مسلمانوں کی بہبود کے لے بنااسلام کے لیے نہیں؟پاکستان کے 32 علماء نے پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے 22 نکات پیش کیے۔سید مودودیؒ نے مولاناشبیر احمد عثمانیؒ اور دیگر علماء کے ساتم مل کراسلامی آئین کے لیے مہم چلائی انہیں قید کر دیا گیا۔اس باب میں نسیم صاحب نے پاکستان کے سارے نشیب و فراز بیان کیے ہیں۔تیسرے باب میں نسیم احمد صاحب، بھائی،بیٹوں،بیٹیوں،بہوؤں،اور پوتوں کے تاثرات ہیں۔کسی بھی شخص کے کرادر اور زندگی کے بارے میں اس کی غیر موجددگی میں قریبی رشتہ داروں کی رائے اور تاثرات بہترین گواہی ہوتے ہیں۔صفحہ 82 سے صفحہ148 تک نسیم صاحب کے رشتہ داروں نے اس فرشتہ صفت شخص کی مکمل رواد بیان کر دی ہے۔ جس سے قاری کو ان کے جنتی ہونے کے شواید ملتے ہیں۔ اللہ نسیم صاحب کاروٹ کروٹ سکھ نصیب کرے۔چوتھے باب میں صفحہ 150 سے صفحہ197 تک نسیم صاحب کے خطوط کو ترتیب دیا گیاے۔ ان خطوط کے ذریعے نسیم صاحب کے خاندان کی ایک قسم کی تایخ مرتب کر دی ہے۔ جو ان کی نسل کوآئیدہ رہنمائی لینے میں کام آئے گی۔مذیداندازہ ہوتا ہے کہ نسیم صاحب ایک زیرک انسان تھے۔پانچویں باب میں نسیم کی تحریروں کو یکجا کیا گیا۔ ان کی تحریروں میں ان کااسلام آباد شہر پر مضمون تو گویا پورے شہر کی جیسے تایخ بیان کر دی ہے۔ زیرو پوائنٹ کیا ہے۔ شکر پڑیاں، ایک مربع میل کے سارے سارے سیکٹرز، نور پور قدیم بستی کی تاریخ، ایچ الیون کا قبرستان اور فیصل مسجد کے متعلق معلوما ت جمع کیں۔چھٹے باب رودادِ سفر میں مظفر نگر، دہلی،لاہور، کراچی سے اسلام آباد اور سفر امریکہ ایسا مرتب کیا کہ اسے کراچی کے ہفت روزہ رسالہ فرائیڈے اسپشیل نے شائع کیا۔ امریکہ کا سفر نامہ پڑھتے ہوئے محسوس ہو تا ہے جیسے پڑھنے والا امریکا گھوم رہا ہے۔ساتویں اور آخری باب میں اپنے خاندان کا شجرہ نسب بڑی محنت سے تیار کیا۔ جو ان کے خاندان کے ہر فرد کے پاس کتاب کی شکل میں ضرور ہو گا۔ اس سے خاندان کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں نسیم صاحب نے ایک تجویز بھی دی ہے کہ پختہ عمر والے اپنی اپنی سوانح عمری مرتب کریں۔ اپنے تجربے کواپنی نسل کو منتقل کریں۔کتاب ایک کامیاب نیک انسان کی رودادِ زندگی ہے۔ اسے ہر پڑھنے والا کامیاب زندگی گزرانے کا سبق حاصل کر سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں