0

۔،۔خلفیہ ثانی عمر بن خطاب ؓ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔خلفیہ ثانی عمر بن خطاب ؓ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں روضہ رسول ﷺ کی سنہری جالیوں کے عین سامنے ایک ستون سے ٹیک لگا ئے کب سے کھڑ ا تھا کہ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح میرے با طن کی تا ریکیوں کو روشنی سے ہمکنار کر تا چلا گیا کرہ ارض کا مقدس ترین گو شہ دربار ِ رسالت ﷺ جہا ں بڑے بڑے ولی اور بڑے سے بڑے با دشاہ اور قدسی ملائکہ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں دربار ِ رسالت ﷺ کو چھونے سے پہلے ہوائیں فضائیں بھی خو د کو آبِ زم زم سے دھو دھو کر حاضری کی سعادت حاصل کر تی ہیں او رکیا شان اور بخت ہے ابوبکر صدیق اور فاروق ِ اعظم کا کہ جس در پر ایک سانس ایک نظر ایک لمحہ گزارنا ہر مسلمان دنیا جہاں کے خزانوں سے ارفع اور بہتر سمجھتا ہے لیکن یہ دونوں غلام قیا مت تک کے لیے سرتاج الانبیا ﷺ کی ہم نشینی کے اعزاز بلند سے ہمکنار ہو گئے بلا شبہ یہ شان اور عظمت نبی رحمت ﷺ کی غلامی کی وجہ سے ہی ملی ہے ہر دور میں کر ہ ارض پر بڑے بڑے حکمران پیدا ہو ئے لیکن آج تک ایک بھی حکمران ایسا پیدا نہ ہو سکا جو فاروقِ اعظم کے قدموں سے اٹھنے والی گر د کو ہی چھو سکے آپ جب بھی یو رپ اور غیر مسلم اقوام کی تا ریخ کی ورق گر دانی کر تے ہیں تو تا ریخ کوڑے دان کی طرح ہی نظر آتی ہے اور فاروق اعظم جن کو تا ریخ ڈھونڈتی ہے جو اِس جہاں فانی میں اِس شان سے گئے کہ قیا مت تک کے لیے تا ریخ کے ما تھے پر جھو مر بن گئے تا ریخ خو د کو خو ش قسمت سمجھتی ہے کہ اس کے دامن میں فاروق اعظم ہیں آل اسما عیل کی شاخ بنو عدی کا بیٹا نام آور خطاب کا بیٹا آپ سرخ و سفید رنگت کی طویل قامت، آپ اپنی درازی قامت کی وجہ سے لوگوں میں ممتاز دکھائی دیتے تھے طاقت ور، مضبوط جسم کے مالک سخت مزاج ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پیش رہے اور پھر تا ریخ انسانی کا وہ خاص لمحہ آیا جب آپ گمنامی کی تاریک غاروں سے نکل کر شہرت کے آسمان پر قیا مت تک کے لیے جلوہ گر ہو گئے یہ نبوت کا چھٹا سال تھا اور ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور بدھ کا دن تھا نو ر ر حمت ﷺ قریش مکہ کے مظالم سے غمگین تھے کہ اچانک دعا کے لیے نبی کا ئنات ﷺ نے اپنے ہا تھ اٹھا دئیے اے پروردگار عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل) دونوں میں سے جو تجھے زیادہ عزیز ہے اسکو اسلام کی روشنی عطا فرما اور پھر کا ئنات کے اکلوتے مالک نے عمر بن خطاب کو چن لیا اور ابو جہل کو ابد تک نا مرادی کے غار میں دھکیل دیا، عمر گھر سے نبی کریم ﷺ کو (نعوذ باللہ) ختم کر نے کے ارادے سے نکلے کہ راستے میں نعم بن عبداللہ ملے تو انہوں نے پو چھا عمر کہا ں جا رہے ہو تو غصے میں بھرے عمر بو لے محمد ﷺ کو ختم کر نے (نعوذ باللہ) جا رہا ہوں تو اس نے کہا پہلے اپنے گھر والوں کی تو خبر لو تمہا ری اپنی بہن اور بہنوئی اسلام کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں یہ سن کر عمر غضبناک ہو گئے اور بھپرے ہو ئے انداز میں بہن اور بہنوئی کے گھر پہنچے گھر جا تے ہی حضرت عمر نے کہایہ تم لو گ کیا سر گوشیا ں کر رہے ہو اس وقت گھر میں سور طہ کی تلا وت ہو رہی تھی بہن بہنو ئی ڈر گئے اور بو لے ہم تو آپس میں با تیں کر رہے تھے تو حضرت عمر نے للکا را تم لوگ گمراہ ہو گئے ہو تو بہنوئی بو لے جس دین پر عمر تم ہو اصل گمراہی تو وہ ہے حضرت عمر سے یہ برداشت نہ ہو ا بڑھ کر بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا بہن نے چھڑانا چاہا تو اس کو بھی طما نچے رسید کر نا شروع کر دئیے بہن کا چہرہ لہولہان ہو چکا تھا وہ غضبناک ہو کر بو لی میں شہا دت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں بہن کی جرات اور بے باکی دیکھ کر عمر کے دل میں زلزلہ بر پا ہو چکا تھا حضرت عمر نے بہن سے وہ اوراق مانگے جن کی کچھ دیر پہلے وہ تلا وت کر رہے تھے بہن نے اوراق دینے سے انکا ر کیا اور کہا پہلے وضو اور غسل کر کے خو دکو پاک کرو فوری طور پر عمر بن خطاب نے وضو غسل کر کے اوراق کو پڑھنا شرو ع کیا کلام الہی کے الفاظ نے سالوں کا زنگ لمحوں میں اتار دیا دل میں فوری خوا ہش پیدا ہو ئی کہ مجھے ابھی محمد ﷺ کے پاس لے چلو آپ کو بتا یا گیا کہ سرتاج الانبیا ﷺ کو ہ صفا کے پاس دار ارقم میں جلو ہ افروز ہیں عمر سیدھے وہاں پہنچے کسی غلام ِ رسول ﷺ نے دیکھا کہ حضرت عمر بغل میں تلوار لئے کھڑے ہیں تو رحمت دوجہاں کو اطلاع دی حضرت حمزہ بھی وہیں پر تھے بو لے دروازہ کھول دو اگر تو اچھی نیت سے آیا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر بری نیت سے آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا م تمام کر دیں گے۔ پھر حضرت عمر کو دروازہ کھول کر رسول کریم ﷺ کی با رگاہ میں لا یا گیا عمر سرا پا عجز و انکسار کھڑے تھے ان کی نظریں نو ر مجسم ﷺ کے چہرہ انور پر جمی تھیں اور زبان پر یہ کلمات جا ری ہو گئے میں گو اہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی عبا دت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں دارارقم میں نشاط کی کیفیت طا ری ہو گئی مجا ہدوں نے اِس جو ش سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس کی صدائے باز گشت کعبہ میں سنی گئی یہ جمعرات کا دن تھا اور محبوب خدا ﷺ کو عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبو ل اسلام کی دعا مانگے چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہو ئے تھے اور پھر اسلام اپنے سنہری دور میں داخل ہو گیا۔ حضرت علی سے کسی نے عمر فاروق کے با رے میں پو چھا تو آپ نے فرمایا عمر وہ جلیل المرتبت ہستی ہیں جسے خدا ئے بزرگ و برتر نے فاروق کا خطا ب عطا کیا اور آپ کی ذات حق و با طل میں حدِ فاضل بن گئی میں نے رسول کریم ﷺ کو کہتے سنا اے اللہ اسلام کو عمر کی ذات سے غلبہ عطا فرما۔ ایک بار فاروق اعظم نبی دوجہاں ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عمر ہ کی اجا زت طلب کی حضور ﷺ نے اجازت دی اورفرمایا میرے بھا ئی ہمیں اپنی دعاں میں مت بھولنا حضرت عمر ساری عمر کہا کر تے تھے نبی کریم ﷺ کا مجھے یا اخی (میرے بھائی) کہہ کر پکا رنا دنیا و جہاں کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے نبی کریم ﷺ فرمایا کر تے تھے اللہ نے عمر زبان پر حق رکھ دیا ہے اور جب وہ بو لتے ہیں تو گو یا حق بو لتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میں نے جبرائیل سے پو چھا کہ وہ عمر کے مناقب بیاں کریں تو جبرائیل بو لے اِس کے لیے عمر ِ نو ح درکار ہے عہد خلافت میں حضرت عمر 25 لاکھ مربع میل کے اکلوتے حکمران تھے لیکن قنا عت کا یہ عالم کہ غذا میں خشک روٹی اور کھجور کھا کہ اللہ کا شکر ادا کر تے تھے ایک مر تبہ رومی سفیر مدینہ منورہ آیا اس نے اہل مدینہ سے پو چھا تمہار ے شہنشاہِ کا محل کہاں ہے جواب دیا گیا یہاں نہ تو شہنشاہ کا محل ہے اور یہی دربار خلیف المسلمین ہیں وہ اِس وقت سامنے گار اٹھا کہ مزدوری کر رہے ہیں جو ان کا ذریعہ معاش ہے اورمسجد کی دیوار کے سا ئے میں ریت پر آرام فرما رتے ہیں رومی سفیر حضرت عمر کے پاس گیا اور کہنے لگا کیا یہ وہ انسا ن ہے جس کی ہیبت اور رعب سے دنیا کے بڑے بڑے کج کلاہ با دشاہوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اے حضرت عمر تم نے انصاف کیا تمہیں ریت پر نیند آتی ہے ہما رے شہنشاہ نے ظلم کیا انہیں ریشمی بستروں پر بھی نیند نہیں آتی۔ ہجرت کے وقت لوگوں نے چھپ چھپ کر ہجرت کی لیکن حضرت عمر فاروق نے خانہ کعبہ میں کفار کو للکار کر اعلان کیا کہ میں ہجرت کر رہا ہوں۔کفار پر آپ کا اتنا رعب تھا کہ کسی کو بھی سامنے آنے کی جرات نہ ہو تی، ایک صحابی نے حضرت عمر کے اعمال حسنہ کا ذکر بہت کیا تو حضرت عمر بو لے بھا ئی نہ کرو میرے لیے بس اتنی ہی دعا کر و کہ خدا مجھے کو ئی بڑا انعام نہ دے فقط برابر چھو ڑ دے میرے لیے یہی کا فی ہے۔ آپ کے عہد میں اسلامی حکو مت شرق و غرب شمال جنوب کی وسعتوں پر محیط تھی لیکن عاجزی اتنی کہ کپڑوں پر پیوند لگے ہو تے بیت المال کے اونٹوں کی غلہ با نی خو د فر ماتے تھے آخری حج سے واپس آتے ہوئے ایک مقام پر رک گئے اور فرمایا بے شک اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے میں کبھی اِس وادی میں اپنے والد کے اونٹ چرایا کر تا تھا میری غلطی پر وہ مجھے بہت ما رتا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ میرے اور اللہ کے درمیان کو ئی نہیں جس کا مجھے خوف ہو۔ ابو لولوفیروز نا می شخص نے آپ پر زہر آلودہ خنجر سے حملہ کیا مو ت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور فرمایا اماں عائشہ کے پاس جا اور کہو عمر سلام کہتا ہے یاد رکھنا امیر المومنین نہ کہنا صرف عرض کر نا کہ عمر بن خطا ب اجازت مانگتا ہے کہ وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ دفن ہو اور پھر یکم محرم کو عدل و انصاف کا یہ مورخ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ساری زندگی پیا رے آقا ﷺ کی غلامی میں گزاری بعد وصال بھی شافع محشر ﷺ کے قدموں میں جگہ ملی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں