0

۔،۔ہائے بجلی کے بل۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔ہائے بجلی کے بل۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
امریکہ سے آیا ہوا میرا دوست دانش جمیل پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا کہ ہمارا ملک اور ہمارے لوگ کہاں تک پہنچ گئے ہیں اِس طرح تو پتہ نہیں کیا ہو جائے حالات ابتر مہنگائی اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ مہنگائی اب عفریت کی طرح لوگوں کی جان مال اور عزتوں کو نگل رہی ہے مہنگائی کے اِس ہوشر با طوفان نے لوگوں کی سانس بند کر دی ہے اگر حالات اور مہنگائی کے دیو کو کنٹرول نہ کیا تو لوگ تنگ آکر خود کشیاں یا پھر چوری ڈکیتی پر اُتر آئیں گے لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہو گا کہ پھر بپھرے ہو ئے عوامی طوفان کو کوئی نہیں روک پائے گا پروفیسر صاحب یا ر آپ لوگ دعا کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں ہم لوگ با ہر بیٹھ کر ہر سانس کے ساتھ ملک اور عوام کے لیے دعائیں اور کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں تو ہر گزرے دن کے ساتھ حالات میں سدھار کی بجائے بگاڑ ہی آتا جا رہا ہے پہلے تو لوگ مانگ تانگ کر گزارہ کر لیتے تھے لیکن اب تو ہر سفید پوش غریب ہو گیا ہے اب تو مانگنے والے اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ دینے والوں کے وسائل ختم ہو گئے ہیں یا مانگنے والوں کے مطالبات اتنے اونچے ہیں کہ ان کو پورا نہیں کیا جا سکتا پہلے لوگ اپنی کمائی میں سے ایک حصہ الگ کر لیتے تھے کہ ضرورت مندوں کی مدد کی جاسکے لیکن اب وہ الگ کی ہوئی رقم اتنی تھوڑی ہے کہ ضرورت مندوں کے لیے ناکافی ہے ہمارا معاشرہ پہلے بھی اِن مخیر حضرات کی وجہ سے زندہ تھا لیکن موجود مہنگائی سے ان مخیر حضرات کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب وہ بیچارے بھی اِس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ضرورت مندوں کی ضرورت پو ری کر سکیں مہنگائی کے اِس بے لگام سیلاب کی بنیاد بجلی کے بل ہیں جنہوں نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے لوگ چیخیں مارتے نظر آتے ہیں کہ تنخواہ بیس تیس ہزار ہے جبکہ بجلی کے بل بھی بیس پچیس ہزار ہیں اب لوگ راشن لیں تو بجلی کا بل نہیں دیا جاتا اور اگر بجلی کا بل دیں تو بچے بھوکے مرتے ہیں لوگ ایک دوسرے سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں کہ دو ماہ کا بل اکٹھا ہو گیا ہے اگر اِس بار بھی نہ دیا تو واپڈا والے کنکشن کاٹ دیں گے اگر پنکھا بند ہو گیا تو نہ جاگ سکتے ہیں نہ سو سکتے ہیں بلب نہ جلا تو زندگی جام ہو جائے گی جس طرح کھانا راشن زندگی کے پہئے کو چلانے کے لیے ضروری ہے اِسی طرح بجلی بھی اب بنیادی ضرور ت ہے جس کے بٖغیر زندگی کی گاڑی چلنا نا ممکن ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر بل نہ دیں تو تار کاٹ دی جائے گی غریب بیچارے دہائی دہائی کرتے نظر آتے ہیں اوپر سے کئی عشروں سے نااہل حکومتوں کی کمزوریاں کہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں عوام کو جکڑتے جا رہے ہیں عقل مند حکومت کا کام ہو تا ہے مختلف وسائل پیدا کر کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں مہیا کرنا لیکن حکومت کو ذاتی عیاشیوں سے فرصت ملے تو غریبوں کے بارے میں سوچھے پتہ نہیں کب حقیقی عوام دوست حکومت آئے گی جو غریبوں کے مسائل کو سمجھ کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے گی ہر دور کی حکومت آسان فارمولے پر عمل کر تے ہوئے بجلی کے ریٹس بڑھا دیتی ہے جبکہ یہ ہر شہری جانتا ہے کہ لاہور شہر میں کہاں کہاں بجلی چوری ہو رہی ہے حکومت اور کچھ نہیں کر سکتی تو جزا اور سزا کے عمل کو تو بحال کر سکتی ہے میرے جیسا بندہ بخوبی جانتا ہے کہ شہرمیں کہاں کہاں سر عام بجلی چوری ہو رہی ہے واپڈا کے اہلکارخود بھتہ لگا کر لوٹ مار میں مصروف ہیں ہر گھر کو تین سے پانچ ہزار کا بھتہ لگاتے ہیں وہ گھر تین پانچ ہزار دے کر نان سٹاپ بجلی چوری کر تا ہے اِس طرح لیسکو کے اہلکار صرف تین ہزار میں قومی خزانے کو پچاس ہزار کا نقصان پہنچاتے ہیں جو بندہ تین ہزار دیتا ہے وہ پھر دن رات ACچلاتا ہے یکم اپریل سے یکم نومبر تک مسلسل AC کو آن رکھتا ہے گھر سے باہر بھی جائے تو ACکو بند نہیں کرتا یہ سر عام چوری لیسکو کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر سارے شہر میں جاری ہے اب مسئلہ تو اُن شریف زادوں کا ہے جو بجلی چوری خوف یا گناہ کی وجہ سے نہیں کرتے ایسے شریف لوگوں پر بجلی چوروں کا بھی بوجھ لا دا جاتا ہے یہ حال تو لاہور شہر کا ہے آپ لاہور سے نکل کر دیہات کا رخ کر لیں سینکڑوں کے سینکڑوں دیہات سر عام چوری میں ملوث ہیں لیسکو کے اہلکار چند ہزار کے بدلے میں قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں ایسے میں سفید پوش شریف لوگ پیس رہے ہیں جو چوری نہیں کرتے لیکن ان پر ایسے چوروں کا بل بھی ڈال دیا جاتا ہے ان بیچاروں کی ماہانہ کمائی سے زیادہ بل آجاتا ہے وہ بیچارے زیورات گھروں کا سامان بیچ کر بل ادا کرتے ہیں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے لوگ اب چوری کی طرف راغب ہو رہے ہیں کیونکہ بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو تے جارہے ہیں میں چند مخیر دوستوں کی وجہ سے ضرورت مندکی مالی مدد کر تا ہوں جب سے بجلی کے بل آسمان کو چھونا شروع ہو ئے ہیں لوگ مدد مدد پکارتے نظر آتے ہیں کچھ لوگوں سے تو بل اتارنے کے لیے لوگوں سے سود سے پیسے پکڑتے ہیں تاکہ بجلی کو بحال رکھا جاسکے ہر طرف چیخ و پکار کا سماں ہے لیکن بے حس حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جو لوگوں کی مدد کرنے والے درد مند تھے وہ بھی قلاش ہو گئے ہیں میرا دوست جو ہر سال پاکستان آکر لوگوں کی مدد کرتا تھا اِس بار آیا تو پیسے تھوڑے اور ضرورت مند زیادہ اِس کا کلیجہ اُس وقت پھٹا جب ایک ضرورت مند بیوہ کے گھر مدد دینے گیا تو عورت کی بیٹی نے واپسی پر ایک خط دیا کہ انکل خدا کے لیے آپ ماہانہ بنیادوں پر ہماری مدد کریں زندگی چلانا بہت مشکل ہے میری ماں نے بل کے لیے سود پر پیسے پکڑے جب وہ زیادہ ہو گئے تو لوگوں سے مدد مانگی جب لوگوں نے منہ موڑ لیا تو سود والے گھر آنا شروع ہو گئے تو ہوس بھری نظریں ہم بیٹیوں پر آخر کار تنگ آکر میری ماں نے میری قربانی دی اور مجھے سودی شخص کے حوالے کر دیا اِس طرح میں نے اپنی عزت گنواکر سود کے پیسے ادا کئے میرے جیسی بہت ساری غریب لڑکیاں مہنگائی کہ وجہ سے جسم فروشی پر مجبور ہو گئی ہیں وہ رات کو سیاہ برقعے پہن کر سڑک کے کناروں پر خود کو پیش کردیتی ہیں مہنگائی اور بجلی کے بلوں نے بنت حو ا کو سر عام بکنے پر مجبور کر دیا ہے یہ واقعہ سنا کر دانش خوب رویا کہ یتیم مسکین لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور ہو گئی ہیں مجھے رات کے اندھیروں میں وہ بے شمار برقعہ پوش عورتیں لڑکیاں یاد آگئیں جو رات کو خود کو بیچنے کے لیے سڑک کنارے درختوں کے نیچے کھڑی ہو جاتی ہیں لوگ ان کے ساتھ مزاق بھاؤ کر تے نظر آتے ہیں میں ہمیشہ ان کو حقارت نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن اب مجھے بیچاری مہنگائی کے طوفان کو روکنے بجلی کے بلوں کو ادا کرتی نظر آئیں کاش کوئی نجات دلا ے تاکہ آدم زادیاں راتوں کو برقعے پہن کر خود کو سرعام نیلام کرتی نظر نہ آئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں