0

۔،۔خوشبو۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔خوشبو۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں نے جیسے ہی جرمن مہنگی آرام دہ بڑی جیپ کا دروازہ کھولا تو مجھے لگا جیسے میں کسی آرام دہ پرآسائش گاڑی کی بجائے بدبو دار گٹر میں آگیا ہوں غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ ناک کی طرف بڑھ گیا میں غیر شعوری طور پر نہایت ناگوار بد بو کو روکنا چاہ رہا تھا جو میرے نتھنوں کو جلا کر دل و دماغ کو ناگوار احساس دے رہی تھی میں اِس ناخوشگوار صورتحال کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا میں تو حسب ِ معمول اپنے دفتر آیا تو سیکورٹی گارڈ نے آکر بتایا سر وہ بڑی گاڑی والے آپ کا صبح سے انتظار کر رہے ہیں بار بار آپ کا پوچھ بھی رہے ہیں لہذا آپ برائے مہربانی لوگوں سے ملنے سے پہلے ان سے مل لیں ساتھ آیا بندہ بار بار اپنے مریض کے بارے میں بتا رہا ہے کہ مریضہ کی حالت بہت خراب ہے ہم نے دوبارہ ہسپتال جانا ہے جہاں پر مریضہ مہینوں سے زیر علاج ہے بڑی مشکل سے ہسپتال سے بہانا بنا کر آئے ہیں ہماری مجبوری کا احساس کرتے ہوئے ہمیں مل لیں لہذا میں جہازی مہنگی گاڑی کی طرف یہ سوچ کر بڑھ گیا کہ یہ دولت مندوں کے چونچلے ہوتے ہیں کہ ہمیں عام لوگوں کی طرح انتظار نہ کرنا پڑے اِس لیے انہوں نے یقینا گارڈ کو پیسے لگائے ہونگے جن کی وجہ سے گارڈ ان کی سفارش کر رہا تھا ساتھ ہیں امیروں کے مسائل بھی بہت نازک میاں بیوی کے جھگڑے‘اولاد کی نافرمانی‘عیاشی‘بد تمیزی پڑھائی کے مسئلے یا پھر من پسند شادی میں رکاوٹ انہی سوچو ں میں میں نے دروازہ کھولا میں ذہنی طور پر ان کے بے کار گفتگو سننے کے لیے خود کو تیار کر چکا تھا یہ وہ دولت مند لوگ ہیں جو اللہ کی ہزار نعمتیں پانے کے بعد بھی نا شکر ے بنے اورشکوے شکایت کر تے نظر آتے ہیں یہ غریبوں کے مسائل سے بے خبر جن کو زندگی بچانے کے لالے پڑے ہیں لیکن اندر داخل ہوتے ہیں لگا جیسے کوڑے کے بد بو دار ڈھیر پر آگیا ایسے امیر زادوں کی گاڑیاں لش پش پالش شدہ اور اندر معطر سپرے کا راج ہو تا ہے ایسی گاڑیوں میں داخل ہو تے ہیں ان کے ذوق اور خوشبوؤں کے جھونکے آتے ہیں اِس لیے میں پریشان سا ہو کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دولت مند کی طرف سوالیہ بلکہ تشویش ناک نظروں سے دیکھنے لگا کہ جس کی عمر پچاس سال سے اوپر ہو گی چہرے اور آنکھوں کی شدید الجھن اور پریشانی چھلک رہی تھی میری طرف دیکھا تو مسکرانے کی کو شش کی اور بولا پروفیسر صاحب آپ نے مجھے پہچانا نہیں شاید ہم کئی سال پہلے مل چکے ہیں اور میں نے چند دن آپ کے گھر اور صحبت میں گزارے بھی ہیں جب وہ بولا ماضی کے دھندلکے چھٹنے لگے مجھے اُس کی آواز شناسا سی لگنے لگی اُس نے اجنبیت کی چادر کو مزید چاک کر نے کی کو شش کی اور بولا سر میں توقیر جمال جو دوبئی سے آپ کے پاس پچیس سال پہلے اپنے ماموں کے کہنے پر ہنی مون منانے کے سلسلے میں آیا تھا آپ نے ہماری بھر پور میز بانی کی تھی اُس نے ماموں کا نام بتایا جو میرا دوست ہے تو ماضی کے بادلوں میں سے خدو خال نکھرتے چلے گئے اور مجھے جوان توقیر جمال اور اُسی کی خوبرو نوجوان خوبصورت لاڈلی بیگم صاحبہ بھی یاد آگئی اکتوبر کا پہلا ہفتہ تھا مری میں آنے والے مہمانوں کا طوفان تھم چکا تھا مری میں موسم سرما کا آغاز ہو چکا تھا میری فیملی لاہور میں والدین کے پاس تھی میں چھڑا درویش آزادی کے جھولوں میں مست تھا بھر پور ناشتے کے بعد کلاس پڑھانے کے بعد کالج کے ٹیرس پر آرام دہ کرسی پر آنکھے موندے دھوپ کی حرارت جو زیست سے بھر پور تھی انجوائے کر رہا تھا میری انگلیاں زمرد کی تسبیح کے دانوں پر گردش میں تھیں لبوں پر یاحیی یا قیوم کی میٹھی حلاوت بھری چاشنی رگوں میں ذکر کی سریلی گردش جسم کو جیسے حرارت ملے انسان آرام کے بعد مراقباتی کیفیت نیند میں چلا جاتا ہے میں اِس کیفیت کو انجوائے کر رہا تھا کہ اچانک میرے چاروں طرف خوشبو پھیل گئی بلکہ مختلف خوشبوؤں کے جھونکوں نے مجھے نیم خوابیدگی سے عالم بیداری میں کھینچ لیا میں نے ناگواری سے آنکھیں کھولیں کہ کون ہے جو میرے آرام میں خلل ڈال رہا ہے تو جوان میاں بیوی کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے جب میں جا گ گیا تو مرد نے ایک کارڈ میری طرف بڑھا یا کہ ماموں جی نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے میں نے نام پڑھا تو فوری جاگ گیا اور کہاہاں ان کا فون مجھے آیا تھا آپ شادی کے بعد کچھ دن میرے پاس گزارنے آئے ہیں میں نے فوری جیب سے چابی نکالی نوکر کو بلایا سامنے گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا آج کل میں اکیلا ہوں آپ جائیں اپنی مرضی کا کمرہ لے لیں میں نے دوست کی طرف جانا ہے رات کو آپ کو جوائن کروں گا یہ توقیر جمال سے پہلی ملاقات تھی دونوں چلے گئے لیٹ رات کو میں واپس آیا تو میرا گھر بقعہ نور بنا ہوا تھالان صاف ستھرا فرنائل کی خوشبو بہت سارے بلب لگا کر گھر کو روشن کر دیا گیا تھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ہر طرف خوشبو کا راج تھا مہمانوں کے کمرے میں صاف ستھرا نئی چادریں واش روم میں صابن شیمپو فرنائل کی ٹشو بے شمار چیزیں نئے تولیے لٹک رہے تھے یہ میرا گھر لگ ہی نہیں رہا تھا پوچھنے پر توقیر بولا سر میری بیوی بہت دولت مند گھرانے سے ہے گندی بد بودار جگہ پر نہیں ٹہر سکتی لہذا آپ کے نوکروں کو استعمال کر کے اُس کے ذوق کے مطابق کمرہ بنا دیا ہے میری بیگم اِس قدر نفیس ہے جو کپڑے پہن لے دوبارہ نہیں پہنتی‘ونیا کے مہنگے ترین پر فیوم استعمال کر تی ہے کوئی غریب اِس کو چھولے تو فوری خود کو دھو کر خوشبو لگا تی ہے یہ بازار سے جو کپڑے لاتی ہے اُن کو پہلے واش کرتی ہے کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو ایسی نخریلی عورت میں نے نہیں دیکھی تین دن میرے پاس رہے پھر چلے گئے آج کئی سالوں کے بعد پچھلی سیٹ پر عورت بیماریوں کا ڈھانچہ پڑی تھی تو وہ بولا سر اب یہ ہر ایک سے معافی مانگتی ہے اِس کے منہ میں کینسر کا پھوڑا ہے جو لا علاج ہے اُس سے یہ بد بو ہر وقت نکلتی ہے اِ س کے کمرے میں کوئی نہیں جاتا یہ آپ سے بھی معافی مانگنے آئی ہے اِس کے غرور کی سزا اللہ نے بد بو کی شکل میں دی ہے تو قیر بہت ساری باتیں اور دعائیں لے کر چلا گیا تو میں سوچنے لگا ایسے بہت سارے مجذوبوں کو جانتا ہوں جو مہینوں کپڑے نہیں بدلتے لیکن ان کے جسموں سے ایسی معطر خوشبو آتی ہے جو دل و روح کو معطر کر دیتی ہے جن کی چیزوں سے بھی خوشبو آتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں