0

۔،۔ وقت کی ضرورت ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ وقت کی ضرورت ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان سے ہمارے قدیم تاریخی، مذ ہبی،ثقافتی،کلچرل، لسا نی اور علاقائی تعلقات ہیں اور پھر برِ صغیر میں اسلام کی اشاعت میں افغانیوں کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔علامہ اقبال نے سومنات مندر کی تا ریخی فتح پر سلطان محمود غزنوی کے ۷۱ حملوں اور اس مندر کی مسماری کے بعد ہی تو کہا تھا۔ (قوم اپنی جو زرو مال و جہاں پر مرتی۔،۔ بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی)۔سلطان محمود غزنوی بھی مالی معفت کی کوئی ڈیل کر کے بت پرستی کی اس قدیم روائت سے ر صرفِ نظر سکتے تھے لیکن انھوں نے بت پرستی کی بیخ کنی کو ترجیح دی اور یوں تاریخ میں ایک بت شکن کا خطاب پایا۔اسے یہ خطاب دینے والا کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ دنیائے ادب کی وہ عظیم ترین شخصیت تھی جسے دنیا علامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے۔شہاب الدین غوری ہو،ابراہیم لودھی ہو،نادر شاہ درانی ہو،احمد شاہ ابدالی ہو یا پھر مغل شہنشاہیت کی ایک طویل حکمرانی کی داستان ہو ان سب کا تعلق کسی نہ کسی انداز میں افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔علامہ اقبال کے افغان حکمرانوں سے ذاتی مراسم تھے اور پھر انہی تعلقات کی وجہ سے افغان بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر انھوں نے افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا۔یہ ایک تاریخی دورہ تھا جس میں علامہ سید سلیمان ندوی جیسی باکمال شخصیت بھی علامہ اقبال کی ہم رکاب تھی۔علامہ اقبال کے مزار پر سنگِ مر مر کے نایاب اور بیش قیمت پتھر افغانستان کی محبت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ سنگِ مر مر کا یہ تحفہ پاکستان اور افغانستان کی لازوال دوستی کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنے آباؤ اجداد کی باہمی محبت کا دیدار کر سکتے ہیں۔ پتھر بولتے تو نہیں لیکن پھر بھی علامہ اقبال کے مزار پر نصب کئے گے پتھر خاموشی سے محبت کی ایک ایسی داستان بیان کررہے ہیں جو بڑی ہی دلکش اور دلپذیر ہے۔علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا اور تاریخ نے ان کے اس دعوی کو جھٹلا نے کی جرات نہیں کی۔دیدہ وروں کی پیشنگوئیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔وہ ایک شعر کے اندر حقیقت کا ایسا اظہار کر جاتے ہیں جو چہرہِ عالم پر ثبت ہو کر رہ جاتا ہے۔(آسیا یک پیکرِ آب و گل است۔،۔ملتِ افغان در آں پیکرِ دل است)۔،۔(فساد، او فسادِ آسیا۔،۔ در کشادِ او کشادِ آسیا)۔ جسے اس میں شک ہو وہ افغانستان پر روسی جارحیت اور امریکی جارحیت کو ملا حظہ کر کے دیکھ لے کہ افغانستان کی وجہ سے نیو ورلڈ آرڈر کی نئی اصطلاح ایجاد ہو ئی اوردنیا آج اسی کے نتائج بھگت رہی ہے۔ امریکہ اور روس سے زیادہ طاقتور اور بڑی ریاستیں اس وقت اس کرہِ ارض پر موجود نہیں ہیں لہذا ان دونوں نے جو کچھ بھگتا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔روس کے تو کئی حصے بخرے ہوئے جبکہ امریکہ کی معیشت قرضوں میں ڈوب گئی۔ امریکہ کو کئی ہزار ارب ڈالروں کا نقصان برداشت کرنا پڑا اور جس کے خلاف اس نے یہ سب کچھ کیا تھا وہ آج اسی کی آنکھوں کے سامنے افغانستان میں حکمران ہے۔امریکہ اور روس اپنی اپنی کچھاروں میں چھپے بیٹھے ہیں جبکہ طالبان دنیا میں اپنے نظریے کی جیت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔۔کوئی طالبان کی فکر سے لاکھ اختلاف کرے،اس کو خوا رج سے تشبیہ دے، جتھہ بندی کا الزام لگائے اور پھر اسلحہ و بارود سے اقتدار پر قبضہ کا رنگ دے لیکن اس حقیقت سے دنیا کا کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا کہ طالبان نے دنیا کی دو عظیم ترین ریاستوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔بے سرو سامان طالبان نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا یہ ایک الگ داستان ہے۔ریاستوں کے فیصلے میدانِ جنگ میں ہی ہوتے ہیں۔ ایران او روم کی عظیم سلطنطیں کیا محض تبلیغ سے فتح ہوئی تھیں؟مصر شام،ہسپانیہ،ترکی اور افریکہ کیسے اسلام کی قلمرو کا حصہ بنے۔(ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے۔،۔ پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے)۔ پاکستان(۹۷۹۱)؁ میں روس کے خلاف طالبان کا حلیف تھا جبکہ دوسری دفعہ (۱۰۰۲؁) میں طالبان کا حریف تھا۔پاکستان کو دونوں صورتوں میں نقصان سے ہمکنار ہو نا پڑ ا۔،۔پاکستان میں صوفیائے کرام کا جو سلسلہ ہے وہ بھی افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔پاکستان کے تمام بڑے بڑے صوفیاء اکرام کا تعلق افغانستان کے ساتھ ہے۔غزنی،قندھار،ہرات اور کابل جیسے شہروں سے صوفیاء کرام کی ہجرت اسلام کی ترویج کا باعث بنی اور یوں برِ صغیر پا ک و ہند میں اسلام کی وہ اجلی شمع روشن ہوئی جس کی بدولت پاکستان کو اپنی تخلیق کی بنیادیں میسر ہوئیں۔اگر افغانستان کے صوفیاء کرام برِ صغیر کا رخ نہ کرتے تو کفرو الحاد کی اس بستی کانہ جانے کیا حال ہوتا؟یہ ا نہی اکابر ین کی اسلامی تعلیمات کا کمال ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد اسلام کی دولت سے مستفید ہوئے اور یوں برِ صغیر میں ایک نئی قوم کا جنم ہوا۔علامہ اقبال کا خطبہ بھی اسی حقیقت کی جانب ہماری رہنمائی کرتا ہے۔۹۲ دسمر ۰۳۹۱؁ میں الہ آباد میں جس خطبے کا چرچا ہوا اس کی بنیادیں بھی انہی سپہ سالا روں،حکمرانوں،علماء اور صوفیاء کرام کی تعلیمات سے مزین ہیں جن کا تعلق افغانستان کی سر زمین سے ہے۔میں کبھی کبھی محوِ حیرت رہ جا تا ہوں کہ وہ خطہِ زمین جہاں پر کفرو الحاد اور بت پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا وہاں پر صوفیا ء کرام کی محنت سے اسلام کی شمع کیسے روشن ہو گئی؟ وہ کیسے دیو قامت انسان تھے جھنوں نے کفرو الحاد کے گھڑھ میں اسلام کا نام بلند کیا اور اللہ اکبر کی توحیدکی تکبیروں سے کفرو الحاد کو شکست سے ہمکنار کیا؟علامہ اقبال نے اس منظر کو اپنی شہرہ آفاق نظم شکوہ میں بڑے ہی ڈرامائی اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔(تھی تو موجود ازل سے ہی تیری ذاتِ قدیم۔،۔ پھول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم)۔،۔) شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم۔،۔ بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم)۔اگر ہسپانیہ کی فتح بنو امیہ کی تاریخی یلغار کا نتیجہ ہے تو پھر برِ صغیر میں اسلام کی ترویج ا فغانیوں کی لازوال قربانیوں کا صلہ ہے۔ہسپانیہ میں مسلمانوں نے ۰۰۸ سال حکومت کی جبکہ اتنا عرصہ ہی برِ صغیر میں ان کی حکومت رہی۔دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ علامہ اقبال جیسے مفکر نے برِ صغیر کے مسلمانوں میں ایک مسلم قوم کا تصور اجاگر کے اس کے لئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا اور یوں ان کے وجود کو محفوظ کر دیا جو ہسپانیہ میں ممکن نہ ہو سکا۔ہسپانیہ کے مسلمانوں کو کوئی اقبال نہ مل سکا جو ان کا نصیبہ بدل دیتا۔وہ مسلمان جو بھارت میں مقیم ہیں وہ اقلیت میں ہیں اور ان کے ساتھ اقلیتوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے جبکہ ہم ایک اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں۔پہچان ایسے ہی نہیں ملتی۔خونِ جگر دیں تو یہ منصب نصیب بنتا ہے۔علامہ اقبال ہسپانیہ سے کس قدر محبت کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے(۹۹۶) سالوں کے بعد مسجدِ قرطبہ میں اذان دی اور اپنی شعرہ ِ آفاق نظم(مسجدِ قرطبہ) تحریر کی جو اردو ادب کا نادر شاہکار ہے۔وارفتگی کا انداز تو دیکھئے (ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے۔،۔ مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں)۔،۔(پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حناء کی۔،۔ہے رنگ ابھی باقی میرے خونِ جگر میں۔)۔ افغانستان کے وہ سارے جری حکمران جھنوں نے ہمیں اسلام کی دولت سے ہمکنار کیا ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں لیکن دہشت گردی کی وہ کاروائیاں جن میں افغان ملوث ہیں ہمیں دلی صدمہ سے دوچار کر رہا ہے۔وہ جن سے ہم نے دلی محبت کی تھی وہی ہمارے امن کو تہہ و بالا کرنے کے درپہ ہیں۔بم دھماکوں اور خود د کش حملوں میں افغانیوں کے ملوث ہو نے سے پاکستانی معاشرہ بد امنی کا گڑھ بن چکا ہے۔پاکستانی ریاست کو اپنی بقا کی خاطر امن و امان کو یقینی بنانے، معاشی بدحالی سے نپٹنے اور غیر قانونی تارکین کی ملک بدری کیلئے جس طرح کے سخت فیصلے کئے ہیں وہی وقت کی ضرورت ہیں۔،۔ (جاری ہے)۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں