0

۔،۔ امید کی کرن ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ امید کی کرن ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

ٓاس کرہِ ارض کی ساری اقوام علاقائی نسلی یا لسانی ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ان کی پہچان ان کے وطن سے وابستہ ہوتی ہے۔جرمن قوم ہسپانوی قوم،ہندی قوم، جاپانی قوم، چینی قوم،انگریز قوم،مصری قوم،ایرانی قوم،یونانی قوم اور فرانسیسی قوم۔ہر قوم نے اپنی برتری کاجو بت تراشا ہوا ہے اس نے پوری انسانیت کو لہو لہان کر دیا۔دوسری عالمی جنگ اسی برتری کے تصور کے گرد گھومتی ہے۔علامہ اقبال جیسے فلا سفر نے دوسری عالم گیر جنگ سے قبل بر ملا کہا تھا (تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی۔،۔ جو شاخِ نازک پہ آشیاں بنے گا ناپائیدار ہو گا)۔کچھ لوگ اس شعر کو مغربی تہذ یب پر چسپاں کر کے اس کی عمیقیت کو گہن لگا دیتے ہیں۔یہ شعر وطنیت کی بنیادوں پر فکری سوچ کے زہر کے بارے میں تھا جا کا عملی اظہار دوسری عالمی جنگ بنی۔اپنی قوم کی برتر ی کیلئے ہٹلر اور مسولینی نے جو تباہی مچائی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اسی لئے فلاسفر شاعر کو کہنا پڑا۔ (ان سارے خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے۔،۔ جو پیرہن ہے اس کا مذہب کا کفن ہے) عظیم جرمن شاعر او فلاسفر نیطشے کے پیش کردہ سپر مین کے تصورکو ہٹلر نے جس طرح خود پر چسپاں کر کے دوسری اقوام کو کمتری کے ترازو میں تو لا اس نے پورے کرہِ ارض کو لہو میں نہلا دیا۔ان حالات میں کسی ایسے نظریہ کی ضروت تھی جو پوری انسانیت کو اتحاد اور ایکتا عطا کرے۔ قوم پرستی کا نظریہ جب اپنی محدود سوچ کے دائرے سے باہر نکلے گا تو پھر انسانیت کو برابری کی سطح نصیب ہو گی۔نسل پرستی کے اس زہر کا تریاق علامہ اقبال کا ۰۳۹۱؁ کا وہ خطبہ تھا جس میں انسانی ایکتا اور برابری کا واشگاف اعلان تھا اور جو رنگ، نسل،زبان اور جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر تھا۔ہر وہ انسان جو ایک نظریہ پر ایمان رکھتا ہے امت ِ مسلمہ کا فرد ہے،اس کیلئے کسی خاص نسل اورزبان کا ہونا شرط نہیں۔مجوزہ اسلامی ریاست کے اندر اسلامی نظریہِ حیات سے اختلاف رکھنے واے افراد کو مکمل تحفظ مہیا کیا گیا تھا اور ان کی مذہبی رسومات اور عبادت گاہوں کو مکمل محفوظ رکھنے کا عہد کیا گیا تھا۔اقبال اسی کو روحانی جمہوریت کا نام دیتے تھے۔ان کے بقول غیر مسلم اسلامی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے اور قانون کے نفاذ میں ان سے کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائیگا۔یہ تھا وہ نظریہ جس میں پوری انسانیت کیلئے امن اور استحکام کاپیغام پنہاں تھا۔اسی نظریہ کے اتباع میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کااگست ۷۴۹۱؁ کو وہ یادگار خطاب ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ( نئی مملکت میں کوئی ہندو ہندو نہیں ہو گا،کوئی عیسائی عیسائی نہیں ہو گا اور کوئی مسلم مسلم نہیں ہو گا بلکہ سارے کے سارے نئی مملکت کے شہری ہوں گے اور سب کے حقوق برابر ہوں گے)یہ ایک ایسی سوچ تھی جوکہ اس کرہِ ارض پر بسنے والی دیگر اقوام کے خیالات سے بالکل مختلف تھی۔کسی کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کی انقلابی اور سحر انگیز سوچ کے علمبرداروں کی مجوزہ ریاست میں غیر مسلموں سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جائیگا اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہو ں گے اور ان کے گھروں کو آگ لگانا اور ان کی املاک کو تباہ کرنا معمول کے واقعات قرار پائیں گے۔وہ جھنیں دنیا بھر کیلئے اعلی روایات کی مثال بننا تھا وہی دنیا بھر کیلئے دھشت گردی اور جنونیت کی علامت قرار پائیں گے۔،۔ تنظیمِ اسلامی کا قیام بھی اسی پسِ منظر میں رو بعمل آیا تھاتا کہ وہ تمام ممالک جو اب بھی علاقائی حد بندیوں اور قومیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں وہ ایک عظیم تر سلطنت کا حصہ بن جائیں اور پھر (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔،۔ نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر) کا عملی نمونہ بن جائیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی فوری رحلت کی وجہ سے وہ تصور جسے دنیا بھر کیلئے زندہ و جاوید مثال بننا تھا ابتدائی ایام میں ہی اپنی موت مر گیا۔دوسری اقوام تو بہت دور کی بات ہے جبکہ پاکستان اپنے ہی علا قائی جھمیلوں کی نذر ہو گیا۔سند ھی،بنگالی،بلوچی، پختون اور پنجابی نعروں نے اس کی روح کو اس کے جسم سے علیحدہ کر دیا۔ بنگا لیوں کے دلوں میں ایسا زہر بھراگیا کہ یہ ریاست۶۱ دسمبر ۱۷۹۱؁ کو دو لخت ہو گئی۔کہاں خلافتِ آدم کا تصور اور کہاں قومیتوں کے بے سرو پا جھگڑے۔وہ دانائے راز جس نے ۰۳۹۱؁ کا خطبہ ارزاں کیا تھا اسے خوب خبر تھی کہ کل یہ قوم کیا کرے گی؟اسے اس مٹی کی تاثیر کا علم تھا،یہاں کے رہنے والوں کے نسلی تفاخر کا احساس تھا۔وہ ہند کے ذات پات کے نظریہ کا عینی شاہد تھا اسی لئے اس نے کہہ دیا۔(غبار آلود رنگ و نسل ہیں بال و پر تیرے۔،۔تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا)۔لیکن کوئی اس سچ کو ماننے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔دلوں میں کدورتیں بھر جائیں تونظریے مٹ جایا کرتے ہیں۔ قومیں نظریات سے ابھرتی اور ڈوبتی ہیں۔کوئی قوم جب اپنے نظریہ سے مخلص ہوتی ہے تو قائم رہتی ہے لیکن جب وہ اس سے دست کش ہو جاتی ہے تو پھر مٹ جاتی ہے۔اس مملکت کا آغاز کتنا شاندار تھا لیکن اس کا انجام کتنا حسرت انگیز ہے کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ تاریخ کاسبق یہی ہے کہ حالات کا جبر کسی نہ کسی روز کسی نابغہ کو جنم دے دیتا ہے۔تاریخِ عالم کے پنے الٹ کر دیکھ لیجئے کہ کتنے نابغہ آئے جھنوں نے تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔علامہ اقبال کے پیش کردہ نظریہ کیلئے ذولفقار علی بھٹو کی شاندار خدمات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے امتِ مسلمہ کو جس طرح ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا وہ لا جواب تھا،انھیں اس جراتِ رندانہ کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی لیکن ۰۳۹۱؁ کے خطبہ کی حقیقی رو ح کو انھوں نے جس طرح نئی زندگی بخشی وہ ان کی وسیع النظری کی دلیل ہے۔سیاست میں ان کی عمیق نگاہی کو ان کے دوست اور دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ صداقت کیلئے کھڑا ہونا ان کی سیاست کی اجلی پہچان تھی اور اس کیلئے وہ کسی قسم کے سمجھوتے اورمک مکا کے قائل نہیں تھے۔ بقولِ اقبال۔(ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ۔،۔ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جان پیدا کرے)۔،۔ (۔پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار۔،۔ اور اپنی خاکستر سے اپنا جہاں پیدا کرے)۔ذولفقار علی بھٹو کو نہ تو کسی خسرو کی پروا ہ تھی اور نہ کسی کسری کی۔اس نے اپنی صداقت کو سچائی کی شمشیرِ برہنہ کے سامنے رکھا ہوا تھا۔جو اس صداقت پر پورا اترتا تھا وہی اس کا دوست تھا اور جو اس سے سرِ مو انحراف کرتا تھا وہی اس کا عدو تھا۔اسے دوستوں کا احترام تھا لیکن عدو کیلئے اس کے پاس کوئی عذ ر نہیں تھا۔حق کی جنگ لڑنے والے عدو کی ظاہری شان و شوکت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنی ناؤ کو پر زور اور پر خطر طوفانوں سے نکال کر ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ بقولِ اقبال۔۔(رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک۔،۔ تیرا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکرا ں کے لئے)۔کوئی سنے یا نہ سنے لیکن صداقت کی بات کورد نہیں کیا جا سکتا۔انسان دوستی،احترامِ انسانیت کے سنہری اصولوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ قوم فروعی معاملات میں الجھی ہوئی ہے، اپنی متعین شدہ منزل سے بہت دور جا چکی ہے۔آج نظریہ اور قوم کہیں دور افق میں گم ہو چکے ہیں۔ہم راہ سے بھٹک چکے ہیں، ہماری سمت بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ہماری قو م کا ا اخلاقی معیار پست ہو چکا ہے۔لیکن امید کی ہلکی سی کرن تو اب بھی روشن ہے۔قوم کو اب بھی کسی شہسوار کا انتظار ہے جو سب کچھ الٹ کر رکھ دے گا۔(نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو۔،۔ ترس گے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے)۔وہ شہسوار ضرور آئے گا اور اپنی قوم کے پستیوں سے نکال کر بلندیوں سے ہمکنار کر دے گا۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں