0

۔،۔ تعصب انگیز رویہ ۔ طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ تعصب انگیز رویہ ۔ طارق حسین بٹ شان۔،۔
اس وقت پاکستان کو عجیب و غریب صورتِ حال کا سامنا ہے۔انتشار اور غیر یقینی اس کے درو دیوار سے یوں ٹپک رہی ہے جیسے آسمان سے شبنم ٹپکتی ہے۔کوئی بات بھی پورے یقین اور وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ایک سنسنی ہے جس نے ہر ایک کو اپنی گرفت میں دبوچا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کی جتنی بھی کاوشیں کی جاتی ہیں سنسنی خیزی اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہے۔سیاستدان اپنے مخالفین کو کمتر، بے وقعت اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن بات پھربھی بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔اپنی جیت کی خاطر دوسروں کو بد دیانت اور خائن کہنے کا جو کلچر پروان چڑھ گیا ہے وہ کسی طرح سے قابو میں نہیں آ رہا۔سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن انتخا بی میدان نہیں سج رہا۔انتخابات کی گہما گہمی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔انتخابی ماحول کا دور دور تک نام و نشاں نہیں ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی سوال پوچھتا ہوا نظر آتا ہے کہ کیا ۸ فروری کو انتخابات منعقد ہو جا ئیں گے؟سوال یہ نہیں کہ انتخابات ایک دفعہ پھر التوا کا شکار ہو جائیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تختِ اسلام آباد پر کس کو فائض کیا جائے گا اس کا بھی حتمی فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔لندن سے ایک صاحب کو وزیرِعظم بنائے جانے کا چکمہ دے کر پاکستان بلا یا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ زمینی حقائق اس شخص کی یاوری نہیں کر رہے۔مسلم لیگ (ن) کی عدمِ مقبولیت کی وجہ سے بات نہیں بن رہی۔خاندانی انتشار اور خلفشار اسے مزید سنگین بنا رہا ہے۔خاندا نی لڑائی،جھگڑے اور بے اعتمادی نے مسلم لیگ (ن) کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کی فیملی کے درمیان جو دوریاں ہیں اس نے مسلم لیگ (ن) کے لئے فتح کی منزل کو مزید دور کر دیا ہے۔انتخابی عمل میں حمزہ شہباز شریف کہیں نظر نہیں آرہے۔محض مریم نواز کی پھرتیوں سے مسلم لیگ (ن) فتح سمیٹنے کے جو خواب دیکھ رہی ہے وہ نقش بر آب ثابت ہوں گے۔کامیابیوں سے جھولیاں بھرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے وہ حسبِ خواہش پایہ تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آ رہا۔چند مخصوص شہروں میں مسلم لیگ (ن) کچھ بہتر نتائج دکھا سکتی ہے لیکن پورے پنجاب کی فتح کا جو خواب دکھایا جا رہا ہے وہ بالکل غیر حقیقی ہے۔بیساکھیوں کی اپنی مجبوریاں ہو تی ہیں لہذا بیساکھیوں پر سیاست کی بنیاد رکھنے والے ایک دن رسوا ہو جاتے ہیں۔ عوام اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کی بجائے کوئی مخصوص ادارہ اقتدار کا فیصلہ کرے۔عوام اپنے ووٹ کی پرچی سے اقتدار کا فیصلہ کرنے پر بضد ہیں وہ کسی ادارے کو یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں۔میاں محمد نواز شریف کیلئے سب سے بڑا سیٹ بیک یہی ہے کہ پاکستان میں ان کے بارے میں افواہیں سر گرم ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے اقتدار پر فائض ہوں گے جو عوامی منشاء کی نفی کرنے کے مترادف ہے لہذا عوام کے اندر اس فارمولہ پر شدید تحفظات ہیں۔وہ کسی روبوٹ کو اقتدار کی مسند پر متمکن کرنے کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔وہ اسے پسند نہیں کر رہے کہ ان کی بجائے ادارے اقتدار کا فیصلہ کریں۔،۔جمہوریت تو آزادانہ رائے کا نام ہے لیکن اگر فیصلہ کسی ادارے نے ہی کرنا ہے تو پھر سارے جمہوری عمل کی کریڈیبیلیٹی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں نے بہت سے انتخا بات میں حصہ لیا ہے۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ پردے کے پیچھے سے کنٹرول کیا جا تا ہے لیکن یہ سارا پراسس ایک ایسے انداز میں سر انجام دیا جاتا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو تی تھی۔ مداخلت تو ہوتی تھی لیکن اس کا طریقہ کار بڑا با وقار ہو تا تھا۔اب کی بار۸ فروری کے انتخابات کیلئے جو بساط سجائی جا رہی ہے وہ ہر ایک پر بالکل واضح اور عیاں ہے۔صبح صادق کی طرح اسے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔کس کو اندر تن دینا ہے اور کس کو پروٹو کول دینا ہے اس وقت کوئی سر بستہ راز نہیں ہے۔ہر گلی کی نکر پر موضوعِ بحث یہی نقطہ ہے کہ کسی مخصوص لیڈر کو زنجیریں پہنا کر کسی دوسری جماعت کو انتخابی فتح کا جوخواب دکھایا جا رہا ہے وہ غیر منصفانہ ہے جس پر عوام میں غم و غصہ کا شدید عنصر پایا جا تا ہے۔پنجاب کے لوگ اپنے مخالف کو کھلے میدان میں شکست دینے پر یقین رکھتے ہیں۔کسی کی مشکیں کس کر اسے شکست دینے کو وہ جوانمردی کی توہین سمجھتے ہیں۔مقابلہ ہمیشہ برابری کا ہوتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈاسہ ہو اور دوسرا بالکل نہتا ہو۔ایک کے ہاتھ بندھے ہوں اور دوسرے کوکھلے ہاتھوں کے ساتھ اس ہاتھ بندے شخص کو لہو لہان کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جائے۔،۔اس وقت ۸ فروری ۴۲۰۲؁ کے انتخابات کا موازنہ مئی ۸۱۰۲؁ کے انتخابات سے کیا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ مسلم لیگ (ن) پروپیگنڈہ کر رہی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے ماضی میں ہم نے یہ سب بھگتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مئی ۸۱۰۲؁ میں جو انتخابی بساط سجائی گئی تھی وہ اس طرح یک طرفہ نہیں تھی جس طرح کے مناظر ہم آج دیکھ رہے ہیں۔مئی ۸۱۰۲؁ میں ہر امیداور اپنی انتخابی مہم میں آزاد تھا۔مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت نے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ کارنر میٹنگز کی تھیں اور انھیں ڈرانے دھمکانے کیلئے ان کے خلاف چھاپے نہیں مارے جاتے تھے اور نہ ہی کسی امیدوار کی گرفتاری عمل میں آتی تھی۔کسی ایک امیدوار کا نام لیا جائے جسے انتخابی عمل سے روکا گیا تھا اور اسے پسِ زندان پھینکا گیا تھا۔ہر امیدوار نے کھل کر اپنی انتخابی مہم پورے زورو شور سے چلائی تھی لیکن آج پی ٹی آئی کے امیدواروں کی گرفتاری معمول کی کاروائی ہے۔ انھیں انتخابی عمل سے بے دخل کرنے کیلئے جو چھاپے مارے جا رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔کاغذات چھیننا اور ایک مخصوص جماعت کے امیدواروں کے کاغذ ات مسترد کرنا روز مرہ کی کاروائی ہے۔ابھی تک بہت سے امیدوار کاغذات کو منظور کروانے کی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔کبھی وہ جیل میں ہوتے ہیں اور کبھی وہ اپنے شہر سے فرار ہونے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں کیونکہ پولیس ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہوتی ہے۔ کیا ایسا منظر کسی بھی دوسرے انتخابات میں کبھی دیکھاگیا تھا۔؟؟مئی ۸۱۰۲؁ میں پوری مسلم لیگ کی قیادت کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی تھی اور کسی ایک امیدوار کو بھی جیل سے انتخابات کا مرحلہ در پیش نہیں تھا لیکن اس بات کی داد دینی چائیے کہ آج پی ٹی آئی کے بیشتر امیدوار جیل سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔مئی ۸۱۰۲؁ میں کیا مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان چھینا گیا تھا؟کیا اسے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا تھا؟پی ٹی آئی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہی ہے کہ اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیاہے اور پھر بھی مسلم لیگ (ن) کو چین نہیں آرہا۔وہ پی ٹی آئی کو مکمل کرش کرنا چاہتی ہے تا کہ اس کی جیت کیلئے میدان بالکل صاف ہو جائے۔کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے انتخابی نشان کے بغیر انتخابات میں حصہ لیا ہو۔؟؟۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو ریاستی جبر کے باوجود کبھی بھی انتخابی نشان سے محروم نہیں کیا گیا لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ جو رویہ روا رکھا گیا ہے وہ جمہوری روح کی صریح خلاف ورزی ہے۔کیا انتخابی نشان کے بغیر انتخابی عمل میں حصہ لیا جا سکتا ہے لیکن پی ٹی آئی یہ معجزہ بھی کر کے دکھا رہی ہے اور اس کے سارے مخالفین اس کے عزمِ مصمم سے خوف کا شکارہیں۔اگر ملک میں موجودہ سیاسی کشمکش کو اسی معتصبانہ انداز میں جاری و ساری رکھا گیا تو ملک کی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔ملک کو ٹکراؤ کی نہیں مفاہمت کی ضروت ہے اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ دی جائے اور انتخابی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں