0

۔،۔ باطل نظام کا خاتمہ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ باطل نظام کا خاتمہ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء سے پی پی پی کو کچلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ جنرل ضیال حق کی موت کے بعدقدرے دھیما ہوا۔پی پی پی کو سیاسی میدان میں شکست دینے کیلئے میاں برادرن کی سربراہی میں ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی گئی لیکن ایسی جماعت پی پی پی کی عوامی مقبویت کا سامنا نہیں کر سکتی تھی لہذا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے انتخابی دھاندلیوں کی ایک ایسی سائنس ایجاد کی گئی جس میں جیتنے والے ہارجاتے تھے اور ہارنے والے فتح سے ہمکنار ہو جاتے تھے۔ جنرل ضیاالحق کی معیت میں جس جماعت کی بنیاد رکھی گئی اس پر مقتدر حلقوں کی نوازشوں کی ایک نا ختم ہونے والی داستان ہے اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جس طرح کا ناروا سلوک روا رکھا گیا اسے کوئی صاحب عقل و شعور عدل و انصاف کا نام نہیں دے سکتا۔ مسلم لیگ (ن) نے محترمہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ جس طرح کا رویہ اپنایا اور ان کے خاوند آصف علی زرداری کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا کوئی بھی انصاف پسند شخص اس کا دفاع نہیں کر سکتا۔آصف علی زرداری پی پی پی کے قائد بنے تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے راہ و رسم قائم کئے اور یوں پی پی پی کی مخا صما نہ سیاست کو ضیر آباد کہہ دیا کیونکہ اس سے اقتدار تک رسائی ناممکن بن رہی تھی۔اب پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ یک جان دو قالب کا منظر پیش کر رہے ہیں اور پی پی پی ملک بھر میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔پی پی پی جمہورکی آواز کی نمائندہ جماعت تھی لیکن اب وہ سٹیٹسکو کی علامت بن چکی ہے جس کی وجہ سے پنجاب سے اس کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔چند جغادری خاندان اسٹیبلشمنٹ سے سازش کر کے اپنی چند سیٹیں جیتنے میں کامیاب کروا دئے جاتے ہیں جبکہ عوامی سطح پرپی پی پی کا کوئی وجود نہیں ہے۔اس کی وجہ آصف عی زرداری کا اسٹیبلشمنٹ کی جانب جھکا ؤ ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ہر قسم کے ریاستی دباؤ سے پی ٹی آئی کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔عدلیہ پر دباؤ اور بیووکریسی پر دباؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔میاں برادران خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر انھیں گلے لگا لیا ہے اور ان کا سیاسی مخالف جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔آواگون کا چکر ایک دفعہ پھر اپنے محور پرمحوِ ِ سفر ہے جس سے میاں برادران کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔انھیں سدا سے بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے لہذا انھیں بیساکھیاں دے دی گئی ہیں۔بھائی وزیر اعظم اور سپتری وزیرِ اعلی پنجاب۔باقی بتا دیا جئے کہ کیا بچتا ہے؟؟؟لگتا ہے جنرل ضیاا لحق کی روح اب بھی ان کے لئے محوِ دعا ہے۔،۔عوام جمہوری حسن کے خواہش مند ہیں لہذا وہ جمہوریت کش رویوں کو سخت کو نا پسند کرتے ہیں۔ پی پی پی جو پنجاب کے ہر گھر، ہر گلی اور ہر محلے کی جماعت تھی اب اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔وفا ق کی علامت جماعت جمہور کی آواز بنے گی تو پاکستان کا جمہوری تشخص واضح ہو گا اور جبر کی وہ فضا جو پورے ملک پر چھائی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہوسکے گا۔پی پی پی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری انتخابات ۴۲۰۲؁ میں مسلم لیگ (ن) کی منفی سوچ کا راستہ روکنے کیلئے متحرک ہو ئے کیونکہ انھیں یقین تھا کہ جنرل ضیا الحق کی گود میں سیاسی تربیت پانے والی جماعت نفرت اور انتقام سے دست کش نہیں ہو سکتی لیکن ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ ذاتی مفادات کی خاطر اسی جماعت کے نیچے دراز ہو گے جس کے خلاف روز انہ ہوا میں اپنا تیر لہراتے تھے۔عوام کو ان کی اس طرح کی سوچ سے بڑی تکلیف ہوئی کہ محض چند دنوں میں اقتدار کی ہوس میں برسوں کا تراشا گیا بیانیہ ہوا ہو گیا۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) میں جو ایک مخاصمانہ اور نفرت انگیز مہم جنگ جاری ہے وہ ساری حدیں عبور کر چکی ہے۔پاکستان ابتری کے جس دہانے پر کھڑا ہے و مزید نفرت اور انتقام کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔قوم مفاہمت اور مصالحت کی متمنی ہے لیکن اس کا کہیں وجود نظر نہیں آ رہا کیونکہ اسٹیبلشمنت،پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) مل کر پی ٹی آئی کا بھرکس نکالنے کیلئے متحد ہو چکے ہیں۔ایک طرف عوام ہیں جبکہ دوسری طرف سٹیٹسکو اپنے پورے جا ہ و جلال کے ساتھ مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے کیلئے بے تاب ہے۔یہ ایک ننگی حقیقت ہے کہ فروری ۴۲۰۲؁ میں قوم نے پی ٹی آئی کو اپنے مینڈ یٹ سے نوازا۔لیکن مسلم لیگ (ن)، اسٹیبلشمنٹ اور پی پی پی نے باہمی گٹھ جوڑ سے اس مینڈیت کا جو حشر کیا قوم کانوں کو ہاتھ لگا رہی ہے۔چوری اور اوپر سے سینہ زوری نے عوام کو مشعل کر رکھا ہے اور وہ اس باطل نظام کو مٹانے کیلئے سینہ سپر ہو چکی ہے۔ ابھی نہیں کبھی نہیں کی سوچ نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے لہذا اب وہ کچھ ہو کر رہیگا جو کسی نے سوچا نہیں تھا۔ظلم کو مٹنا ہے چاہے غنیم اپنا سارا زورِ بازو بھی آزما لے۔بقولِ شاعر (ظلم و ستم کی وہ آندھی چلی۔،۔ گرگے ہیں ہاتھوں سے سارے رباب)۔،۔(صدیوں سے پھیلے ہوئے گھپ اندھیرے۔،۔مٹ کرر ہیں گے یہ سارے جناب)۔،۔عقل و دانش سے عاری قیادت جب ملک پر مسلط کر دی جاتی ہے تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو اب ہمارے سامنے ہے۔ معیشت،سیاست، بینکاری،،معاشرت او ر عالمی سیاسی منظر نامہ کو سمجھنے کیلئے جس فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے مارشل لائی قیادت اس سے بالکل تہی دامن ہوتی ہے۔خود کو عقلِ کل سمجھنے والی قیادت عوامی امنگوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو تی ہے لہذا ملکی بقا داؤ پر لگ جاتی ہے۔ مال و دولت سے کسی کو عقل و دانش کا تحفہ تو عطا نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو ایک خدا داد صلاحیت ہو تی ہے جو کسی انسان کو ودیعت کر دی جاتی ہے۔اگر عقل و دانش بکاؤ مال ہوتی تو دنیا کے سارے امرء، ہی اپنے سر پر فلاسفری اور دانش وری کا تاج پہن لیتے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ابراہم لنکن جیسا خانہ بدوش انسان اپنی فہم و فراست سے عا لمی سیاست کا ایک ایسا چمکدار ستارہ بن جاتا ہے جس کی چمک دمک وقت کا بے رحم ہاتھ بھی ختم نہیں کرسکا۔ ذولفقار علی بھٹو بھی ایک ایسا ہی ستارہ تھا جو آسمانِ سیاست پر پوری آب و تاب سے چمکا اور ملکی سیاست کو بامِ عروج تک لے گیا۔اس کی دانش اور اس کی فہم و فراست کی دنیا گرویدہ تھی۔جب وہ بولتا تھا تو مخا لفین بھی دنگ رہ جاتے تھے۔اس نے سیاست کو جو آہنگ عطا کیا عوام اس کے گرو یدہ تھے۔اس کی عطا کردہ عوامی سیاست کا دلکش آہنگ آج بھی ہماری سیاست کا طرہِ امتیاز ہے جس تک مال و دولت اور پیسے کی سیاست کرنے والے اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ہمارے ہاں ایک نئی روائت جنم لے چکی ہے کہ ہر وہ جماعت جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیتی ہے اس کا جینا حرام ہو جاتا ہے۔کئی وزرائے اعظم اس سوچ کی بھینٹ چڑھ چلے ہیں۔اس وقت پی ٹی آئی کو انتقام کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اور جی بھر کر اس کے خلاف عدالتی فیصلے حاصل کئے جا رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ کسی کی بات پر کان نہیں دھر رہے۔انھیں جس سے محبت ہے وہ اسی کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن اندھی طاقت میں بد مست مقتدرہ ایسی عوامی سوچ کو کب گوارا کرتی ہے لہذا احتسابی شکنجہ مزید سخت کیا جا رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ اس سوچ کو خیر آباد کہہ دیا جائے نہیں تو ملک و قوم کو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑیگا۔ذاتی نا پسند اور پسند جمہوری روح کے خلاف ہے لہذا اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسی ہر سوچ سے بالا تر ہونا ہو گا۔ان کے سامنے جمہور کا فیصلہ ہی حرفِ آخر قرار پانا چائیے اور اس فیصلے کو من و عن لاگو بھی ہو نا چائیے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہو پاتا جس سے انگنت مسائل جنم لے رہے ہیں۔عوامی حاکمیت کو تسلیم کرنا بابائے قوم کے فرمودات کاا طباع کرناہے،بی بی شہید اور ذولقار علی بھٹو کی آواز کو تونائی بخشنا ہے۔آئیے عہد کریں کے جمہور جسے اقتدار کا پروانہ عطا کریں اسے ہی ملکی معاملات کو چلانے کا حق تفویض کیا جائے۔اسٹیبلشمنٹ ایک زندہ حقیقت ہے اور آئینی حدود کے اندر رہ کر اس کی رائے کو اہمیت دی جانی چائیے لیکن اسے طالع آزما ئی کی اجازت نہیں دی جا سکتی کؤنکہ ایسا کرنا آئین سے بغاوت ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں