0

-,-شہید انسانیت۔ پہلو۔ جدائی۔صابر مغل -,-

0Shares

-,-شہید انسانیت۔ پہلو۔ جدائی۔صابر مغل -,-
بچھوڑا بہت المناک ہوتا ہے وہ بھی جب کوئی اپنا جان سے پیارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے۔ قانون فطرت کے مطابق ازل سے یہ نظام ہے کہ کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے زندگانی فانی ہے مگر ہمیں یوں لگتا ہے جیسے سبھی کچھ یہی ہے حالانکہ دنیا کے ہر شخص خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے موت کی حقیقت سے وہ بھی انکاری نہیں۔ ہم تو مسلمان ہیں ہمارا عقیدہ ہی یہی ہے کہ موت آئے گی پھر روز محشر سب اپنی زندگی میں لوٹ کر اپنے اپنے اعمال مطابق یا رب الرحمٰن و الرحیم کی رحمت سے آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔ اللہ پاک نے لوگوں کو پہلے مختلف قبائل میں منقسم کیا پھر خاندان میں اور انہی میں کنبے تشکیل پائے۔ ہر کنبہ بے پناہ محبت جذبات اور قرابت میں منسلک ہوتا ہے کوئی باپ ہے کوئی ماں ہے کوئی بیٹا ہے کوئی بیٹی ہے اسی طرح یہ انمول رشتے مزید حسین رشتوں سے جڑے نظر آتے ہیں اور قانون الہی اور بطور ہمارے عقیدے کے مطابق کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ کچھ اندازہ نہیں ہوتا ان رشتوں میں سے کون کب اور کیسے ہمیں داغ مفارقت دے جائے۔ اللہ پاک نے بھی نظام زندگی کو یوں ترتیب دیا کہ وقتی قیامت خیز تکلیف کے باوجود کچھ ہی دن بعد سب معمول مطابق چلنے لگ جاتا ہے۔ بس جنازہ گھر سے نکلنے کی دیر ہے یہ کرو وہ کرو مہمانوں کو کھانا کھلاو وغیرہ کی نذر ہوتا جاتا ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی رشتوں میں سے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ہزار بار بھلانے کی کوشش کے باوجود دل کی دھڑکنوں میں ہی بسیرا کئے رکھتے ہیں۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ان جدا ہونے والے رشتوں میں صرف خونی رشتے ہی انسان کو جیتے جی نہیں مار دیتے بلکہ بعض جذباتی رشتے ان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔چند سال قبل میرے ایک دوست شاہد عزیز شاہ کی اچانک موت واقع ہوئی تو تب لکھا تھا کہ۔۔ سب بچھڑتے جا رہے ہیں۔۔ اصل میں اس سے قبل بہت سے ایسے جوانی کے ہم جولی کنارا کر گئے جن کی جدائی کا روگ سا لگنے کے علاوہ ڈر سا بھی لگنے لگا تھا۔ آج یہ اذیت ناک موضوع پھر سے دل و دماغ پر سوار ہے رات سے سوچوں کے سبھی دھارے ایک ہی سمت ایک ہی جانب۔ کچھ سوچتے سوچتے أنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ 4 جون 2008 کی تپتی دھوپ میں چھوٹا بھائی غلام نبی کاشف المعروف ٹونی مغل اپنی ٹویوٹا وین لے کر روٹین سے ہٹ کر براستہ ستگھرہ رینالہ خورد سواریاں کے کر نکل گیا۔دریائے راوی پر قائم ہیڈ بلوکی سے نکلنے والی ایل بی ڈی سی ینالہ خورد شہر سے منسلک ہے یہاں پر انگریز دورمیں قائم کردہ پن بجلی گھر کی وجہ سے سے نہر دو بڑے حصوں میں منقسم ہے شہر سے نکلنے والی سڑک نہر کے دونوں حصوں پر سے گذرتیی ہے یہ درمیانی جگہ ایک سٹاپ کی مانند ہے جہاں ویگنیں اور رکشوںں کہ بہتات ہوتی ہے اسی جگہ پر برادرم کاشف مغل چند دوستوں کے ساتھ چائے پی رہا تھا کہ اس دوران ایک 20 سالہ نامعلوم نوجوان نے خود کشی کی وجہ سے نہرمیںں چھلانگ لگا دی نہر کا یہ پل عام طور پر دیگر پلوں کی نسبت کافی چوڑائئ پر مشتمل ہے ایل بی ڈی سی کی عمومی گہرائی 16فٹ ہے مگر یہاں اس کی گہرائی ہے 35 فٹ کے قریب ہے۔نوجوان کی خودد کشیی کا یہ خوفناک منظر دیکھ کر بھائی کے اندر کی انسانیت نے انگڑائ لی اور اس نے لمحہ بھر میں اسے بچانے کی ٹھان لی تب وہیں بیٹھے اس کے دوستوں نے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی بے یہاں تک کہ اس کشمکش میںں اس کی قمیض پھٹٹ گئ مگر وہ باز نہ أیا بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص نے تو اسے موت کے منہ میں جانے سے روکنے کے لئے موٹر سائیکل تک اس کے پیچھے لگا دی مگر جب شہادتت مقدر میں ہو تو کیارکاوٹ آ سکتی ہے۔کاشف مغل نے اپنی پوری زندگی نہایت پراسرار انداز میں گذاری۔ بلا کا بہادر۔ جی دار۔ کبھی اس کے چہرے پر خوف نہیں دیکھا۔ ایک وقت ایسا بھی أیا کہ اس نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا مگر اس کے قدم کہیں بھی ڈگمگائے نہیں۔ اس عجب دنیا میں داخل ہو کر بھی اس نے کبھی کسی غریب کو تنگ نہیں کیا تھا اس کے پاس جو کچھ ہوتا دوستوں پر گھر پر اور بالخصوص بچوں پر اسی وقت لگا دیتا اسے بچوں سے بہت انس تھا۔رینالہ خورد کے صحافی بھائیوں بالخصوص بلال تبسم اور قریبی چک 24 ٹو آر کے لوگوں کی انسان دوستی کبھی نہیں بھلائی جا، سکتی۔ پولیس۔ ضلعی انتظامیہ اور تین دن تک ہزاروں افراد کی اظہار ہمدردی کے سلسلہ میں نہر کنارے أمد نہیں بھول سکتی۔ ہمیں تین دن شب روز محنت کے بعد اس کی ڈیڈ باڈی6 جون کی صبح اوکاڑہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے سے ملی۔ کیا کمال قدرت ہے تب وہاں گھاس پھوس اور کچے راستے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا مگر اب شہید انسانیت غلام نبی کاشف مغل کی میت نے جہاں ہمارَ ا رخ کیا وہاں اس وقت اوکاڑہ کی سب سے بڑی درسگاہ (اوکاڑہ یونیورسٹی) قائم ہے۔ وہ بچھڑ گیا۔ ہمیں بھی اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے مگر وہ بھولتا ہی نہیں بلکہ بھلایا جانے والا وہ تھا بھی نہیں۔ 2008 کے بعد سے جب بھی براستہ رینالہ خورد لاہور جانا ہوا یا واپسی ہوئی اس مقام پر شہید کے درجات کی بلندی کے لیے خود بخود ہاتھ رب عظیم کے حضور پھیل جاتے ہیں۔ کاشف بھائی أج بھی تو ہمارے من میں زندہ ہے ہمارا بڑا بھائی سرور انجم مغل روزانہ دعا فرماتے ہیں والدہ محترمہ 100 سال کے قریب عمر کے باوجود ضعیف العمری میں بھی اس کی أخری آرام گاہ پر جانا نہیں بھولتیں۔ سب بچے اسی بات پر پشیمان رہتے ہیں کہ کاش ہمارا چاچو ہمیں کہیں لے جاتا۔ 16 سال بیت گئے لگتا ہے یہ کل کی بات ہے۔ہم آج بھی اس کی وجہ سے نڈھال ہیں۔کہتے ہیں ایک شہید پورے خاندان کی بخشش کا ذریعہ ہوتا ہے۔ أپ تو تھے اور طرح کے انسان۔ من موجی۔مگرقدرت کا کرشمہ دیکھیں وہی شخص اب ہماری بخشش کا سبب بنے گا جسے ہم سب کچھ اور ہی سمجھتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں