0

-,-غریب عوام کے اہداف (پہلو- صابر مغل)-,-

0Shares

-,-غریب عوام کے اہداف (پہلو- صابر مغل)-,-

میں ایک عام شہری ہوں قیام پاکستان کے وقت میرے آباواجداد نے بے شمار جانی و مالی قربانیوں کے بعد اس پاک دھرتی پر قدم رکھا لٹے پٹے پاکستان پہنچے مصیبتوں اور دکھوں کے مارے ہمارے بڑے آج کل کی اشرافیہ کے اجداد کی مانند نہ تو شاطر تھے اور نہ ہی ماضی میں انگریز سرکار کے چرنوں میں بیٹھ کر وسائل کی دولت سے مالا مال ہوئے تھے۔ رہنے کو مکان مل گیا دو ایکڑ زمین مل گئی بعد میں وہ بھی مقامی وڈیروں کو ہضم نہ ہونے پر نہ رہی۔ بہت آس امید اور درخشاں مستقبل کا سارا منظر ان کے سامنے تھا۔ وطن عزیز کو قائم ہوئے ایک دہائی گذر گئی تب تک بانی پاکستان اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم ابدی دنیا جا چکے تھے۔ وقت گذرتا گیا پاکستان دو لخت ہو گیا۔جس کے بعد کی دہائی میں ہمارے آباء بھی ہمارے اس دنیا میں نہ رہے۔ ہم نے بھی لوریوں میں سنہرے سپنوں کو سجایا ہوا تھ۔ پڑھیں گے۔ افسر لگیں گے۔ گاڑی ہو گی۔اس کچے اور خستہ حال مکان سے جان چھوٹ جائے گی رہنے کو اچھا گھر ہو گا کچھ خریدنے کے لیے بڑے بڑے شاپنگ پلازوں کو للچائئ ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا کریں گے۔ مگر کچھ نہ ہوا نہ کچھ بدلا بلکہ حالات اس سے بھی بدتر سے بدترین ہوتے چلے گئے اور ہماری بہتری کی خواہشات سب منوں تلے جا بسیں ہم ویسے کے ویسے یہ رہیجب ہم باقاعدہ ہوش و حواس میں آئے تب کسی نظام حکومت کی بات آتی تو سب سے جمہوریت ہی بہترین کی ڈھولکی میں وعدوں۔ لاروں۔ محبتوں۔ بہتری۔ خوشحالی کی مسحور کن آواز کانوں میں رس گھولتی ہم جھوم اٹھتے۔ بلکہ جب بھی پاکستان کی آسیب زدہ جمہوریت کی سلیکیش مطلب انتخابات ہوتے ہم تو سچ مچ میں رقص کرتے۔ ڈھولک کی تھاپ پر ہم کیا ہمارے بچے بھی بھنگڑا ڈالنے میں پیچھے نہ رہتے۔ سمجھ بوجھ کی زندگی میں نئی حکومت آئی ان کی طرف سے پہلا بیان ہی یہ سامنے أیا کہ پہلے والے سب تباہ۔ سب برباد کر گئے ہیں۔ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے خوشحالی و ملکی ترقی کا پہیہ سخت گیر حکومتی فیصلوں کے بعد اور عوام کی جانب سے قربانی لازم ہے۔ ہم نے سوچا جہاں سب بیت گیا یہ دن کچھ زیادہ نہیں یہی تو ہمارے اصل خیر خواہ ہیں جنہیں ہم نے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر۔ دن رات ایک کر کے کامیاب کروایا جن کی کامیابی کے لیے ہم نے نوافل تک مانے اور ادا کئے جن کی جیت پر ہم نے مٹھائی تقسیم کی اور لڈیاں ڈالیں۔خیر وہ مشکل فیصلے ہمارے لیے عذاب ناک تھے مگر جیسے تیسے ہم نے ہمت سے برداشت کر لیا۔ اگلی حکومت آئی جب اس نے بھی ملکی معیشت کی تباہی و بربادی کا سارا ملبہ ہماریہنماوں پر ڈالا تب پہلے تو ہم لرز سے گئے مگر کرتے کیا نہ کرتے۔ نئی قربانی کے لیے بھی کمر کس لی۔ مگراہنے آباواجداد کے حالات کی جان کاری کر کے۔خود کو اور اپنے بچوں کو دیکھ کر پریشان ضرور رہنے لگیکہ یہ کیا طرفہ تماشہ ہے یہ ہو کیا رہا ہمیں دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی تو کجا دو وقت کی روٹی تک ہم سے دوری اختیار کرنے لگی ہے بہرحال ہمارے بچے جنہوں نے کسی حد تک تعلیم حاصل کی وہ بے کار رہے کوئی اچھی ملازمت تو کیا درجہ چہارم بھی انہی موروثی خاندانوں کی مرہون منت تھی اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی نئی نسل کو کاموں پر لگا دیا۔ کوئی ہوٹل میں۔ کوئی ورکشاپ میں۔ کوئی ریڑھی لگا بیٹھا کوئی کسی گھر کا چوکیدار۔ کوئی آفس بوائے بس اسی نوعیت کے ملتے جلتے روزگار ہمارا نصیب بنے اور بنتے ہی چلے گئیہر وقت دھتکارہماری زندگی سے جیسے لازم و ملزوم ہو گئی حکومتوں کی تبدیلی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پہلا دوسرے پر دوسرا پہلے پر الزامات۔ بس ہم یہی سنتے رہے ٹی وی پروگرامز میں جب سیاسی کردار ایک دوسرے کی خوب طعن لعن کرتے۔ کرپشن اور ہمارا حق لینے کے لیے ذمہ داران کو گھسیٹنے جیسی باتیں یوں کرتے کہ پتہ یہ ہمارے حقوق ہر ڈاکہ زنی کرنے کرنے والوں کے ساتھ بہت عبرت ناک سلوک کریں گے اور یہی ہمارے لیے ہمارے بچوں کے لیے بہت کچھ کریں گے تب ہمارے چہروں پر شادابی کی ہلکی سی لہر ضرور آتی مگر کچھ نہ ہوا خواب سیراب میں منتقل ہوتے رہے مایوسیاں مزید جلوہ گر ہوتی رہیں۔ بس ہر حکومت بجٹ کے نام پر اپنے اپنے اہداف کے چکر میں ہمیں گھن چکر بنا ڈالتی پیستی رہی۔ہر بجٹ بلکہ سال میں نہ ان گنت بجٹ جن میں کوئی نیا عذاب بلکہ قہر بن کر ہم پرنازل ہوتا ہم زبوں حالی کی دلدل میں پھنستے اور دھبستے چلے گئے مگر اقتدارکی راہداریوں میں سب اچھا ہو گا کانعرہ مستانہ ضرور بلند ہوتا ریا ایک بات کا شعور ضرور دماغ کی رگوں میں پنپنے لگا کہ یہ ساری قربانی۔ یہ سارے اہداف۔ یہ ساری مصیبتیں۔ یہ سارے عذاب۔ یہ ساری ذلت۔ یہ ساری خواری۔ یہ غربت۔ یہ سب افلاس۔ یہ بے بسی۔ یہ دکھ۔ یہ غم۔ سبھی ہم جیسوں کے لیے ہی ہیں۔ ہم غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔کوئی بنیادی سہولت ہمیں میسر نہیں۔ ہم اسی آس و امید میں نیم مردہ ہو چکے ہیں ہمارے چہرے اپنی تازگی کھو چکے ہیں موت ہمارے دروازے پر ہے۔ہم میں سے اکثریت تو اسی غم میں۔ بھوک ننگ میں واقعی مردہ ہو جاتی۔بہت سوچا بہت غور کیامگر کچھ سمجھ نہیں آیا یوں لگتا ہے کہ آخر ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں ہماری حثیت گندی نالی کے پانی جیسے کر دی گئی ہے۔ہم انسان نہیں۔یہ وطن ہمارا نہیں۔اس کے وسائل ہر ہمارا کوئی حق نہیں مگر ان سب سوچوں کے دھارے کسی سمندر۔کسی صحرا یا بیابان کی نظر ہو جاتے ہیں۔ یہ دکھ ہماری رگوں میں شامل ہو چکا ہے کہ جنہیں ہم چنتے ہیں۔ اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں ان کی اولادوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے۔ ان کو چھوڑنے۔ لانے کے لیے فری اور لگژری گاڑیاں۔ اور سب اعلیٰ عہدوں کے لیے بھرتی ہو تو بھی انہی کی اولادیں کوئی گھر بیٹھے تحصیلدار۔کوئی تھانے دار۔کوئی اور کسی اعلی عہدے پر۔نہ ان سے رشوت لی جاتی ہے نہ ان کے بچے ہماری طرح دھکے کھاتے ہیں نہ ٹیسٹ دیتے ہیں کوئی بھی محکمہ لے لیں اس میں دیگر اعلیٰ عہدوں کے لیے بھی انہی کی اولادیں کامیاب اور ایسے سرکاری عہدوں کی جانب نہ گیا ان میں سے کوئی ایم پی اے کوئی ایم این اے یا کوئی سنیٹر (جس کی موجودہ دور میں بہترین مثال ہے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی خود چیرمین سینٹ اور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تین حقیقی بھائی ایم این ایز)۔أخر وہ کونسی امبر بیل ہے جس کو ہم یا ہماری اولادیں سمجھ نہیں سکتیں۔تب خیال آتا ہے پھر ہم کون ہیں؟ یہ سمجھ نہ ہمارے بڑوں کو أئی نہ ہمیں آئی نہ ہمارے آنے والی نسلوں کو آئے گی۔ در حقیقت ان کی دنیا ہی ہم سے الگ ہے۔ فرمان الہی سے کہ۔ سب انسان برابر ہیں۔ مگر یہاں تو ہمیں برابر بیٹھنے بھی نہیں دیا جاتا۔ ہم روٹی تو ترستے ہیں بنا دوا کے مرتے ہیں وہ کروڑوں اربوں ڈکار کر بھی عزت و منزلت پر۔ نہ قانون ان کے لیے نہ کوئی گرفت یہ لوگ ہماری انسانیت۔ہماری ذہانت ہماری امیدوں اور آسوں کا قتل عام کرتے ہیں ان کے اہداف بہت بڑے ہیں ہمارے اہداف تو بس اب روٹی کپڑا مکان تک محدود ہیں وہ بھی ہمیں میسر نہیں۔کاش ہمارے اہداف ہماری کوئی نسل ہی دیکھنے کے قابل بن جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں