0

۔،۔قربانی کا گوشت۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔قربانی کا گوشت۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
قربانی کے دن حسب ِ معمول ہر سال کی طرح میں اپنے گاؤں میں اپنی زمینوں پر قربانی کر نے میں مصروف تھا‘جون کا مہینہ سورج سوا نیزے پر آکر لوگوں کو اپنی تپش سے کباب کی طرح بھون رہا تھا قربانی کے جانور زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ گاؤں سے باہر کھلی فضا میں برگد کے درختوں کے نیچے قربانی کے جانور ذبح اور گوشت بنانے میں مصروف تھے گرمی کے زور کو توڑنے کے لیے ٹیوب ویل کے پائپ سے ٹھنڈے ٹھار میٹھے پانی کی آبشار ابل رہی تھی میں جو گرمی سے تنگ آجا تا جا کر ٹیوب ویل کی ٹھنڈی ٹھار آبشار کے نیچے بیٹھ جاتا ٹھنڈے پانی سے چند لمحوں میں ہی گرمی کی جگہ فرحت بخش احساس کے مزے لوٹتا میں ایک بار ٹھنڈے پانی میں بیٹھ کر آبشار کے نیچے سردے کر فرحت بخش پانی اور زیست آفریں پانی کی دھار کا لطف لے چکا تھا پھر میں ایک طرف لگ کر بیٹھ گیا اپنے جسم کو ٹھنڈے پانی کے حوالے کر دیا صبح سے سورج کی گرمی نے جو نڈھا ل کر رکھا تھا جسم کا ہر سلگتا مسام پانی کی حیات آفریں صحبت سے لطف اٹھا رہا تھا اوپر برگد کے درختوں کی گھنی چھاؤں پرندوں کی سریلی آوازیں ہوا کے جھونکے جو پہلے جسم کو سلگا رہے تھے اب وہ بھی ٹھنڈے محسوس ہو رہے تھے نہانے کے سرور بخش عمل کے ساتھ میں بچپن اور جوانی کے جھولوں میں جھول رہا تھا جب میرا بہت سارا وقت یہاں پر گزرتا تھا والد صاحب بڑے بھائی جان کے مسکراتے چہرے جو اب منوں مٹی کے نیچے آسودہ خاک ہیں میں عام انسانوں کی نسبت بہت زیادہ فطرت پسند ہو ں جب گاؤں میں ہو تا تھا اُس وقت بھی پڑھائی کے لیے کتاب پکڑی اور زمینوں کی طرف نکل جاتا ٹیوشن اکیڈمی کا تصور تو اُس وقت نہیں تھا لہذا ہر روز ایک کتاب پکڑنی اُس کو لے کر زمینوں کی طرف آجاتا اگلے دن دوسری کتاب کو چاٹنا شروع کر دیا لیکن فطرت میری نگہبانی کر رہی تھی مجھے شوق بھی تھا فطری ذہانت کی وجہ سے بغیر ٹیوشن اکیڈمی کے کلاسوں کی سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا آج میں ٹیوب ویل کے چھوٹے سوئمنگ پول کے کنارے لگا ان دونوں چہروں کو یاد کر رہا تھا ان چہروں میں سے بہت سارے تو دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے باقی چہروں پر بڑھاپے کی لکیریں نمودار ہو گئی تھیں یا معاش کے مسائل نے چہروں کی سرخی کی جگہ زردی نے لے لی تھی ان چہروں کی جگہ بہت سارے نئے چہرے آگئے تھے گوشت بنانے جانوروں کو پکڑنے زمین پر لٹاناپھر ذبح کر نے کا عمل نوجوان بچے نہایت پھرتی سے اپنا کام سر انجام دے رہے تھے ان کی جوانیاں جسم میں گرم پر جوش خون چہروں پر جوانی کی چمک اورچلنے پھرنے میں پھرتی اچھال طاقت مجھے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے جب میں دوستوں کے ٹولے کے ساتھ یہاں آتا یہاں پر دوڑ کے مقابلے کشتی کبڈی کے میچ ایک دوسرے کو دوڑ کر پکڑنے کی دھینگا مشتی یہاں پر ہی کھانا دودھ کی کھیر بنانی ساتھ باغات سے موسمی پھل لے کر آتے یا پھر شیریں میٹھے گنوں کا رس پینا تربوز خر بوزے گاجریں جس پھل کا موسم ہو تا اُس سے لطف اُٹھانا میں اچھلتے کودتے نوجوانوں کو دیکھ کر ان کی جوانی دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا ان کے چست پتلے پھرتیلے جسم اور رگوں میں اچھلتا کودتا تازہ خون جوانی واقعی جوانی ہو تی ہے جس کا اپنا ہی نشہ ہو تا ہے اِس کا پہلی بار مجھے اُس وقت احساس ہوا جب ماسٹر ڈگری کے دوران ایک پاکستان کے کبڈی کے کھلاڑی کو ایک درخت کے نیچے گراؤنڈ کے کنارے اکیلے مسکراتے دیکھا کوئی اُس کے پاس نہیں تھا لیکن وہ اپنی ہی ذات کو انجمن بنائے اپنی انجمن سے لطف لے رہا تھا میں اُس کے پاس حیران ہو کر گیا وہ پاکستان کے کبڈی ٹیم کا کھلاڑی طاقت اور جوانی کا بھرپور امتزاج جس کی رگوں میں جوان طاقتور خون گردش کر رہا تھا میں پاس گیا تو وہ میری طرف دیکھ کر بھرپور مسکرایا اور میں بولا یار کیا بات ہے کس بات پر اکیلے ہی مسکرا رہے ہو تو اُس نے مجھے گرم جوش زندگی سے بھر پور جپھی ڈالی اور بولا یار بھٹی اے جوانی دا نشہ ائے میں اپنی جوانی کے نشے کو انجوائے کر رہا ہوں جوانی وہ وقت جب جسم کے ساے اعضا تندرست ٹھیک پھرتیلے اور جسم کے سارے نظام اپنے نقطہ عروج پر پھرتی چستی جوبن پر اور میٹھی گہری نیند کے مزے معدہ اور سارے نظام بھرپور کام کر تے ہوں تھکاوٹ کمزوری درد نام کو نہیں ڈپریشن مایوسی تھکاوٹ کا پتہ تک نہیں انسان کو اپنے علاوہ کسی کی پروا نہیں ہو تی اور پھر بڑھاپے میں جب اپنا جسم ہی اپنا نہیں رہتا توازن کنٹرول ختم اعضا اور جسمانی نظام کمزور سست بڑھاپے کا شکار میں بھی کیونکہ بڑھاپے کی وادی میں اتر چکا ہوں اِس لیے نوجوانوں کو حسرت اور رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اِسی دوران میرے بچپن کا دوست میرے قریب آکر کھڑا ہو گیا پہلے تو ٹیوب ویل کی موٹی دھار پر ہونٹ رکھ کر اپنی پیاس بجھائی پھر میری طرف دیکھا اُس کو دیکھ کر میں پانی کے ٹھنڈے حوض سے نکل آیا کپڑے پہنے اور اُس کی خود داری کا خیال کر تے ہوئے اُس کو گوشت کے ڈھیر کے پاس لے گیا جہاں پر لڑکے ضرورت مندوں کو 1کلو 2کلو گوشت دے رہے تھے میں اپنے دوست کی غربت خوداری سے واقف تھا اُسے کہاجناب آپ اپنی مرضی سے گوشت اٹھائیں جتنا آپ کو ضرورت ہے تو وہ نیچے بیٹھ گیا دو شاپر نکالے ان میں گوشت بھرنا شروع کر دیا دونوں لفافوں میں تقریبا پانچ پانچ کلو گوشت بھرلیا اب اُس کے پاس دس کلو گوشت تھا لڑکوں نے تھوڑا اعتراض کیا لیکن میں نے روک دیا اُس کو الوداع کرنے لیے اس کے ساتھ تھوڑا چل پڑا تو وہ بولا یا رمیں شرمندہ ہوں زیادہ اٹھا لیا لیکن میں یہ گوشت سارا سال کھاؤں گا ویسے تو میں غربت کا مارا گوشت لے نہیں سکتا اِس کو وڑیاں ڈال ڈال کر خشک کر وں گا پھر ہر ماہ نکال کر کھاؤں گا وہ بول رہا تھا میں ششدر ہو کر اُس کی باتیں سن رہا تھا مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اب خشک گوشت کھانے پر مجبور ہیں آپ سے بھی اگر کوئی زیادہ گوشت مانگے تو ضرور دیں پتہ نہیں اُسے پھر گوشت نصیب ہوکہ نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں