0

۔،۔ فیصلے کی گھڑی ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ فیصلے کی گھڑی ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان انتہائی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور انھیں بخوبی علم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس طرح نبرد آزما ہو نا ہے۔آج کل ان کا جلال اپنے عروج پر ہے اور انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔پی ٹی آئی شائد اس طرح کے اظہارِ رائے کی متحمل نہیں ہو سکتی جس طرح کا اظہارِ رائے مولانا فضل الرحمان کی زبان سے فصاحت و بلاغت کی صورت میں سننے کو مل رہا ہے لیکن ان کو پھر بھی ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ ان کی ڈنڈہ بردار سپاہ سے حکومتیں خو ف کھاتی ہیں۔۴۲۰۲؁ کے انتخابات میں جس طرح کی دھاندلی کا طریقہِ واردات اپنا یا گیا ہے اس نے سب کو مبہوت کر کے رکھ دیا ہے۔ہلکا پھلکا میوزک تو سدا سے ہی چل رہا تھا لیکن اس دفعہ (فروری ۴۲۰۲؁) میں تو ساری حدود ہی پھلانگ دی گئی ہیں جس سے عوام میں شدید اضطراب اور غم و غصہ پایا جا تا ہے۔عوام مہذب دنیا کے اطوار اپنانا چاہتے ہیں لیکن چند طالع آزما ایسا ہونے نہیں دے رہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف دھاندلی سے شروع ہونے والی کہانی کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ صیاد بھی کئی دفعہ اپنے دام میں آتے رہے لیکن دھاندلی والی ان کی عادت ِ دیرینہ ان سے رخصت نہیں ہو سکی۔اسٹیبلشمنٹ کی اپنے مضبوط ترین گھوڑے میاں محمد نواز شریف سے ان بن ہو گئی تو انھیں ایک کمزور عدالتی فیصلے سے نا اہل کروا دیا گیا تا کہ کسی دوسری جماعت کو اقتدار کی مسند عطا کی جائے۔ میاں محمد نواز شریف سے یہ بات ہضم نہ ہو سکی کہ ان کے اپنے سر پرستوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے لہذا وہ اس میں ملوث چند کرداروں کو جن میں چیف جسٹس ثاقب نثار (بابا رحمتے) آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سرِ فہرست ہیں انھیں نشانے پر رکھے رکھتے ہیں تاکہ ان کے دل کی تشفی ہو جائے اور ان کا غم و غصہ قدرے ماند پڑ جائے۔ان کی ہر پریس کانفرنس ان افراد کے ذکرِ خیر کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ہونا بھی یہی چائیے کہ ہر وہ کردار جو طالع آزمائی کو ہوا دیتا ہے اسے مستوجبِ سزا ہو نا چائیے تا کہ آنے والے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔ریاست تو سب کی ہوتی ہے اور ہر شہری کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق انصاف اس کا بنیادی حق ہے لیکن اگر وزیرِ اعظم کو ہی روندھ دیا جائے تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟بہت ہو گیا اب ایسی روش کا خاتمہ ہونا چائیے اور عوامی رائے اور آئینِ پاکستان کا احترام ہو نا چائیے اور اس کی روح پر مکمل عمل در آمد ہو نا چائیے۔کسی کو سازش سے اس کے منصب ِ جلیلہ سے ہٹانے کا سلسلہ رک جانا چائیے کیونکہ پاکستان اب اس طرح کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔،۔ اب اس بات کا کیا کیا جائے کہ میاں محمد نواز شریف جس آرمی چیف کو دن رات تنقید کا نشانہ بناتے نہیں تھکتے اسی آرمی چیف کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کیا۔انھیں ایکسٹینشن بھی دی اور پھر نئے آنے والے آرمی چیف کی نگاہوں کے سامنے وہ کچھ ہو گیا جو وہم و گمان و خیال سے ماوراء تھا۔ہارے ہوئے لوگ پارلیمنٹ میں گھس کر پارلیمنٹ کا تقدس پامال کر رہے ہیں اور میاں محمد نواز شریف کو اس پر کوئی ندامت اور پچھتاوا نہیں ہورہا۔یہ سچ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی سیاسی تربیت جنرل ضیا الحق جیسے سفاک آمر کی گود میں ہوئی ہے لیکن تین دفعہ وزارتِ عظمی کا اعزاز پانے کے بعد انسان کی سوچ اتنی تو بدل جانی چائیے کہ وہ اس بات پر ڈٹ جائے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور اس کا تقدس انتہائی ضروری ہے۔کوئی اپنے مخالف کو دھاندلی سے ہرا کر فتح کے شادیانے کیسے بجا سکتا ہے؟بہادر دھاندلی سے نہیں بلکہ امانت و دیانت سے اپنی فتح کا محل تعمیر کرتے ہیں اور پھر حق سچ کا ساتھ دینے والے ہی ساحلِ مراد سے ہمکنار ہو تے ہیں۔دوسروں کے کندھے وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جھنیں اپنے قوت ِ بازو پر بھروسہ نہیں ہوتا۔میری ذاتی رائے ہے کہ پاکستان کو اس سارے بحران سے میاں محمد نواز شریف کی ذات ہی نکال سکتی ہے۔انھیں جراتِ رندانہ کا مظا ہرہ کرنا ہو گا اور موجودہ اسمبلیوں کو چلتا کرنا ہو گا کیونکہ یہ دھاندلی کی پیداوار ہیں۔یہ سچ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑھ کے نتیجے میں اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے جس میں پی پی پی برابر کی شریک ہے۔مسلم لیگ (ن) کو وزارتِ عظمی جبکہ پی پی پی کو صدارت مل گئی۔پنجاب میا ں محمد نواز شریف کی سپتری مریم نواز کے نام لکھ دیا گیا اور یوں بندر بانٹ کا یہ سلسلہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس طرح کی غیر آئینی حرکات سے پی پی پی کو شدید زک اٹھا نی پڑ رہی ہے اورپنجاب میں اس کا رہا سہا وقار بھی ہوا ہو گیا ہے کیونکہ یہ سارا انتظام مصنوعی، غیر آئینی اور دھاندلی پر مبنی ہے۔عوام بزدلوں کو نہیں بلکہ بہادروں کو پسند کرتے ہیں۔وہ جی داروں کی محبت کے گیت گاتے ہیں۔چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف ایک آل پارٹی کانفرنس بلائیں اور اس میں رول آف دی گیم طے کریں اور اس بات کا ساری سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ آ ئیندہ ہونے والے انتخابات صاف،شفاف،غیر جانبدار اور دھاندلی سے پاک ہوں گے۔دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔انسان عزمِ مصمم کرلے تو سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔ تین دفعہ کے وزیرِ اعظم کا اعزاز حاصل کرنے والے میاں محمد نواز شریف کو موجودہ کھیل میں کیا ملا،؟ سوائے بدنامی اور رسوائی کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ایک تنہائی،خاموشی اور پچھتاوے کا آسیب ہے جو انھیں چین سے جینے نہیں دے رہا۔انھیں اپنی ذات سے اوپر اٹھنا ہو گا۔اور اپنی آخری چند سالہ زندگی میں وہ کچھ کر نا ہو گا جس سے عوام انھیں ہیرو کا درجہ دیں اور وہ تبھی ممکن ہے جب وہ عوامی جمہوریت کا اہتمام کریں گے اور دھاندلی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کریں گے۔انھوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا لیکن بھیک شدہ اقتدار قبول کر کے اپنے ہاتھوں سے اس نعرے کی قبر کھود دی۔اپنی بیٹی کے اقتدار کی خاطر انھیں کوئی چیز یاد نہ رہی حالانکہ انھیں بخوبی علم ہے کہ ان کی بیٹی کے ا قتدارکے پائے دھا ندلی اور بد دیانتی پر رکھے ہوئے ہیں۔ایک دفعہ سب کو کڑوا گھونٹ پینا ہو گا اور طالع آزماؤں کو روکنا ہوگا۔صرف ایک بار جرات دکھانی ہو گی اس کے بعد جمہوری نظام خود بخود پٹری پر چڑھ جائے گا اور کسی کو طالع آزمائی کی ہمت نہیں ہوگی۔بھارت میں دھاندلی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہوتی حالانکہ وہ تو اسلامی ریاست بھی نہیں ہے۔حق و صداقت کا علم تو سدا سے مسلمانوں کے پاس رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کے ہاں آئین و قانون سے انحراف دیکھنے کو ملتا ہے۔دشمن کو خوش ہونے کا موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ قوم جو سچائی اور اما نت و دیانت کی علمبردار ہے اسی کے ہاں جھوٹ، منافقت، بد دیانتی اور شب خونوں کا بازار گرم ہے۔اے میرے وطن کے لیڈرو اس قوم پر رحم کرو اوراور اقتدار کی ہوس سے باہر نکل آؤ۔ اس مملکتِ خدادا کے قیام کیلئے عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی،آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا، اپنے پیاروں کے جسم کٹتے دیکھے تھے اور اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کو پامال ہوتے دیکھاتھا۔آزادی کی نعمت ایسے تو نہیں ملی تھی لیکن اب شائد ہماری سیاسی قیادت کا احساس مردہ ہو چکا ہے تبھی تو انھیں کسی کی آہ و بکاء سنائی نہیں دیتی۔ان کے دل ودماغ پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ اقتدار کا وارث کون بنے گا۔؟؟پاکستان ڈوب رہا ہے لیکن وہ اقتدار کی لیلی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔عام آدمی چیخ رہا ہے دہائی دے رہا ہے لیکن کوئی اس کی فریاد سننے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ سب کو خاندانی اقتدار کی خواہش مدہوش کئے ہوئے ہے۔ اقتدار عوام کی اما نت ہے اسے عوام کو واپس کر دو۔تمھارا ایک فیصلہ پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت بدل کر رکھ دے گا۔اٹھو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ ا ب مزید دیری پاکستان کو مزیدغیر مستحکم کر دے گی۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں