0

-,-لال آندھی (پہلو۔ صابر مغل) -,-

0Shares

-,-لال آندھی (پہلو۔ صابر مغل) -,-

دوپہر کا وقت تھا گاوں کے درمیان چوک میں برگد کے گھنے درخت تلے گرمی کی حدت اور شدت سے بچنے کے کافی لوگ بیٹھے تھے کچھ بارہ ٹانی۔ کچھ کپڑے پر بنی لڈو۔ کچھ تاش کھیل رہے تھے باقیوں میں کچھ حقہ کے ارد گرد ہالہ بنائے بیٹھے جوانی کی من گھڑت گپیں ہانک رہے تھے انہی میں سے کچھ موجودہ ملکی حالات پر تجزیہ نگاری کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے کوئی مہنگائی کا رونا رو رہا تھا کوئی بچوں کی تعلیم۔ صحت پر اپنا مدعا بیان کر رہا تھا کوئی بے روزگاری پر بے چارگی کی داستان سنا رہا تھا انہی میں سے چند تھکے مارے ٹھنڈی چھاؤں اور ہوا کی آغوش میں بے سدھ پڑے تھے میں بھی وہیں ایک جگہ گم سم بیٹھا سب کچھ سن اور دیکھ رہا تھا تب فجے نے ساجو سے پوچھا اوئے ساجو ہر وقت ریڈیو کان سے چپکانے رکھتے ہو کوئی خیر خبر ہمیں بھی بتا دو مہنگائی کا یہ ہیبت ناک عذاب یہ ریلا کم ہو رہا ہے کہ نہیں ساجو نے جواب دے کر سب کو سکتے میں ڈال دیا کہ مہنگائی سے کم ہونے کی امید لگانے والو گھر میں فاقہ کشی کا رونا رونے والو بجلی پھر 7 روپے کے قریب فی یونٹ مہنگی ہو چکی ہے چاچا فجا تو جیسے پہلے ہی پریشان یا کسی بات پر تپا بیٹھا تھا اس نے ساجو کی خوب کلاس لی جیسے ساری مہنگائی۔ بے روزگاری۔مفلسی۔اذیت۔بے چارگی۔لاچارگی اور تکالیف کا ذمہ دار ساجو ہی ہے اسی اثناء میں موسم بارے خوشی محمد نے پوچھا تو ساجو نے بتایا کہ اس نے ابھی ریڈیو سے سنا ہے مزید 4۔ 5 دن گرمی کے بعد بارش کی توقع ہے۔ یہ سب حسب معمول چل رہا تھا مگر ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ شمال کی جانب سے ہلکی سی بدلی نمودار ہوئی سب نے ساجو کی خوب کلاس کی کہ تم تو کہہ رہے تھے موسم اسی طرح دھوپ کی تمازت سے بھرپور رہنا ہے مگر وہ دیکھو کیا ہے اس دوران بدلی کا وہ ٹکڑا وسعت اختیار کرتا ہوا تیزی سے قریب آنے لگا مزید قریب آیا تو تایا علم دین نے سب کو چوکنا کرتے ہوئے بتایا کہ بیٹا یہ آندھی سیاہ کی بجائے سرخ مائل ہے۔ اس زمانے میں یہ بات عام تھی کہ علاقہ بھر میں جب بھی سرخ رنگ کی آندھی آئے سمجھو کوئی بہت بڑا ظلم اور بالخصوص قتل ہوا یا ہوئے ہیں یہ بات مکمل بھی نہیں ہوئی کہ اچانک اور انتہائی سرعت سے آنے والی تیز اور لال آندھی نے کسی کو بھی سنبھلنے کا موقع نہ دیا اصل میں وہ آندھی نہیں بلکہ بہت بڑا طوفان تھا جس کی زد میں جو آیا تہس نہس ہوتا چلا گیا۔ درخت جھولتے جھولتے یکے بعد دیگرے اکھڑنے لگے غریب لوگوں کے کچے مکان ان کی جھونپڑیاں اس طوفان کی طوفانیت برداشت نہ کر سکے کئی گھروں کی چھتں اڑ اور دیواریں گر گئیں گھر تباہ فصلیں تباہ درخت یوں گرے جیسے کسی انہونی طاقت نے دھکا دیا ہو گاوں کے سبھی مرد و زن بھاگم بھاگ بچوں کو اٹھائے کھلی جگہ کی جانب بڑے جس قدیمی درخت کی گھنی چھاوں تلے گاوں کے درجنوں افراد آ کر بیٹھتے تھے سستاتے تھے وہ بھی اچانک آنے والی سرخ آندھی کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا آندھی کا یہ سلسلہ کچھ آگے بڑھا تو پیچھے سے آنے والے کالی گھٹاوں نے دن کو رات میں بدل دیا موسلا دھار بارش اور ناقابل یقین حد تک ژالہ باری کے بڑے اولوں نے سب کچھ تہس نہس کر دیا کڑکتی دل دہلا دینے والی اور بار بار گرتی آسمانی بجلی نے متعدد افراد سمیت جانوروں کی بڑی تعداد کو جلا کر بھسم کر دیا شدید ژالہ باری کی وجہ سے نہ کوئی جانور محفوظ رہا نہ کوئی انسان نہ ہی کوئی فصل اپنا توازن برقرار رکھ سکی۔ موسم کی شدت قدرے کم ہوئی اور اندھیرا چھٹنے پر تب علم ہوا کہ بڑوں۔ نوجوانوں۔ عورتوں اور بچوں کی اولے لگ لگ کے اس قدر قابل رحم حالت ان کی تکلیف کراہ و چیخ وپکار نہ دیکھی جا رہی تھی نہ سنی جا رہی تھی دوسری جانب دیکھا گھروں کے گھر ڈھیر میں تبدیل۔اس ساری المناک صورتحال میں مجھے چاچے بشیر نے پکڑے رکھا ابھی ہم اس طوفان کی تاریخی تباہ کاریوں کو ہی دیکھ رہے تھے کہ اس دوران نہ جانے کدھر سے متعدد ناگ دوڑتے نظر آئے خوف کے مارے میں چیخ کر اٹھ کھڑا ہوا۔کمرے میں اے سی آن ہونے کے باوجود پسینے سے شرابور اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا میں بھی سلامت میرا کمرہ بھی سلامت باہر نکلا تو گھر بھی سلامت۔ سب گھر والے بھی سلامت تب ہوش آیا کہ یہ خواب تھا کوئی بہت ہی ڈراونا خواب۔ میں چند روز قبل ہی بیرون ملک سے واپس وطن آیا تھا اس خواب نے مجھے جھنجھوڑ کر توڑ کر رکھ دیا میری خوف زدگی کا عالم یہ تھا کہ میں دو دن بعد ہی سب کے روکنے کے باوجود بیرون ملک نکل آیا واپسی سے قبل گھر والوں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ بھی جلد از جلد میرے پاس چلے آئیں مگر وہ نہیں مانے۔دعا ہے اللہ پاک میرے وطن عزیر کو میری پاک سر زمین کو ہر قسم کی بلا سے محفوظ رکھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں